علمِ منطق کی تعریف:
منطق کالغوی معنی گفتگو کرنا ہے جبکہ اصطلاح میں اس کی تعریف یہ ہے: ''عِلْمٌ بِقَوَانِیْنَ تَعْصِمُ مُرَاعَاتُھَا الذِّھْنَ عَنِ الْخَطَاءِ فِی الْفِکْرِ'' یعنی ایسے قوانین کا جاننا جن کا لحاظ ذہن کوغوروفکرمیں غلطی سے بچالے۔
موضوع:
وہ معلومات تصوریہ اور معلومات تصدیقیہ جو مجہول تصوری اور مجہول تصدیقی تک پہنچا دیں۔ (معلومات تصوریہ کی تفصیل سبق نمبر 26،اور معلومات تصدیقیہ کی تفصیل سبق نمبر41میں آئے گی۔)
غرض وغایت:
کسی چیز میں غوروفکر کرتے وقت ذہن کو غلطی سے بچانا۔
واضع:
علم منطق کو سب سے پہلے ارسطو نے سکندر رومی کے حکم سے وضع کیا۔
وجہ تسمیہ:
منطق مصدرمیمی ہے جس کا معنی ہے گفتگو کرنا ۔کیونکہ یہ علم ،ظاہری اور باطِنِی نُطْقْ میں نکھار پیدا کرتا ہے اس لئے اسے منطق کہتے ہیں۔ نطقِ ظاہری(تکلّم) میں نکھار سے مرادیہ ہے کہ اس علم کا جاننے والا دوسروں کے مقابلے میں اچھے انداز سے گفتگو کر سکتاہے۔اور نطق باطنی(ادراک) میں نکھارسے مراد یہ ہے کہ اس علم کا جاننے والا اشیاء کے حقائق یعنی ان کی اجناس اورفصول وغیرہ سے واقف ہو جاتاہے۔
نوٹ:
اس علم کو'' علم میزان'' (ترازو) بھی کہتے ہیں کیونکہ اس علم کے ذریعے عقل ،صحیح اور غلط فکروں میں موازنہ کرتی ہے۔ اسی طرح اس علم کو'' علم آلی'' بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ دوسرے علوم کوحاصل کرنے کیلئے آلہ(ذریعہ) کی حیثیت رکھتاہے۔
٭٭٭٭٭
مشق
سوال نمبر1:۔منطق کی تعریف،موضوع اور غرض وغایت تحریر کریں۔
سوال نمبر2:۔منطق کی وجہ تسمیہ بیان کریں۔
سوال نمبر3:۔منطق کو'' علم میزان'' و ''علم آلی'' کہنے کی وجہ تحریر کریں۔
*.....*.....*.....*
0 Comments: