سب سے بہتر تو یہ ہوگا کہ اپنی اولاد کے نکاح کیلئے حضرتِ خاتونِ جنّت شاہزادئ اسلام فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاحِ پاک کو نمونہ بناؤ اور یقین کروکہ ہماری اولاد ان کے قدم پاک پر قربان اور یہ بھی سمجھ لو کہ اگر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مرضی ہوتی کہ میری لختِ جگر کی شادی بڑ ی دھوم دھام سے ہو اور صحابۂ کرا م سے اس کیلئے چندہ (نیوتا)وغیرہ کیلئے حکم فرمادیا جاتا تو عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خزانہ موجود تھا۔ جو ایک ایک جنگ کیلئے نو نو سو اونٹ اور نو نو سو اشرفیاں حاضر کردیتے تھے۔لیکن چونکہ منشا یہ تھا کہ قیامت تک یہ شادی مسلمانوں کیلئے نمونہ بن جائے۔ اس لیے نہایت سادگی سے یہ اسلامی رسمیں ادا کی گئیں۔ لہٰذا مسلمانو! اوّلاً تو اپنی بیاہ بارات سے ساری حرام رسمیں نکال ڈالو،باجے آتشبازی، عورتوں کے گانے، میراثی ڈوم وغیرہ کے گیت، رنڈیوں کے ناچ،عورتوں اور مردوں کا میل جول، پھول پتی کا لٹانا ایک دم اللہ عزوجل! کا نام لے کر مٹادو۔ اب رہی فضول خرچی کی رسمیں ان کو یاتو بند ہی کردو اگر بند نہ کرسکو تو ان کیلئے ایسی حد مقرر کردو جس سے فضول خرچی نہ رہے اور گھر کی بربادی نہ ہو۔ جنہیں امیر و غریب سب بے تکلف پورا کرسکیں۔ لہٰذا ہماری رائے یہ ہے کہ اس طریقہ سے نکاح کی رسم ادا ہونی چاہے۔
بھات (نانکی چھک) کی رسم بالکل بند کردی جائے اگر دولہا، دلہن کا ماموں نانا کچھ امداد کرنا چاہیں تو رسم بناکر نہ کریں بلکہ محض اس لئے کہ قرابت داروں کی مدد کرنا رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا حکم ہے اس لئے بجائے کپڑوں کے نقد روپیہ دے دیں جو کہ پچیس روپیہ سے زیادہ ہرگز نہ ہوں، یعنی کم تو ہوں۔ مگر اس سے زِیادہ نہ ہوں اور یہ امداد خفیہ کی جاوے۔ دکھلاوے کو اس میں دخل نہ ہوتا کہ رسم نہ بن جائے۔ دولہا، دلہن نکاح سے پہلے اُبٹن یا خوشبو کا استعمال کریں مگر مہندی اور تیل لگانے اور ابٹن کی رسم بند کردی جائے یعنی گانا باجا عورتوں کا جمع ہونا بند کردو۔ اب اگر بارات شہر کی شہر میں ہے تو ظہر کی نماز پڑھ کر بارات کا مجمع دولہا کے گھر جمع ہو اور دلہن والے لوگ دلہن کے گھر جمع ہوں۔ دلہن کے یہاں اس وقت نعت خوانی یا وعظ یا درود شریف کی مجلس گرم ہو۔ ادھر دولہا کو اچھا عمدہ سہرا باندھ کر یا پیدل یا گھوڑے پر سوار کرکے اس طرح برات کا جلوس روانہ ہو آگے آگے عمدہ نعت خوانی ہوتی جاوے، تمام بازاروں میں یہ جلوس نکالا جائے۔ جب یہ برات دلہن کے گھر پہنچے تو دلہن والے اس برات کو کسی قسم کی روٹی یا کھانا ہر گز نہ دیں کیونکہ حضرت زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہاکے نکاح میں حضور علیہ السلام نے کوئی کھانا نہ دیا غرضیکہ لڑکی والے کے گھر کھانا نہ ہو۔ بلکہ پان یا خالی چائے سے تو اضع کر دی جائے۔ پھر عمدہ طریقہ سے خطبہ نکاح پڑھ کر نکاح ہوجائے۔ اگر نکاح مسجد میں ہو تو اور بھی اچھا ہے نکاح کا مسجد میں ہونا مستحب ہے اور اگر لڑکی کے گھر ہو تب بھی کوئی حرج نہیں۔ نکاح ہوتے ہی باراتی لوگ واپس ہوجائیں یہ تمام کام عصر سے پہلے ہوجائیں اور بعد مغر ب کو دولہن کو رخصت کر دیا جائے خواہ رخصت ٹا نگہ میں ہو یا ڈولی وغیرہ میں۔ مگر اس پر کسی قسم کا نچھاور اور بکھیر بالکل نہ ہو کہ بکھیر کر نے میں پیسے گم ہو جاتے ہیں۔ہاں نکاح کے وقت خرمے لٹا نا سنت ہے اور اگر نکاح کے وقت دو چا ر گو لے چلادیئے جائیں یا اعلان کی نیت سے جہاں نکاح ہوا ہے وہاں ہی کوئی نقارہ یا نوبت اس طر ح بغیر گیت کے پیٹ دی جائے جیسے سحری کے وقت اٹھانے کے لئے رمضان شریف میں پیٹی جاتی ہے تو بھی بہت اچھا ہے یہ ہی ضربِ دف کے معنے ہیں۔
0 Comments: