ان تمام نصوصِ قطعیہ اور احادیثِ صحیحہ کو جان لینے کے بعد ریاکاری کی حرمت پراجماع کامعاملہ تو بالکل ظاہر ہو گیا اسی لئے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے اقوال اس کی مذمت میں متفق اور اُمت مرحومہ کا اس کی حرمت اور اس گناہ کے بڑے ہونے پر اِجماع ہے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو اپنی گردن جھکائے پایا تو اس سے ارشاد فرمایا: ''اے گردن نیچی رکھنے والے! اپنی گردن بلند کرلے کیونکہ خشوع گردنوں میں نہیں دل میں ہوتا ہے۔''
حضرت سیدنا ابو اُمامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد میں ایک شخص کوسجدہ میں روتے ہوئے پایا تواس سے ارشاد فرمایا :''کاش! تمہاری یہ حالت اپنے گھر میں ہوتی۔''
حضرت سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ ا للہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے ارشاد فرمایا :''ریاکار کی تین علامتیں ہیں: تنہائی میں ہو تو عمل میں سستی کرے اور لوگوں کے سامنے ہو تو جوش دکھائے، اس کی تعریف کی جائے تو عمل میں اضافہ کر دے اور اگر مذمت کی جائے تو عمل میں کمی کر دے۔'' مزید ارشاد فرمایا :''بندے کو اچھی نیت پر وہ انعامات دیئے جاتے ہیں جو اچھے عمل پر بھی نہیں دیئے جاتے کیونکہ نیت میں ریاکاری نہیں ہوتی۔''
ایک شخص نے کہا :''میں راہِ خدا عزوجل میں اپنی تلوار کے ذریعے اللہ عزوجل کی رضا اور لوگوں سے تعریف کی خواہش کی وجہ سے لڑتا ہوں۔'' تو حضرت سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے ارشاد فرمایا :''تیرے لئے کچھ نہیں، تیرے لئے کوئی اجر نہیں، تیرے لئے کوئی ثواب نہیں، کیونکہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :''میں شریکوں کے شرک سے بے نیاز ہوں۔''
سلف صالحین میں سے بہت سے بزرگوں نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو یہ کہتے ہیں :''یہ چیز اللہ عزوجل اورفلاں کی رضا کے لئے ہے، کیونکہ اللہ عزوجل کا کوئی شریک نہیں۔''
حضرت سیدنا قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :''جب بندہ ریا کاری کرتا ہے تو اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ ''میرا بندہ مجھ سے مذاق کر رہا ہے۔''
حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :''جو شہرت چاہتا ہے اللہ عزوجل اس کی مراد پوری نہیں فرماتا۔''
حضرت سیدنا فضیل بن عیا ض رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :''جو کسی ریاکار کو دیکھنا چاہے وہ مجھے دیکھ لے۔'' مزید ارشاد فرماتے ہیں :''لوگوں کے لئے عمل ترک کر دینا ریاکاری ہے اور لوگوں کے لئے عمل کرنا شرک ہے، جبکہ اخلاص یہ ہے کہ اللہ عزوجل تجھے ان دونوں چیزوں سے نجات عطا فرما دے۔''
ایک حکیم کا قول ہے :''دکھاوے اور سنانے کے لئے عمل کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو اپنی پوٹلی(یعنی جيب يا تھيلی ) پتھروں سے بھر کر خریداری کے لئے بازار چلا گیا، جب وہ دکاندار کے سامنے اپنی پوٹلی کھولے گا تو ذلیل ورسوا ہو گا اور اس کی پٹائی ہو گی، اسے لوگوں کی اس بات کے علاوہ کوئی نفع حاصل نہ ہو گا :''اس کی جیب کتنی بھری ہوئی ہے۔'' حالانکہ اسے( اس بھری ہوئی جیب کے بدلے میں) کوئی چیز نہیں دی جاتی۔ اسی طرح دکھاوے اور سنانے کے لئے عمل کرنے والے کو لوگوں کی باتوں کے علاوہ کوئی نفع حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے قیامت کے دن کوئی ثواب ملے گا۔''
اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿23﴾
ترجمۂ کنزالایمان: اور جو کچھ انہوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔ (پ19، الفرقان:23)
یعنی جب انہوں نے اپنے اعمال سے غیر اللہ کی رضا کا ارادہ کیا توان کا ثواب باطل ہو گیا اور وہ اڑتے ہوئے اس غبار کی طرح ہو گئے جو سورج کی شعاعوں میں نظر آتا ہے۔
0 Comments: