یمن و حبشہ کا بادشاہ ''ابرہہ''تھا۔ اُس نے شہر ''صنعاء''میں ایک گرجا گھر بنایا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ حج کرنے والے بجائے مکہ مکرمہ کے صنعاء میں آئیں اور اسی گرجا گھر کا طواف کریں اور یہیں حج کا میلہ ہوا کرے۔ عرب خصوصاً قریشیوں کو یہ بات بہت شاق گزری۔ چنانچہ قریش کے قبیلہ بنو کنانہ کے ایک شخص نے آپے سے باہر ہو کر صنعاء کا سفر کیا اور ابرہہ کے گرجا گھر میں داخل ہو کر پیشاب پاخانہ کردیا۔ اور اس کے درو دیوار کو نجاست سے آلودہ کرڈالا۔ اس حرکت پر ابرہہ بادشاہ کو بہت طیش آیا اور اس نے کعبہ معظمہ کو ڈھا دینے کی قسم کھالی۔ اور اس ارادہ سے اپنا لشکر لے کر روانہ ہو گیا۔ اس لشکر میں بہت سے ہاتھی تھے اور ان کا پیش رو ایک بہت بڑا کوہ پیکر ہاتھی تھا جس کا نام محمود تھا۔ ابرہہ نے اپنی فوج لے کر مکہ مکرمہ پر چڑھائی کردی اور اہل مکہ کے سب جانوروں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ جس میں عبدالمطلب کے اونٹ بھی تھے۔ یہی عبدالمطلب جو ہمارے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا ہیں، خانہ کعبہ کے متولی اور اہل مکہ کے سردار تھے۔ یہ بہت ہی رعب دار اور نہایت ہی جسیم و باشکوہ آدمی تھے۔ یہ ابرہہ کے پاس آئے، ابرہہ نے ان کی بہت تعظیم کی اور آنے کا مقصد پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تم میرے اونٹوں کو مجھے واپس دے دو۔ یہ سن کر ابرہہ نے کہا کہ مجھے بڑا تعجب ہو رہا ہے کہ میں تو تمہارے کعبہ کو ڈھانے کے لئے فوج لے کر آیا ہوں جو تمہارا اور تمہارے باپ دادا کا ایک بہت مقدس و محترم مقام ہے۔ آپ نے اس کے بارے میں کچھ بھی مجھ سے نہیں کہا، صرف اپنے اونٹوں کا مطالبہ کررہے ہیں؟ حضرت عبدالمطلب نے فرمایا کہ میں اپنے اونٹوں ہی کا مالک ہوں اس لئے اونٹوں کے لئے کہہ رہا ہوں اور کعبہ کا جو مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت فرمائے گا۔ مجھے اس کی کوئی فکر نہیں۔ ابرہہ نے آپ کے اونٹوں کو واپس کردیا۔ پھر آپ نے قریش سے فرمایا کہ تم لوگ پہاڑوں کی گھاٹیوں اور چوٹیوں پر پناہ گزیں
ہوجاؤ۔ چنانچہ قریش نے آپ کے مشورہ پر عمل کیا۔ اس کے بعد حضرت عبدالمطلب نے کعبہ کا دروازہ پکڑ کر بارگاہ ِ الٰہی میں کعبہ کی حفاظت کے لئے خوب رو رو کر دعا مانگی اور دعا سے فارغ ہوکر آپ بھی اپنی قوم کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ ابرہہ نے صبح تڑکے اپنے لشکروں کو لے کر کعبہ مقدسہ پر دھاوا بول دینے کا حکم دے دیا اور ہاتھیوں کو چلنے کے لئے اٹھایا لیکن ہاتھیوں کا پیش رو محمود جو سب سے بڑا تھا وہ کعبہ کی طرف نہ چلا جس طرف اس کو چلاتے تھے چلتا تھا مگر کعبہ مکرمہ کی طرف جب اس کو چلاتے تھے تو وہ بیٹھ جاتا تھا۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے سمندر کی جانب سے پرندوں کا لشکر بھیج دیا اور ہر پرندے کے پاس تین کنکریاں تھیں، دو پنجوں میں اور ایک چونچ میں۔ ابابیلوں کے اس لشکر نے ابرہہ کی فوجوں پر اس زور کی سنگ باری کی کہ ابرہہ کی فوج بدحواس ہو کر بھاگنے لگی۔ مگر کنکریاں گو چھوٹی چھوٹی تھیں لیکن وہ قہر الٰہی کے پتھر تھے کہ پرندے جب ان کنکریوں کو گراتے تو وہ سنگریزے فیل سواروں کے خود کو توڑ کر ،سر سے نکل کر، جسم کو چیر کر، ہاتھی کے بدن کو چھیدتے ہو ئے زمین پر گرتے تھے۔ ہر کنکری پر اس شخص کا نام لکھا تھا جو اس کنکری سے ہلاک کیا گیا۔ اس طرح ابرہہ کا پورا لشکر ہلاک و برباد ہو گیا اور کعبہ معظمہ محفوظ رہ گیا۔ یہ واقعہ جس سال وقوع پذیر ہوا اس سال کو اہل عرب ''عام الفیل''(ہاتھی والا سال)کہنے لگے اور اس واقعہ سے پچاس روز کے بعد حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۸۳،پ۳۰، الفیل)
اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرماتے ہوئے ایک سورہ نازل فرمائی جس کانام ہی ''سورہ فیل''ہے یعنی
اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیۡلِ ؕ﴿1﴾اَلَمْ یَجْعَلْ کَیۡدَہُمْ فِیۡ تَضْلِیۡلٍ ۙ﴿2﴾وَّ اَرْسَلَ عَلَیۡہِمْ طَیۡرًا اَبَابِیۡلَ ۙ﴿3﴾تَرْمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ﴿4﴾۪ۙفَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاۡکُوۡلٍ ٪﴿5﴾ (پ30،الفیل:1۔5)
ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا، کیا ان کا داؤ ں تباہی میں نہ ڈالا اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں(فوجیں)بھیجیں کہ انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے تو انہیں کرڈالا جیسے کھائی کھیتی کی پتی(بھوسا)۔
درسِ ہدایت:۔اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی طرح کعبہ معظمہ کی حفاظت کا ذمہ بھی خداوند ِ قدوس نے اپنے ذمہ کرم پر لے رکھا ہے کہ کوئی طاغوتی طاقت نہ قرآن مجید کو فنا کرسکتی ہے نہ کعبہ کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتی ہے کیونکہ خداوند ِ کریم ان دونوں کا محافظ ونگہبان ہے۔ (واللہ تعالٰی اعلم)
0 Comments: