سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جب اپنے دولت کدے سے باہرتشریف لانے کا ارادہ فرمایا تو اپنے عمامہ شریف اور گیسوؤں کو درست فرمایا اور آئینہ میں اپنا مبارک چہرہ ملاحظہ فرمایا تو حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی :''یا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کیا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم بھی ایسا کر رہے ہیں؟'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''ہاں! اللہ عزوجل بندے کا بننا سنورنا اس وقت پسندفرماتا ہے جب وہ اپنے بھائیوں کے پاس جانے لگے۔''
(اتحا ف السادۃ المتقین، کتاب ذم الجاہ والریاء، باب بیان حقیقۃ الریاء ، ج ۱۰، ص ۹۳،۹۴)
شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باِذنِ پروردگارعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے یہ ایک مؤکّدہ عبادت تھی کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مخلوق کو دعوت دینے اورحتی الامکان ان کے دلوں کو دینِ حق کی طرف مائل کرنے پر مامور ہیں کیونکہ اگر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم لوگوں کی نظروں میں معزز نہ ہوتے تو وہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے منہ پھیرلیتے لہٰذا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر لوگوں کے سامنے اپنے عمدہ ترین احوال ظاہر کرنا لازم تھا تا کہ لوگ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ناقابلِ اعتبار سمجھ کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے منہ نہ پھیریں کیونکہ عام لوگوں کی نگاہ ظاہری احوال پر ہی ہوتی ہے مخفی امور پر نہیں ہوتی۔ نیز آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا یہ عمل بھی نیکی ہی تھا۔ یہی حکم علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اور ان جیسے دیندار لوگوں کے لئے ہے جبکہ وہ اپنی اچھی ہیئت سے وہی قصد کریں جو اُوپر بیان ہوا۔
0 Comments: