شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
بحیثیت صوفی کامل
بقلم : حضرت مولانا سید محمد قبول بادشاہ شطاری،
جانشین حضرت کاملؒ ومعتمد صدر مجلس علماء دکن، حیدرآباد
الحمدللہ رب العالمین۔ الصلواۃ والسَّلام علٰی اوّل قابل للتجلّی من الحقیقۃ الکلیۃ سیدنا ومولانا محمدن الموصوف بالتَّقدَّم والاوّلیۃ وعلٰی آلہ اولی الھدایۃ والافضلیۃ وصحبہ کواکب أمن البریۃo
اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قال اللّٰہ تبارک وتعالی فی القرآن المجید یُؤْتِیْ الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْراً کَثِیْراًo
رب تبارک وتعالی فرما تا ہے یعنی اللہ تعالی علم حکمت دیتا ہے جسکو چاہتا ہے اور جس کو حکمت (دانائی) ملی بہت خوبی ملی۔
انسانی تفکر کی بلند ترین پرواز وہ ہے جو خود انسان کے پیدا کرنے والے سے تعلق حاصل کرنے کیلئے کیجاتی ہے لیکن جس طرح محدود شیٔ کو غیر محدود کا احاطہ کرنے میں اور کمزور کو طاقتور کا مقابلہ کرنے میں اور بے خبر کو با خبر کا اندازہ لگانے میں صرف کیجاتی ہیں۔ اسی طرح مخلوق کو اپنے خالق کا پتہ لگانے میں اور اسی طرح کی اور اس سے کہیں زیادہ محنتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذی روح میں حیات کے جس قدر کرشمے نظر آتے ہیں اُن کے بارے میں مختلف خیالات ظاہر کئے گئے ہیں مگر یہ خیال کہ خود ذات باری تعالیٰ انسان میں جلوہ گر ہے اسپر ہم نظر ڈالیں تو یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ ذات کو صرف صفات سے پہچاننا اور جس انسان میں ذاتِ الہی کی صفات جس حد تک ترقی وکمال کے ساتھ نمایاں ہوں وہ دوسرے سے بہتر، افضل اور اعلیٰ ہوتا ہے اس لئے وہ مقدس اور بابرکت نفوس قدسیہ جنہیں پیغمبر، ولی اور بزرگ کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں ان میں صفات ذات الہی بدرجہ اولیٰ واکمل پائی جاتی ہیں۔ ان حضرات میں سے جو صفات الہی کا کامل وجامع ہے مظہر ہواس کو اللہ تعالی نبوت ورسالت سے سرفراز فرماکر خلق کی ہدایت کیلئے مبعوث فرماتا ہے وہ نبی و رسول ہیںاور جو نبی ورسول کے تابع اور کامل پیرو ہیں درجہ بدرجہ قطب، ولی کہلاتے ہیں۔ یہ نفوس قدسیہ ہر زمانہ میں ہوتی آئی ہیں چونکہ سلسلہ نبوت ختم رسالت کے باعث موقوف ہوچکا اس لئے نبی کے قائم مقام حضرات اولیاء اقطاب وغیرہ ہیں ان ہی کی وجہ سے نظامِ عمل طریقت اور نظامِ عمل عالم دنیا و اُخری اپنی حالتِ اعتدال پر قائم ہے اور ان ہی سے دین کی ترقی ہے۔ترقی سے میرا مطلب صرف دینی نہیں بلکہ اخلاقی اور معاشرتی دنیوی ترقی بھی ہے۔ کیونکہ جب اخلاق اور معاشرت درست ہوگئے تو انسان ہر قسم کی ترقی کرسکتا ہے۔
اس مقالہ کے آغاز پر جس آیت قرآنی کو تلاوت کیاگیا اُسکی تشریح میں یہ ہے کہ حکمت سے مراد علم قلب ہے یعنی توحید و معرفت الہی جس کو فقر کہتے ہیں اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کو یہ حکمت عطا ہوئی کما قال اللہ تعالی: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِo
یعنی بلاؤ ائے محمد ا اپنے رب کی راہ پر ساتھ حکمت اور نصیحت کے۔ حکمت کے لغوی معنی راز اور بھید کے ہیں چونکہ اس علم سے رازِ انسانی اور سر سبحانی کھلتا ہے اس لئے اللہ تعالی نے اس علم کو یہ لفظ حکمت ارشاد فرمایا۔ حکمت اصطلاح میں دانائی ودرست کرداری کو کہتے ہیں اور ایک علم کا نام ہے جس میں احوال موجودات سے بھی بحث کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ’’وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمَانَ الْحِکْمَۃَ‘‘ یعنی اور البتہ دی ہم نے لقمان کو حکمت یعنی نفی شرک توحید ومعرفت الٰہی عطا کی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کَلِمَۃُ مِّنَ الْحِکْمَۃِ یَتَعَلَّمُھَا الرَّجُلُ خَیْرٌ لَّہٗ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا یعنی فرمایا رسول اللہ ا نے حکمت کاایک کلمہ اگر آدمی سیکھے تو اس کے حق میں دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔ وہ علم توحید اور معرفت الٰہی ہے جس کو علم قلب کہتے ہیں کہ قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: اَلْعِلْمُ عِلْمَیْنِ عِلْمٌ عَلٰی اللِّسَانِ فَذَالِکَ حُجَّۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی ابنِ آدَمَ وَعِلْمٌ فِیْ الْقَلْبِ فَذَالِکَ الْعِلْمُ النَّافِعُ ۔یعنی علم دو ہیں ایک علم زبان پر ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی حجت ہے اولاد آدم پر اور ایک علم دل کے اندر ہے پس یہی علم نافع ہے اس سے ثابت ہوا کہ ایک علم عام زبانی شریعت ہے جسکو حجت فرمایا اور ایک علم خاص باطن یعنی طریقت ہے جسکو علم قلب اور نافع کہا گیا۔ پس طریقت میں ایک یقین کا مرتبہ ہے جس کو معرفت الہی کہتے ہیں چنانچہ حدیث میں وارد ہے اَلْیَقِیْنُ الْاِیْمَانُ کُلُّہُ یعنی یقین ایمان کامل ہے۔
مندرجہ بالا تمہیدی کلمات کو پیش کرتے ہوئے معذرت خواہ بھی ہوں کہ جس محفل میں اہل علم اور اہل بصیرت موجودگی میں جن افکار کو پیش کیا گیا وہ من حیث المجموع شیخ الاسلام حضرت العلامہ محمد انوار اللہ المخاطب خاں بہادر فضیلت جنگ علیہ الرحمہ بانیٔ جامعہ نظامیہ کی زندگی کی آئینہ دار ہے۔اس بات سے سب ہی بخوبی واقف ہیں کہ حضرت شیخ الاسلامؒ بانیٔ جامعہ نظامیہ نے اس علمی ادارے کی بناء بارگاہ رسالت ا کے حکم پر ڈالی ہے۔ بزرگان سلف نے صراط مستقیم پر گامزن ہوکر تلاش حق کو اپنا مقصود بنایا اور علوم دینیہ کی تعلیم وترویج واشاعت اور تبلیغ اسلام کو شعار زندگی بناکر اسلامی معاشرہ کی فلاح اور اس کے استحکام کیلئے اپنے آپ کو کلیۃً وقف کردیا۔ تصنیف وتالیف کے ذریعہ دینی خدمات انجام دیں بلکہ خانقاہی نظام بھی بہ اندازِ تدریس وتفہیم رشد وہدایت وجود میں آیا۔
حضرت شیخ الاسلامؒ ’’مقاصد الاسلام‘‘ کے حصہ پنجم میں تصوف اور صوفی کے عنوان پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ
’’فلسفہ وتصوف دونوں میں کسی قسم کا تعلق نہیں۔ ایک طبقہ جو عبادت الہی کو ضروری نہیں سمجھتا غلط اندازِ فکر کا حامل ہے تصوف اس علم کا نام ہے جس میں صرف وہ امور مذکور ہوتے ہیں جو تقرب الی اللہ کے طریقے بتلائیں اور لوازم تصوف ایسے سخت ہیں کہ اہل فلسفہ ان کو سن لیں تو گھبرا جائیں۔ اوائل میں جو اہل تصوف تھے وہ زینت اور زرق وبرق کو ترک کرکے صرف صوف یعنی کمبل پر قناعت کرتے تھے اسلئے ان کانام ہی صوفی ہوگیا‘‘۔
حضرت شیخ الاسلام ؒ نے لکھا ہے کہ
’’آدمیوں کی طبائع مختلف ہوتی ہیں بعض غیور طبع ایسے بھی ہیں کہ بھوکے رہیںگے لیکن ذلت کی نوکری اور ذلیل پیشہ نہ کرینگے۔ اسی طرح اسلامی دنیا میں بھی بعض غیور طبع عالی ہمت اپنے خالق کی عبادت کو باعث افتخار سمجھتے ہیں ہمیشہ وہ تقربِ الہی کے ذرائع تلاش کرتے رہتے ہیں اور خالق عزوجل کی رضامندی مقصود رہتی ہے ہر وقت ان کا دلی تعلق ان ہی امور کی طرف لگا رہتا ہے اسلئے وہ اپنی نفسانی خواہشوں کو پوری نہیں کرسکتے بلکہ فقط ضروریات پراکتفاء کرلیتے ہیں‘‘۔
شیخ الاسلام ؒ صوفی کے اصطلاحی معنی کی وضاحت میں رقم طراز ہیں کہ
’’حضرت سیدنا جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں من عاش فی ظاھر الرسول فھو سنی ومن عاش فی باطن الرسول فھو صوفی جو ظاہر رسول اللہ اپرزندگی گزارے وہ سنی ہے اور جو باطن رسول اللہ ا کے مطابق زندگی بسر کرے وہ صوفی ہے‘‘۔
اہل بصیرت پر ظاہر ہے کہ آنحضرت ا کا باطن حق کی صفات کمالیہ کا آئینہ بنا ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی لحظہ ایسا نہ گزرا کہ آپ یاد الہی سے غافل ہوں۔ آپ پر ہروقت یاد الہی اور باری تعالیٰ کی صفات جمالیہ وجلالیہ کا تصور لگا رہتا تو کیا ممکن ہے کہ آدمی سے کوئی دوسرا کام ہوسکے اسکے باوجود جو کام یا عمل آپ کرتے تھے اس میں سوائے خدائے تعالی کی یاد اور مشاہدہ اور رضا جو ئی کے او رکچھ مقصود نہیں ہوا کرتا تھا ۔حضرت کامل ؒ اپنے شعر میں فرماتے ہیںع
میرے غور وفکر کے زاویوں پہ ہیں پہرے ایسے لگے ہوئے
کہ مجال ہے کہ تیرے سواکوئی آتو جائے خیال میں
جب سیدنا جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے یہہ ثابت ہے کہ صوفی کا باطن آنحضرت ا کے باطن کا تابع ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ صوفیہ کرام کے باطنی حالات علی قدر مراتب وہی ہونگے جو آنحضرت ا کے ہیں۔
مذکورہ بالا اسی ایک قول کو پیش کرنے سے حضرت شیخ الاسلامؒ کی شخصیت میں نہ صرف شریعت وطریقت کا ایک حسین امتزاج نظر آتا ہے بلکہ صوفیانہ افکار کا بدرجہ اتم اظہار بھی ہوتا ہے۔ آپ عالم باعمل، عارف باللہ، صوفی باصفا، رشد وہدایت کے منبع، حقائق ودقائق، اسرار و رموز کی گتھیوں کو کھولنے والے، حکمت وموعظت کے پیشوا، تعلیم وتربیت کے مقتدا، روحانیت کے علمبردار، غرضکہ ان کمالات و اوصاف کی پیکر ہستی۔ایسی باکمال ہستیاں شاذ ونادر ہی ہوا کرتی ہیں کہ جو جمیع کمالات کی حامل ہوں۔ آپ نہ صرف دربار رسالت مآب ا سے فیضیاب ہیں بلکہ آپ کی شخصیت فیض رساں بھی ہے یہہ فیضان ابدتک جاری وساری رہے گا۔
قابل مبارکبار ہیں سیف الاسلام کے ذمہ داران جنہوں نے یادبانیٔ جامعہ نظامیہ کے سلسلہ میں اس سمینار کا اہتمام کرکے حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور علمی استفادہ کا موقع فراہم کیا جو ازحد ضروری ہے۔
یہہ ایک حقیقت ہے کہ رابطہء عشق ومحبت ایک مردِ مومن کو رحمت باری اور رحمۃللعالمین ا کی رحمتِ عام کی طرف رجوع کر کے دلاسہ دیتا ہے اور یہیں سے امید کی کرن پھوٹ کر یا س کو آس سے بدل دیتی ہیں۔ عشق کی آگ وہ بھی عشق رسول ا کی جن خوش نصیبوں کو لگتی ہے اُن کی زندگیوں کو نکھار کر کندن بناتی اور آخر کار فنافی المحبوب کی منزل میں سارے مدارج فنائے بعد حیات ابدی عطا کر کے اکسیر بنا کر چھوڑتی ہے جن سے ربطِ محکم او رنسبتِ کامل رکھنے والا سارا ماحول کیمیا گربن جاتا ہے۔ الحاصل حضرت شیخ الاسلامؒ کو ایک باکمال صوفی سے بھی یاد رکھا جائیگا۔
ہزاروں سال نر گس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
وآخر دعوانا عن الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭
0 Comments: