(1)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''کسی عورت کے لئے جائز نہيں کہ اپنے شوہر کی موجودگی ميں اس کی اجازت کے بغير روزہ رکھے اور نہ ہی شوہر کی مرضی کے بغير کسی کوگھرمیں داخل ہونے کی اجازت دے۔''
(صحیح البخاری، کتاب النکاح ، باب لاتأذن المرأۃ فی بیت ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۵۱۹۵، ص ۹ ۴ ۴)
(2)۔۔۔۔۔۔سیدنا امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے :'' سوائے(ماہِ)رمضان المبارک کے(یعنی اس ماہ میں عورت شوہر کی اجازت کے بغیربھی روزہ رکھ سکتی ہے)۔''
(المسند للاما م احمد بن حنبل، مسند ابی ہریرہ ، الحدیث: ۹۷۴۰،ج۳،ص۴۵۱)
(3)۔۔۔۔۔۔سرکار ابدِ قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''عورت رمضان المبارک کے علاوہ شوہر کی موجودگی ميں اس کی اجازت کے بغير کسی دن کا روزہ نہ رکھے۔''
(جامع الترمذی،ابواب الصلاۃ،باب ماجاء فی کراہیۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۷۸۲،ص۱۷۲۴)
(4)۔۔۔۔۔۔شاہِ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جو عورت شوہر کی اجازت کے بغير روزہ رکھے پھر اس کا شوہر اس کے ساتھ کسی کام (یعنی ہم بستری وغيرہ)کاارادہ کرے لیکن وہ منع کر دے تو اللہ عزوجل اس عورت پرتین کبیرہ گناہ لکھتاہے۔''
(المعجم الاوسط، الحدیث: ۲۳،ج۱،ص۱۶)
(5)۔۔۔۔۔۔رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:''عورت پر شوہر کے حقوق ميں سے ايک حق يہ بھی ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغير روزہ نہ رکھے پھر اگر اس نے ايسا کيا تو بھوکی پياسی رہے گی اور اس کا روزہ قبول نہ ہو گا۔''
(مجمع الزوائد، کتاب النکاح، باب حق الزوج علی المرأۃ ، الحدیث: ۷۶۳۸،ج۴،ص۵۶۳)
تنبیہ:
اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گياہے حالانکہ ميں نے کسی کو اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کرتے ہوئے نہيں ديکھا مگر يہ تيسری حدیثِ پاک کا بالکل صريح بيان ہے اور اگر يہ تسليم بھی کر ليا جائے کہ غريب ہونے کی وجہ سے اس سے استدلال کرناصحیح نہيں تب بھی اس کے کبيرہ گناہ ہونے پر ايک دوسرے حکم کی وجہ سے استدلال کيا جا سکتا ہے جس کی طرف پہلی حدیثِ پاک ميں ان الفاظ کے ساتھ اشارہ کيا گيا ہے :''عورت شوہر کی مرضی کے بغير اس کے گھر ميں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہ دے۔'' اور اس حدیثِ پاک ميں جس اَمر کی طرف اشارہ کيا گيا ہے وہ عورت کا روزہ وغيرہ پر مقدم حق یعنی وطی سے روکنے کے سبب شوہر کو ايذاء دينا ہے، قطع نظر اس بات کے کہ شرعاًاس کے لئے وطی کرنا لازم ہوتو گناہ عورت پر ہو گاکيونکہ عام طور پر انسان عبادت کو باطل کرنے سے ڈرتا ہے جيسا کہ اس کی تصريح گزر چکی ہے اور جب وہ ڈرے گا توعورت سے وطی کرنے سے رُک جائے گا اگرچہ اسے وطی کرنے کی ضرورت ہو پس يقيناً اسے شديد تکليف پہنچے گی اور اس ميں کوئی شک نہيں کہ دوسرے کے حق کو روکنے يا اس کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ اس کو شديدتکليف پہنچانا کبيرہ گناہ ہے پس جو ميں نے ذکر کيا اس میں غوروفکر کریں اور حدیثِ پاک بھی يہاں اس مؤقف کو تقویت دے رہی ہے۔
0 Comments: