پہلی اوردوسری صدی ہجری تک مسلمانوں کا واسطہ منطق کے مروجہ علم سے نہ پڑا تھا وہ اپنی فطرتِ سلیمہ ( جوکہ علم منطق کی ابحاث سے مستغنی تھی) کے مطابق قرآنِ کریم کے ارشادات اوراپنے آقا ومولا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے اقوال وافعال پر عمل پیراتھے ۔
تیسری صدی ہجری میں جب مہتابِ اسلام کی روشنی جزیرئہ عرب کے ساتھ ساتھ عجم کو بھی روشن کررہی تھی اس وقت یونان کے مشرک منطقی عقلی راہ سے اسلام پر حملہ آور ہوئے اور اللہ تعالی کی ذات وصفات پر اعتراضات کرنے لگے۔ اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ ان مدعیانِ عقل ودانش کی منطق کو سمجھا جائے اوران کوانہی کی منطق سے جواب دیا جائے جیسا کہ عربی مقولہ ہے۔ أَلْحَدِیْدُ بِالْحَدِیْدِ یُفْلَحُ (لوہا لوہے کو کاٹتا ہے)۔
بہرحال زمانہ گزرتا رہا اس فن کو مسلمانوں میں چھٹی صدی ہجری کے آخر اور ساتویں صدی ہجری کی ابتداء میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی اور اس کے بعد امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کے دورمیں اس کے عروج کا یہ عالم تھا کہ اس زمانہ میں تفسیر، بلاغت وعلم الکلام اوراصول فقہ میں سے شاید ہی کوئی کتاب ہوجس پراس فن کی چھاپ نہ ہو۔
پاک وہند میں اس فن کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اور ڈیڑھ سوبرس تک یہ فن اعلی ذہانتوں کا مرکز رہا ۔درس نظامی میں ملّا نظام الدین علیہ رحمۃ اللہ المبین نے اس فن کی ایک کتاب رکھی ،پھر یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ درس نظامی میں سولہ منطق کی کتابیں داخل ہوگئیں ۔
معلمین منطق
معلم اول:
سب سے پہلے ارسطاطالیس نے اس فن کو مدون کیا لہذ ااسے معلم اول کہا جاتا ہے۔ یہ ۳۸۴قبل مسیح مقدونیہ (یونان کاشہر) کی بستی تاجرہ میں پیداہوا یہ حکیم افلاطون کا شاگر دتھا اورافلاطون، سقراط کا اورسقراط فیثاغورث کا اور فیثاغورث، حضرت سلیمان علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ ارسطاطالیس نے اٹھارہ سال کی عمر میں تمام مروجہ علوم حاصل کرکے اپنے استاد افلاطون کے مدرسہ جوکہ اثنیہ میں تھا تدریس شروع کردی تھی۔اوریہ سکندراعظم کا استادتھا اس کوارسطو بھی کہاجاتاہے ۔اس کی وفات ۳۲۲ قبل مسیح میں ہوئی۔
معلم ثانی:
ارسطو نے جب اس علم کومدون کیا تویہ علم صرف یونان میں رہا بنو عباس کے دور خلافت میں خلیفہ ہارون الرشید نے اس کی کتب یونان سے منگواکر محمدبن طرخان فارابی سے ان کتب کاعربی میں ترجمہ کروایا۔فارابی نے اپنی طرف سے بھی کچھ اضافے کیے اس لئے ان کو منطق کا معلم ثانی کہاجاتاہے۔ آپ ۲۶۰ھ میں پیداہوئے اور ان کی وفات ۳۳۹ھ میں ہوئی۔
معلم ثالث:
فارابی کی کتب ضائع ہونے کے بعد ابوعلی ابن سینانے ازقسرنو اس علم کومدون کیا اس لئے اسکو معلم ثالث کہاجاتاہے اس کا شمار ذہین وفطین لوگوں میں ہوتاتھا۔اس کے
حواس خمسہ بہت تیز تھے یہاں تک کہ اگر بارہ میل دورکوئی چکی چل رہی ہوتی تواس کے شور کی وجہ سے اسے نیند نہیں آتی تھی۔ اس کی پیدائش ۳۷۳ھ اوروفات ۴۲۷ھ میں ہوئی۔
معلم رابع:
علامہ محمد فضل حق خیر آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی کو کہا جاتاہے جو کہ حضرت علامہ مولانا فضل امام خیر آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی کے فرزند ارجمند تھے۔ آپ نے تمام علوم نقلیہ وعقلیہ محدث شہیر شاہ عبد القادر محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے حاصل کئے۔چار ماہ کے قلیل عرصے میں حافظ قرآن کریم بن گئے اور صرف ۱۳سال کی چھوٹی سی عمر میں فارغ التحصیل ہو کر بڑے بڑے علوم میں تبحر حاصل کرلیا ۔منطق وفلسفہ ودیگر علوم عقلیہ میں کمال درک رکھنے کے ساتھ ساتھ نہایت فصیح وبلیغ تھے۔نظم ونثر دونوں میں کلام کرتے تھے۔ایک مرتبہ بچپن میں اپنے والدصاحب کے ساتھ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ہاں حاضر ہوئے اور اپنی فصیح عربی نظم کے اشعار پرھے،جس پر محدث صاحب نے ترکیبی اعتراضات کئے،لیکن علامہ صاحب نے برجستہ فصحائے عرب کے ۳۰ اشعار بطور استشہاد پیش کر دیئے۔یہ دیکھ کر محدث صاحب علامہ صاحب کے استحضار وجودت طبع سے بہت زیادہ متاثر ہوئے،بلکہ علامہ صاحب تو مزید اشعار بطور استشہاد پیش کرنے لگے تھے کہ والد ماجد صاحب نے منع فرمادیا۔ آپ کی بہت سے تصانیف ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:(۱) حاشیہ بر قاضی مبارک (۲) حاشیہ بر الافق المبین (۳) الہدیۃ السعیدیہ(۴) امتناع النظیر در ردوہابیہ (۵) الروض المجود۔ اس کے علاوہ بھی اور کتب وحواشی علامہ صاحب کی یادگار ہیں۔آپ کا انتقال ۱۲۷۸ھ میں ہوا۔اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
0 Comments: