ہر انسان تکبر اور اس کے بُرے نتائج سے چھٹکارا چاہتا ہے کیونکہ یہ مہلکات یعنی ہلاکت میں ڈالنے والی بیماریوں میں سے ہے، حالانکہ اس سے کوئی انسان پاک نہیں، اور اس کا ازالہ فرضِ عین ہے، جو صرف تمنا اور خواہش سے نہ ہو گا بلکہ مفید ادویہ کے استعمال سے اسے جڑ سے ختم کرنا ضروری ہے، کیونکہ جو کماحقہ اپنے نفس کو پہچا ن لے یعنی وہ اپنی ابتدا میں غور کر لے کہ وہ کس طرح سب سے حقیر اور ذلیل شے یعنی مٹی تھا پھر منی بنا اور ان دونوں کی درمیانی حالت میں اس طرح غور کرے کہ وہ کس کس طرح علوم ومعارف سیکھنے کا اہل ہوا اور ایک درجے سے دوسرے کی طرف منتقل ہوتا رہا اور اپنی انتہا میں اس طرح غورکرے کہ وہ کس طرح فنا ہو گا اور پھر اپنی ابتدا یعنی مٹی کی طرف لوٹ جائے گا پھر اسے حشر کے میدان میں لوٹایا جائے گا پھر یا تو جہنم اس کا ٹھکانا ہو گا یاپھر جنت، اور اللہ عزوجل نے اس کے بارے میں جو سب سے واضح اشارہ دیا ہے وہ اس فرمان میں ہے :
قُتِلَ الْاِنۡسَانُ مَاۤ اَکْفَرَہٗ ﴿ؕ17﴾مِنْ اَیِّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ ﴿ؕ18﴾مِنۡ نُّطْفَۃٍ ؕ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ۙ﴿19﴾ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہٗ ۙ﴿20﴾ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ﴿ۙ21﴾ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنۡشَرَہٗ ﴿ؕ22﴾کَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَاۤ اَمَرَہٗ ﴿ؕ23﴾فَلْیَنۡظُرِ الْاِنۡسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖۤ ﴿ۙ24﴾
ترجمۂ کنزالایمان:آدمی ماراجائیوکیاناشکرہے اسے کاہے سے بنایا پانی کی بوندسے اسے پیدا فرمایاپھراسے طرح طرح کے اندازوں پر رکھاپھراسے راستہ آسان کیاپھر اسے موت دی پھر قبر میں رکھوایا پھر جب چاہا اسے باہر نکالا کوئی نہیں اس نے اب تک پورا نہ کیا جو اسے حکم ہوا تھا توآدمی کو چاہے اپنے کھانوں کو دیکھے ۔(پ30، عبس:17 تا24)
لہٰذا جو شخص اس میں اور اس جیسی ان دیگر مثالوں میں غور کرے جن کی طرف یہ آیات اشارہ کرتی ہیں تو وہ جان لے گا کہ وہ ہر ذلیل وحقیر چیز سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہے، اور عاجزی وانکساری اسی کے لائق ہے، نیز اسے چاہے کہ وہ اپنے رب عزوجل کی معرفت حاصل کرے تا کہ وہ یہ جان سکے کہ عظمت اور کبریائی فقط اللہ عزوجل ہی کو زیبا ہے، جبکہ میرے نفس کو ایک لمحے کے لئے بھی خوش ہونا مناسب نہیں، آدمی کا اپنی تخلیق کے ابتدائی اور وسطی مراحل کی حقیقت جان لینے کے بعد یہ غرور وتکبر کیسا؟ اور اگراس کا انجام بھی اس پر ظاہر ہو جائے تو وہ یہ تمنا کرنے لگے کہ کاش! وہ کوئی جانور ہوتا اگرچہ اسے کتا ہی بنا دیا جاتا خصوصاً جبکہ اللہ عزوجل کے علم میں وہ جہنمی ہو، اور اگر دنیا والے جہنمیوں میں سے کسی کی صورت دیکھ لیں تو اس کی بد صورتی دیکھ کر چکرا کر گر پڑیں بلکہ اس کی بدبو سے مر ہی جائیں، تو جس کا انجام ایسا ہو۔وہ کیسے تکبراوربڑائی میں مبتلاہوسکتا ہے؟ اور کون سا بندہ ایسا ہے جس نے کوئی ایسا گناہ ہی نہ کیا ہو کہ جس کی وجہ سے وہ اللہ عزوجل کے عقاب کا سزوار ہو سکے، ہاں اگر اللہ عزوجل چاہے گا تو اپنے فضل سے اسے معاف فرما دے گا۔
جو ہماری ان باتوں میں حقیقی غور وفکر کرے تو اس کی نظر میں اس کے علم وعمل، جاہ و منصب اور مال کی اہمیت ختم ہو جائے گی نیز وہ ہر چیز سے بھاگ کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں آکر اس کے آگے گڑگڑائے گا اور یہ یقین کر لے گا کہ وہ ہر چیز سے زیادہ ذلیل وحقیر ہے، تو پھر وہ اللہ عزوجل کے نزدیک بد بخت ہونا کیسے پسند کریگا؟
نفس میں ظاہر ہونے والے کا مل تکبر کا علم اس وقت ہوتا ہے جب کسی بندے کو اس کا نفس یہ خیال دلاتا ہے کہ وہ تکبر سے پاک ہے، لہٰذا ایسے شخص کو چاہے کہ وہ اپنے کسی ہم عصر سے کسی مسئلہ میں مناظرہ کرے، پھر اگر اس کے مخالف کے ہاتھ پر حق ظاہر ہو جائے تو اگر اس کا دل اسے قبول کرنے پر مطمئن ہو اور اس کے شکر اور فضلیت کا اعلان کر دے اور یہ بیان کر دے کہ اس کے ہاتھ پرحق ظاہر ہوگیا ہے اور یہی معاملہ ہر اس شخص کے ساتھ ہو جس سے اس نے مناظرہ کیا ہو تو قرائن اس بات کو ظاہر کر دیں گے کہ وہ تکبر سے بری ہے، اوراگر ان میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو بلاشبہ یہ شخص خود پسندی وتکبر میں مبتلا ہے اور اس پر گذشتہ باتوں میں غور کر کے اس کا علاج کرنا لازم ہے تا کہ تکبر کی جڑیں ختم ہو جائیں، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہمعصر لوگوں کو مجالس میں خود پر مقدم کرے، مگر اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ اس کا انداز لوگوں کو اس گمان میں نہ ڈالے کہ تواضع ظاہر کر رہا ہے جیسے ان کی صف چھوڑ کر گندی جگہ پر بیٹھنا وغیرہ کیونکہ یہ تو عین تکبر ہے، اور اس طریقہ سے بھی تکبر کی جڑیں کاٹ سکتا ہے کہ وہ فقیر کی دعوت قبول کرے، اس سے گفتگو کرے، اسے اپنے ساتھ بٹھائے، اپنی ضروریات کے لئے خود بازار جائے، فقر ا ء و محتاج لوگوں کی حاجت پوری کرنے کے لئے بھی بذات خود جائے اور اپنی حاجت پر دوسروں کی حاجت کو ترجیح دے تو حدیثِ مبارکہ کے مطابق یہ تمام باتیں تکبر سے نجات کے طریقے ہیں، یہ باتیں خلوت اور جلوت دونوں ہی میں یکساں ہوں ورنہ وہ یا تو متکبر ہو گا یا پھر ریاکار۔اور یہ دونوں ہی یعنی تکبر اور ریاکاری امراضِ قلوب میں سے ہیں، اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو یہ ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض اوقات لوگوں کو یہ عادت مہلت دیتی ہے اور وہ جسم کو سنوارنے میں مشغول ہو جاتے ہیں حالانکہ آخرت میں دل کی سلامتی ہی سے سلامتی حاصل ہو گی یعنی شرک یا غیراللہ کے خیال سے پاک دل لے کر آئے گا چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیۡمٍ ﴿ؕ89﴾
ترجمۂ کنز الایمان:مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر۔(پ19 ، الشعرآء: 89)
0 Comments: