حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب اُن کو کنوئیں میں ڈال کر اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے جا کر یہ کہہ دیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو بے انتہا رنج و قلق اور بے پناہ صدمہ ہوا۔ اور وہ اپنے بیٹے کے غم میں بہت دنوں تک روتے رہے اور بکثرت رونے کی وجہ سے بینائی کمزور ہو گئی تھی۔ پھر برسوں کے بعد جب برادران یوسف علیہ السلام قحط کے زمانے میں غلہ لینے کے لئے دوسری مرتبہ مصر گئے اور بھائیوں نے آپ کو پہچان کر اظہارِ ندامت کرتے ہوئے معافی طلب کی تو آپ نے انہیں معاف کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ آج تم پر کوئی ملامت نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرما دے وہ ارحم الرٰحمین ہے۔
جب آپ نے اپنے بھائیوں سے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کا حال پوچھا اور بھائیوں نے بتایا کہ وہ تو آپ کی جدائی میں روتے روتے بہت ہی نڈھال ہوگئے ہیں۔ اور ان کی بینائی بھی بہت کمزور ہو گئی ہے۔ بھائیوں کی زبانی والد ماجد کا حال سن کر حضرت یوسف علیہ السلام بہت ہی رنجیدہ اور غمگین ہوگئے پھر آپ نے اپنے بھائیوں سے فرمایا کہ:۔
اِذْہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلْقُوۡہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ وَاۡتُوۡنِیۡ بِاَہۡلِکُمْ اَجْمَعِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ (پ۱۳،یوسف:۹۳)
ترجمہ کنزالایمان:۔میرا یہ کرتا لے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پر ڈالو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اپنے سب گھر بھر میرے پاس لے آؤ۔
چنانچہ برادران یوسف علیہ السلام اس کرتے کو لے کر مصر سے کنعان کو روانہ ہوئے۔ آپ کے بھائیوں میں سے یہودا نے کہا کہ اس کرتے کو میں لے کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس جاؤں گا۔ کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈال کر اُن کا خون آلود کرتا بھی میں ہی اُن کے پاس لے کر گیا تھا۔ اور میں نے ہی یہ کہہ کر ان کو غمگین کیا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا۔ توچونکہ میں نے انہیں غمگین کیا تھا لہٰذا آج میں ہی یہ کرتا دے کر اور حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کی خوشخبری سنا کر ان کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ یہودا اس پیراہن کو لے کر اَسّی کوس تک ننگے سر برہنہ پا دوڑتا ہوا چلا گیا۔ راستہ کی خوراک کے لئے سات روٹیاں اُس کے پاس تھیں مگر فرطِ مسرت اور جلد پہنچنے کے شوق میں وہ ان روٹیوں کو بھی نہ کھا سکا۔ اور جلد سے جلد سفر طے کر کے والد ِ محترم کی خدمت میں پہنچ گیا۔
یہودا جیسے ہی کرتا لے کر مصر سے کنعان کی طرف روانہ ہوا۔ کنعان میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو محسوس ہوئی اور آپ نے اپنے پوتوں سے فرمایا کہ:۔
اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوْ لَا اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ ﴿94﴾ (پ13،یوسف:94)
ترجمہ کنزالایمان:۔کہا بیشک میں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سٹھ (بہک)گیا ۔
آپ کے پوتوں نے جواب دیا کہ خدا کی قسم آپ اب بھی اپنی اُس پرانی وارفتگی میں پڑے ہوئے ہیں بھلا کہاں یوسف ہیں اور کہاں اُن کی خوشبو؟ لیکن جب یہودا کرتا لے کر کنعان پہنچا اور جیسے ہی کرتے کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالا تو فوراً ہی اُن کی آنکھوں میں روشنی آگئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ:۔
فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الْبَشِیۡرُ اَلْقٰىہُ عَلٰی وَجْہِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیۡرًا ۚ قَالَ اَلَمْ اَقُلۡ لَّکُمْ ۚۙ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَاتَعْلَمُوۡنَ ﴿96﴾ (پ13،یوسف:96)
ترجمہ کنزالایمان:۔پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ کرتا یعقوب کے منہ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں (دیکھنے لگیں )کہا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اللہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے۔
یہودا مصر سے حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا لے کر جیسے ہی کنعان کی طرف چلا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کنعان میں بیٹھے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو سونگھ لی۔ اس بارے میں حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے ایک بڑی ہی نصیحت آموز اور لذیذ حکایت لکھی ہے جو بہت ہی دلکش اور نہایت ہی کیف آور ہے۔
حکایت: یکے پرسید ازاں گم کردہ فرزند کہ اے عالی گہر! پیر خرد مند
حضرت یعقوب علیہ السلام سے جن کے فرزند گم ہو گئے تھے، کسی نے یہ پوچھا کہ اے عالی ذات اور بزرگ عقلمند ؎
ترجمہ کنزالایمان:۔پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ کرتا یعقوب کے منہ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں (دیکھنے لگیں )کہا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اللہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے۔
یہودا مصر سے حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا لے کر جیسے ہی کنعان کی طرف چلا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کنعان میں بیٹھے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو سونگھ لی۔ اس بارے میں حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے ایک بڑی ہی نصیحت آموز اور لذیذ حکایت لکھی ہے جو بہت ہی دلکش اور نہایت ہی کیف آور ہے۔
0 Comments: