سیدناامام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی اور علامہ ابن عبدالسلام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایسے شخص کے بارے میں اختلاف کیاہے جو اپنے عمل سے ریا اور عبادت دونوں کاقصد کرتا ہے۔
سیدناامام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی ارشاد فرماتے ہیں :''اگر دنیا کی نیت غالب ہو تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا اوراگر آخرت کی نیت غالب ہو تو اسے ثواب ملے گا اور اگردونوں نیتیں برابر ہوں تب بھی ثواب نہیں ملے گا۔''
جبکہ علامہ ابن عبدالسلام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں :''گذشتہ احادیثِ مبارکہ کی وجہ سے اسے مطلقاً کوئی ثواب نہیں ملے گا، مثلاً ''جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں کسی کو میرا شریک ٹھہرایا میں اس سے بیزار ہوں اور وہ عمل اسی کے لئے ہے جسے اس نے شریک ٹھہرایا۔'' جبکہ امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے اس حدیثِ پاک میں یہ تأویل کی ہے کہ ''جب دونوں قصد برابر ہو جائیں یا ریا کا قصد راجح ہو تب یہ حکم ہو گا۔'' امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کا کلام اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ ریا اگرچہ حرا م ہے مگر ثواب کی نیت کے غالب ہونے کی صورت میں وہ اصل ثواب کو نہیں روکتی، اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا :''اگر کسی شخص کی عبادت کا لوگوں پر ظاہر ہونا اس کی نشاط میں اضافہ اور قوت پیدا کرتا ہے اور اگر لوگوں پراس کی عبادت ظاہر نہ ہوتی تب بھی وہ عبادت نہ چھوڑتاپھر اگر چہ اس کی نیت ریا ہی کی ہو تو ہمارا گمان ہے کہ اس کا اصل ثواب ضائع نہ ہو گا، ریا ء کی مقدار کے مطابق اسے سزا ملے گی جبکہ ثواب کی نیت جتنا ثواب اسے ملے گا۔'' اس سے پہلے کا کلام ان کے قول کے منافی ہے :''اگر وہ اپنے صدقہ اور نماز سے اجر اور تعریف دونوں کا خواہاں ہو تو یہ وہ شرک ہے جو اخلاص کے مخالف ہے۔'' ہم نے ''کتاب الاخلاص'' میں اس کا حکم ذکر کر دیا ہے اورہم نے حضرت سیدنا سعید بن مسیب اور حضرت سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے جو روایات نقل کی ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ریاکار کے لئے بالکل کوئی ثواب نہیں، لہٰذا علامہ ابن عبدالسلام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام ہی راجح ہے۔
الغرض! اگر عبادت کے ذریعے مباح ریا کا قصد کیا جائے تو اس کا ثواب سرے سے ہی ساقط نہ ہوگا بلکہ اسے عبادت کی نیت کے مطابق اجر ملے گا اگرچہ نیت کمزور ہی کیوں نہ ہو اور اگر وہ حرام ریا کا قصد کرے تو یہ ثواب سرے ہی سے ختم ہو جائے گا جیسا کہ گذشتہ بہت سی احادیثِ مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں، نیز اللہ عزوجل کا یہ فرمانِ عالیشان:
فَمَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿7﴾
ترجمۂ کنزالایمان: تو جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا۔(پ30، الزلزال:7)
اس پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ حرام قصد کی وجہ سے عمل کی کوتا ہی نے اجر کے ساقط ہونے کو واجب کر دیا، لہٰذا اس کے لئے خیر کا ایک ذرہ بھی نہ بچا اسی لئے آیت کریمہ اسے شامل نہیں۔
یاد رکھئے! بندہ جب اخلاص کے ساتھ عبادت شروع کرے پھر اس پر ریاکاری کے اسباب ظاہرہوں، اگریہ اسباب عمل پورا ہو جانے کے بعد ظاہر ہوں تو عمل میں کوئی اثر نہ ڈالیں گے کیونکہ وہ عمل اخلاص کے ساتھ پورا ہو چکا ہے، لہٰذا بعد میں طاری ہونے والی ریاکاری کے اسباب اس پر اس وقت تک اثرانداز نہ ہوں گے جب تک بندہ اپنے عمل کے اظہار اور اسے بیان کرنے میں تکلف سے کام نہ لے۔ اگر وہ ریاکاری کا قصد کرتے ہوئے تکلف کرے تو امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی ارشاد فرماتے ہیں :''یہ خوف میں ڈالنے والی بات ہے۔'' جبکہ اخبار وآثار یعنی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ریاکاری عمل کو برباد کر دیتی ہے، پیچھے گزر چکا ہے کہ سیدنا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے بعد میں طاری ہونے والے اسباب کو عمل کے ثواب کو باطل کرنے سے بعید قرار دیا اور ارشاد فرمایا کہ بلکہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ جو عمل اس نے مکمل کر لیا اس پر اسے ثواب دیا جائے گا اور اللہ عزوجل کی اطا عت میں کی جانے والی ریاکاری پر اسے عقاب ہو گا اگرچہ یہ ریاکاری عمل مکمل کر لینے کے بعد کی جائے اور اگر عمل کے دوران ریاکاری پیدا ہو اور عمل محض ریاکاری کے لئے ہو تویہ عمل کو بربادبلکہ فاسد کر دیتی ہے اور اگر محض ریا کی نیت نہ ہو مگر قربت کی نیت پر ریا کاقصدغالب ہو اور قربت کی نیت مغلوب ہوتو اس صورت میں عبادت کے فاسد ہونے میں علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کو تردد ہے، امام حارث محاسبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی رائے میں عبادت فاسد ہوجائے گی۔ جبکہ ہمارے نزدیک اس صورت میں سب سے بہترقول یہ ہے کہ اگر عمل میں ریا کا اثر ظاہر نہ ہو بلکہ عمل خالص دینی نیت سے کیا گیا ہو لوگوں کے اس عمل پر اطلاع سے بندے کو خوشی حاصل ہوتی ہو تو اصلِ نیت کے باقی رہنے اورعمل کومکمل کرنے کی نیت کے پائے جانے کی وجہ سے عمل فاسد نہ ہوگا اوراگر صورت حا ل یہ ہو کہ اگر لوگ موجود نہ ہوتے تو بندہ اپنی نماز توڑ ڈالتا تو ایسی نماز فاسد اور واجب الاعادہ ہے، اگرچہ فرض نماز ہی کیوں نہ ہو۔
0 Comments: