طریقہ سنّت یہ ہے کہ بچّہ کی پیدائش کے ساتویں رو ز عقیقہ ہو اور اگر نہ ہوسکے تو پندرھویں دن یا اکیسویں روز یعنی پیدائش کے دن سے ایک دن پیشتر اگر جمعہ کو بچّہ پیدا ہوا تو جب بھی عقیقہ ہو جمعرات کو ہو، عقیقہ کا حکم یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک سال کی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ایک سال کی ذبح کردی جائے۔ عقیقہ کے جانور کی سری نائی کو اور ران دائی کو دی جائے، اگر یہ دونوں مسلمان ہوں۔(بہار شریعت، حصہ، ۵، ص۱۵۴، ۱۵۵ ملخصاً)
گوشت کے تین حصّے کردیئے جائیں۔ ایک حصّہ فقراء کو خیرات کردیا جائے، دوسرا حصّہ اہلِ قرابت میں تقسیم ہو اور تیسرا حصّہ اپنے گھر میں کھا یا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ عقیقہ کے جانور کی ہڈِّیاں توڑی نہ جائیں بلکہ جوڑوں سے علیٰحدہ کردی جائیں اور گوشت وغیرہ کھاکر ہڈِّیاں دفن کردی جائیں۔ ساتویں رو زہی بچّہ کا نام بھی رکھا جائے۔ سب سے بہتر نام ہے ''محمد ''۔مگر جس کا نام ''محمد '' ہو اس کو بگاڑ کر نہ پکارا جائے۔ عبد اللہ، عبدالرحمن اور انبیائے کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نام پر نام رکھنا بھی اچھّا ہے۔ عیسیٰ، موسیٰ، ابراہیم، اسمٰعیل، عباس، عمر وغیرہ۔ اور بے معنیٰ نام نہ رکھے جائیں جیسے بدھو، جمعراتی، خیراتی وغیرہ۔ اسی طرح جن ناموں میں فخر ظاہر ہوتا ہو نہ رکھے جائیں جیسے شاہجہان، نواب، راجہ، بادشاہ وغیرہ۔ لڑکیوں کے نام قمر النساء، جہاں آراء بیگم وغیرہ نہ رکھو بلکہ ان کے نام فاطمہ،آمنہ، عائشہ، مریم، زینت، کلثوم وغیرہ رکھو۔ عقیقہ کے وقت جب جانور ذبح ہو تب بچّہ کے بال منڈوادیئے جائیں اوربالوں کو چاندی سے وزن کرکے خیرات کردی جائے اور سر پر زعفران بھگوکر مل دیا جائے یہ جو مشہور ہے کہ بچّہ کے ماں باپ عقیقہ کا گوشت نہ کھائیں محض غلط ہے۔ عقیقہ والے کو اختیار ہے کہ خواہ کچّا گوشت تقسیم کردے یا پکاکر دعوت کردے مگر خیال رہے کہ نام و نمود کو اس میں دخل نہ ہو، فقط سنت کی نیت سے ہو، نائی اور قصائی کی اجرت پہلے سے مقررہو جو عقیقہ کے بعد دے دی جائے، اگر نائی اپنا قدیمی (یعنی پرانا)خدمت گزار ہے تو اس کو زِیادہ اجرت دو، جس سے اس کا حق ادا ہوجائے اور اگر نہیں تو واجبی اُجرت دے دو۔ یہ بھی جائز ہے کہ ایک گائے خرید کر چند بچّوں کا عقیقہ ایک ہی گائے میں کردیا جائے، یعنی لڑکے کے لئے گائے کے دو ساتویں حصّے اور لڑکی کے لئے ایک حصّہ۔ یہ بھی جائز ہے کہ اگر قربانی کی گائے میں عقیقہ کا حصّہ ڈال دیا جائے کہ لڑکے کے لئے دو حصّے اور لڑکی کے لئے ایک حصّہ۔
0 Comments: