آپ کا نام ''اخنوخ''ہے۔ آپ حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ آپ کے والد حضرت شیث بن آدم علیہما السلام ہیں۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں۔ کپڑوں کے سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتداء بھی آپ ہی سے ہوئی۔ اس سے پہلے لوگ جانوروں کی کھالیں پہنتے تھے۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علم نجوم و حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں۔ یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازل فرمائے۔ اور آپ اللہ تعالیٰ کی کتابوں کا بکثرت درس دیا کرتے تھے۔ اس لئے آپ کا لقب ''ادریس'' ہو گیا۔ اور آپ کا یہ لقب اس قدر مشہور ہو گیا کہ بہت سے لوگوں کو آپ کا اصلی نام معلوم ہی نہیں۔ قرآن مجید میں آپ کا نام ''ادریس'' ہی ذکر کیا گیا ہے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اُٹھا لیا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب ِ معراج حضرت ادریس علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا۔ حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے مروی ہے۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے ملک الموت سے فرمایا کہ موت کا مزہ چکھنا چاہتا ہوں، کیسا ہوتا ہے؟ تم میری روح قبض کر کے دکھاؤ۔ ملک الموت نے اس حکم کی تعمیل کی اور روح قبض کر کے اُسی وقت آپ کی طرف لوٹا دی اور آپ زندہ ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اب مجھے جہنم دکھاؤ تاکہ خوف ِ الٰہی زیادہ ہو۔ چنانچہ یہ بھی کیا گیا جہنم کو دیکھ کر آپ نے داروغہ جہنم سے فرمایا کہ دروازہ کھولو، میں اس دروازے سے گزرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ اس پر سے گزرے۔ پھر آپ نے ملک الموت سے فرمایا کہ مجھے جنت دکھاؤ، وہ آپ کو جنت میں لے گئے۔ آپ دروازوں کو کھلوا کر جنت میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد ملک الموت نے کہا کہ اب آپ اپنے مقام پر تشریف لے چلئے۔ آپ نے فرمایا کہ اب میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ تو موت کا مزہ میں چکھ ہی چکا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلاَّ وَارِدُھَا کہ ہر شخص کو جہنم پر گزرنا ہے تو میں گزر چکا۔ اب میں جنت میں پہنچ گیا اور جنت میں پہنچنے والوں کے لئے خداوند ِ قدوس نے یہ فرمایا ہے کہ وَمَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ کہ جنت میں داخل ہونے والے جنت سے نکالے نہیں جائیں گے۔ اب مجھے جنت سے چلنے کے لئے کیوں کہتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو وحی بھیجی کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے جو کچھ کیا میرے اذن سے کیا اور وہ میرے ہی اذن سے جنت میں داخل ہوئے۔ لہٰذا تم انہیں چھوڑ دو۔ وہ جنت ہی میں رہیں گے۔ چنانچہ حضرت ادریس علیہ السلام آسمانوں کے اوپر جنت میں ہیں اور زندہ ہیں۔
( خزائن العرفان، ص ۵۵۶۔۵۵۷، مریم:۵۶۔ ۵۸)
حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے اور ان کو ملنے والی نعمتوں کا مختصر اور اجمالی تذکرہ قرآن مجید کی سورہ مریم میں ہے:۔
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیۡسَ ۫ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ﴿٭ۙ56﴾وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا ﴿57﴾اُولٰۤئِکَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنۡ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ (پ16،مریم:56 ۔ 58)
ترجمہ کنزالایمان:۔اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھا لیا یہ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتانے والوں میں سے آدم کی اولاد سے۔
درسِ ہدایت:۔حضرت ادریس علیہ السلام کے واقعہ سے یہ ہدایت کا سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رسولوں اور نبیوں پر کتنا بڑا فضل و کرم اور انعام و اکرام ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کے لئے واجب الایمان اور لازم العمل ہے کہ خداوند قدوس کے رسولوں اور نبیوں کی تعظیم و تکریم اور ان کا ادب و احترام رکھے اور ان کے ذکرِ جمیل سے خیر و برکت حاصل کرتا رہے۔ قرآن مجید کی مقدس آیتوں اور حدیثوں میں بار بار خدا کے ان برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کا ذکر ِ جمیل اس بات کی دلیل ہے کہ ان بزرگوں کا ذکر ِ خیر اور تذکرہ موجب ِ رحمت و باعث خیر و برکت ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
0 Comments: