شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی بحیثیت صوفی
از:مولانا سید عبد الرشید چشتی قادری،
صدر مدرس دارالعلوم دینیہ بارگاہ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ گلبر گہ شریف
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم امابعد
اللہ تعالی کی یہ عادت شریفہ ہے کہ دین اسلام کی بقا اور اس کی سر بلندی کیلئے ایسے خاصان خدا کواس کائنات میں جلوہ گرفرمایا جنہوں نے اشاعت اسلام اورخدمت خلق کیلئے اپنی تمام تر زند گی وقف کردی ۔ ان بر گزیدہ شخصیتوں کی شان میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل (حدیث) ترجمہ میری امت کے علماء انبیاء بنی اسرائیل کی مانند ہیں۔
چنانچہ ان ہی جانشینان اور وارثین انبیا ء کرام میں دکن کی ایک مایہ ناز ومعروف شخصیت جن کے علمی وروحانی فیضان سے ساراعالم فیض یاب ہورہاہے اس ذات گرامی کا اسم گرامی حضرت شیخ الاسلام حافظ امام انوا ر اللہ فاروقی ؒ ہے جنہوں نے اپنی تمام تر زند گی علم ظاہر وعلم باطن کی اشاعت کیلئے وقف کردیا ایسی ہی علمی وروحانی شخصیتوں کے متعلق آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرما یا کہ اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِہٰذِہٖ الاُمَّۃَ عَلٰی رَأسِ کُلُّ مِائَۃ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدُلَھَا دِیْنَھَا(مشکوۃ) اللہ تعالی اپنے حبیب ؓ ﷺ کی امت کی رہنمائی کیلئے ہر سو سا ل میں ایک مجدد کو مبعوث کرتا ہے جو اس دین کی تجدید اسکی نگہبانی اور تاز گی کیلئے اپنی زند گی کو وقف کردیتا ہے ۔
اس امت مسلمہ کی نئی صف بندی اور دین اسلام کو اپنے ظاہری و باطنی طاقت کے ذریعہ تاز گی بخشنے والی شخصیت ہی مجدد دین وملت کہلا تی ہے ونیزجو شریعت و طریقت کے اسرار ومعارف سے واقفیت رکھتا ہو ۔گویا ہر صدی میں ایسی شخصیت کا امت مسلمہ کے درمیان پایاجانا ایک قدرتی نظام ہے تاکہ امت محمدیہ گمراہیت کا شکار نہ ہو ۔جیساکہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ لَاتَجْتَمِعُ اُمَّتِیْ عَلَی الضَّلَالَۃِ (حدیث) یعنی میری امت کبھی بھی گمراہیت پر جمع نہیں ہوسکتی ۔ گمراہیت پر جمع نہ ہونا یہ اس وقت ہوگا جب کہ ہمارے درمیان ایک ایسا محبوب خدا ،دین اسلام کا نگہبان ، مجدد دین و ملت ہم میں موجود ہوجس کی نظر میں دکن ایک رائی کے دانے کے مانند اور جو امت مسلمہ کے فرد فرید بد عقید گی کو دور کرنے کیلئے جہد مسلسل کرتے رہے ۔ چنانچہ آپ نے دکن میں ایسے وقت قدم رکھا جب کہ سارا دکن افراط زر کی وجہ سے لہوو لعب میں مبتلا تھا اور عیش وآرام کی زند گی نے انسان کو فکر صحیح سے محروم کردیاتھا ان حالا ت میں دکن کی سر زمین میں رہنے اور بسنے والوں کی ایما نی زند گی کو ہری بھری کرنے اور ان کے عقائد صحیحہ کی شادابی اور اخلاق وکردار کی درستگی و سدھار کیلئے اللہ تعالی نے حضرت شیخ الاسلام انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ ؒ کا انتخاب فرمایا ۔
ولادت سے قبل پیشن گوئی :
حضرت شیخ الاسلام کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے اکابر صوفیہ کرام نے پیش گوئی فرمائی تھی واقعہ اس طرح بیان کیاجاتاہے کہ آپ کی والدہ محترمہ انتہائی دیندار وپرہیزگار ، پاکیزہ فطرت ونیک خصلت اور اولیاء اللہ سے بڑی عقیدت ومحبت رکھتی تھیں۔
’’آپ فرماتی ہیں کہ شادی کے بعد ایک عرصہ تک مجھے کوئی اولاد نہیں ہوئی تو میں نے ایک اللہ کے ولی حضرت یتیم شاہ مجذوب ؒ کی خدمت میں بطور تحفہ کچھ میوہ روانہ کیا اور دریافت کروایاکہ آیا مجھے کوئی اولاد ہو گی یانہیں ؟حضرت یتیم شاہ مجذوبؒنے آپ کا تحفہ قبول کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں فرمایاکہ جاؤ اور کہدو کہ لڑکا ہوگا اور وہ حافظ قرآن اور محافظ علوم فرقان ہوگا۔ اس پیشن گوئی کے بعد حضرت شیخ الاسلام کی والدہ ؒنے ایک رات بہت ہی نورانی خواب دیکھا کہ آنحضرت ﷺ قرآن حکیم کی تلاوت فرمارہے ہیں اس کے بعد حمل کے آثار ظاہر ہوئے ۔اس خواب کی تعبیر اس سے بہتر کیا ہو سکتی ہے کہ حضور ﷺ خوشخبری سے سرفراز فرمارہے ہیں کہ آنے والا فرزند کوئی معمولی نہیں ہوگا بلکہ اس فرزند جلیل سے علوم قرآنی کی اشاعت اور دین حنیف کی حفاظت کا بڑا کام لیاجائے گا ونیز اس سے حضرت شیخ الاسلام کے مرتبہ ومقام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس خواب کی تعبیر اس طرح ظہور پذیر ہوئی کہ آپ بتاریخ ۴؍ ربیع الثانی ۱۲۶۴ھ بمقام ناندیڑ ایک اللہ کے ولی کی دعابن کر جلوہ گر ہوئے ‘‘۔ (۱)
ابتدائی و اعلیٰ تعلیم :
ولادت باسعادت کے بعد حضرت شیخ الاسلام نے اپنے والد محترم سے ابتدائی تعلیم حاصل کی آپ کو علم دین سے بے حد دلچسپی تھی اور بچپن ہی سے اسلامی علوم وفنون کو حاصل کرنے میں تن،من اور ذوق وشوق کے ساتھ مشغول ہوگئے۔ اس طرح گیارہ سال کی عمر شریف میں مو لا نا حافظ امجد علی صاحب سے حفظ قرآن حکیم کی تکمیل فرمائی پھر اعلی تعلیم کیلئے اپنے وقت کے جید علمائے کرام یعنی مولانا فیاض الدین صاحب اورنگ آبا د ی ، مولانا عبد الحلیم فرنگی محلی اور مولانا عبد الحی فرنگی محلی کے علاوہ ملک یمن کے ممتاز عالم حضرت مولانا عبد اللہ یمنی ؒ اور دیگر علماء سے علم تفسیر، اصول تفسیر، حدیث ، اصول حدیث ،فقہ ،اصول فقہ ،منطق ، فلسفہ،علم کلام ،علم معانی وبلاغت ،علم مناظرہ ،علم ہندسہ ،علم صرف ونحواور علم تصوف میں اتنا کمال حاصل کیاکہ آپ خود ان علوم میں سند مانے جاتے تھے ۔
صوفی کا ظاہر وباطن :
علم تصوف کی اہمیت و افادیت میں حضرت علی ہجویریؒ حضرت ابو الحسن نوریؒ کا قول نقل فرماتے ہیں لَیْسَ التَّصَوُّفُ عُلُوْمًا وَلَارُسُوْمًاوَلٰکِنَّہٗ اَخْلَا قاً ‘‘ ترجمہ: تصوف علوم اور رسوم کا نام نہیںبلکہ اخلاق کانام ہے ۔لہذا اس قول کا مطلب یہ ہے کہ تصوف کو علوم ورسوم کے بجائے ضابطئہ اخلاق کہنا چاہیے ۔ کیونکہ اگر یہ رسوم پر مشتمل ہو تا تو اس کے حاصل کرنے کیلئے مجاہدہ ہی کافی تھا۔ اور اگر علوم پر مبنی ہو تا تو تعلیم کے ذریعہ ہاتھ آجا تا ۔ لیکن وہ تو از اول تاابد اخلاق ہی اخلاق ہے جب تک اللہ تعالی کے حکم پر پوری طرح عمل آوری اورکما حقہ اس کے احکام ادا نہ ہوں تو کوئی بھی علم تصوف حاصل نہیں کر سکتا ۔
حضرت شیخ الاسلام ؒکی شخصیت ان تمام علوم وفنون کے علاوہ اخلاق اور اتباع شریعت میں اس طرح کامل واکمل ہوگئی جو ایک صوفی اور مرشد کیلئے از حد ضرو ری ہے آپ کی اس مہارت کو دیکھ کر برملا یہ کہاجاسکتا ہے جیساکہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ اپنی کتاب ’’ مرج البحرین‘‘ میںحضرت امام مالک ؒ کا قول نقل فرمایا۔
’’مَنْ تَفَقَّہَ بِغَیْرِ تَصَوُّفٍ فَتَفَسَّقَ، وَمَنْ تَصَوَّفَ بِغَیْرِ تَفَقہٍ فَتَزَنَّدَقَ،وَمَنْ جَمَعَ بَیْنَھُمَا فَتَحَقَّقَ‘‘
ترجمہ:جوشخص بغیر فقیہ بنا وہ فاسق ہوا اور جو فقہ کے بغیر صوفی بن بیٹھا وہ زندیق ہوا، اور جو دونوں کو جمع کیا وہ محقق ہوا ۔(۲)
حضرت امام مالک ؒ کے اس قول سے یہ معلوم ہواکہ ایک جید استاذ اور مرشد کامل کیلئے شریعت و طریقت کے دونوں علم باہم منسلک لازم و ملزوم ہیں۔اوراس مرتبہ ومقام والا مرشد ہی اللہ تعالی اور حضور ﷺ کے ذات و صفات کا مظہر اور کامل نمونہ ہوگا جو بندوں کی صحیح رہنمائی کرسکے گا ۔ قول مذکور کے مطابق شیخ الاسلام کی شخصیت میں ہردو علوم بدرجہ اتم پائے جاتے تھے۔ علم وعبادت، ظاہر کا خاصہ ہے کہ کبر ونخوت انسان میں پیدا ہوجاتی ہے اور جب تک نفس کو قابو میں نہ کیاجائے یہ بات دور نہیں ہوسکتی ۔اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کی شخصیت جامع الکمالات تھی ،عالم بھی اور صوفی بھی اس لئے ادھر شریعت ظاہری کی پابندی بھی کرتے اور اُدھر تصوف کی منزل بھی طئے کرتے ۔ آپ نے ہر طریقہ سے مجاہدہ نفس فرمایا ،کھانے اور پینے میںسو نے او ر رہنے سہنے میں ۔بہرحال جس طرح ضرورت ہوتی یاجس طرح نفس قابو میں آتا ہو اسی طرح عمل پیرا ہوتے ونیز برسوں شب بیداری میں گزاردی ۔کبھی اس طرح بسر کرتے کہ رات ودن میں کچھ دیر سوتے اور پھر بیدار ہوجاتے کبھی روزہ رکھتے اور کبھی افطار کرتے۔ سخت بستر پر آرام کرتے سادہ غذا تناول فرما تے یہی وجہ تھی کہ آپ مجسم اخلاق تھے اور ایسی ہی شخصیت اپنی کتاب میں اس قول کو نقل کر سکتی ہے جیساکہ حضرت شیخ الاسلام اپنی کتاب مقاصدالاسلام کے حصہ پنجم میں حضرت امام جعفر صاد قؒ کا قو ل نقل فرماتے ہیں ۔
’ ’مَنْ عَاشَ فِیْ ظَاہِرِرَسُوْلِ اللّٰہِﷺ فَھُوَ سُنِّیٌ‘‘
ترجمہ : جو شخص آنحضرت ﷺ کے ظاہر کے مطا بق زند گی گزارے وہ سنی ہے۔( ۳)
سنی ہونے سے مراد اگرہم یہاں علم ظاہر مراد لیں تب بھی یہ غلط نہیں کیونکہ ایک صوفی کیلئے علم ظاہر یعنی احکام شریعت سے واقفیت از حد ضرو ر ی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ اگر ہم آپ کے شاگر دوں کی فہر ست کو ملاحظہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر شاگرد اپنی جگہ ایک انجمن تھا اور شاگرد خود کئی اجلہ علماء کے استاذ کہلائے اور انہیںہر فن میں مہارت اور یدطولی حاصل تھا ۔ونیز اگر ہم یہاں سنی سے مراد مسلک اہلسنت وجماعت مراد لیں تو بھی صحیح ہے کیونکہ آپ کامسلک نہ صرف سنی تھا بلکہ مسلک اہلسنت وجماعت کی اشاعت کیلئے آپ نے بیش بہا خدمات انجام دیں جس کا ثبوت خود حضرت ممدوح کی کتابیں ہیں ۔پھر اس سلسلہ میں جب کبھی وہابیت نے سر اٹھایا اور نت نئے فتنے اور فرقے وجود میں آئے تو ان کی سر کوبی کیلئے آپ نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی بلکہ ہر فرقے اور فتنے کا اس قدر خوش اسلوبی سے جواب دیا کہ آج تک آپ کے اسلوب کو نہ کوئی توڑ سکا اور نہ ہی اس کی نظیر پیش کی جاسکی۔
حضرت امام جعفر صادق ؒ کے قول کا دوسرا حصہ ملاحظہ ہو ۔
’’ومَنْ عَاشَ فِیْ بَاطِنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَھُوَ صُوْفِیٌ‘‘ ترجمہ : جو شخص حضور ﷺ کے باطن کے مطابق زند گی گزارے پس وہ صوفی ہے۔ (الحلیہ)
ظاہر رسول اللہ ﷺ سے مراد حضور ﷺ کے بیان کردہ وہ احکام ہیں جس کو شریعت سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔ باطن رسول اللہ ﷺ سے مراد وہ اسرار ہیں جن کو علم طریقت کہاجاتاہے۔اور یہ علم اللہ تعالی اور حضور ﷺ کے احکام پر عمل کرنے پر موقوف ہے ۔اور یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ظاہر رسول ﷺ پر عمل پیرا ہوئے بغیر باطن رسول اللہ ﷺ تک رسائی ناممکن ہے تو معلوم ہوا کہ صوفی ہر دو کا جامع ہوتاہے۔
مذکورہ اقوال کی روشنی میں اگر ہم حضرت شیخ الاسلام کی ذات گرامی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگاکہ آپ کا تقوی وپرہیز گاری ،مجاہدہ، مراقبہ ، ایثار، ہمدردی ، انفاق واخلاص ، خوف خدا،گویا تمام تر زند گی للہیت سے معمور نظر آتی ہے جو ایک صوفیانہ زند گی کیلئے ضروری ہے ۔جیسا کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالی ارشاد فر ماتا ہے ’’وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّبَاطِنَۃً ‘‘ (۴)’’نعمہ ظاہرہ‘سے مراد اعمال ظاہری ہیں۔ جو انسان کے ظاہری اعضا کیلئے اللہ تعالی کی نعمت ہے۔وباطنۃ سے مرادباطنی نعمت ہے یعنی نعمت باطنی قلب پرجاری ہو نے والے احوال کو کہتے ہیں ۔گو یا ظاہری اور باطنی اعمال کا آپس میں ایسا گہرا تعلق ہے کہ ان میں سے کو ئی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا ۔جیساکہ کسی عاشق نے فرمایا ۔
علم باطن ہم چوں مسکہ
علم ظاہر ہم چوں شیر
کئے بود بے شیر مسکہ
کئے بود بے پیر پیر
ظاہری و باطنی نعمت کا حصول در اصل قرب خداوندی کو پانا ہے۔ لیکن قرب ایک ایسا مقام ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کیلئے ایک صوفی کو کئی کٹھن مراحل اور آزمائشوں سے گزر نا پڑتاہے اس اثنا میں جب کوئی آزمائش کا سامنا ہوتا ہے تو اس کو ضَرْبُ الْحَبِیْبِ زَبِیْبْ(یعنی دوست کا مار کشمش کی طرح لذیذ ہوتاہے ) کے مصداق برداشت کرلیتے ہیں پھر انہیں ’’مقامِ وصل‘‘ ہاتھ آتاہے توگویا وہ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرْ(۵)کی خوشخبری کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں اعلیٰ مقام ومرتبہ پر فائز ہوجاتے ہیں جو اپنے پروردگار کی آزمائش میں اف تک نہ کہے ۔
فرزند کا وصال :
جیساکہ حضرت شیخ الاسلام کی زند گی ہی میں ان کے فرزند کا وصال ہوگیا آپ ان کٹھن لمحات میں سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے اپنے لخت جگر کے جنازے کے قریب پہنچے اور میت کے کان میں کہا ’’اے میرے پیارے بیٹے حضور ﷺ کی بارگاہ میں ہمارا سلام عرض کرنا‘‘ اتنا کہہ کر حضرت شیخ الاسلام وہاں سے تشریف لے گئے ۔ لہذا یہ آزمائش اور امتحان کی اس کٹھن گھڑی کے ساتھ آپ کا جو گزر ہوا ہے گویا وہ قرآن حکیم کی آیت مبارک اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (۶)ترجمہ: بے شک میری نماز اور میری قربانی اورمیرا جینا و مرنا یہ سب اس پروردگار کیلئے ہے جو دونوں جہاں کا پا لنہا ر ہے ۔
چنانچہ صوفیہ کرام ہمیشہ اپنے درد ودرمان ،اپنی موت وحیات، فتح وشکست،اور اپنا دکھ وسکھ اللہ تعالی کے سپرد کردیتے ہیں اور اس طرح ہرمقام پر ثابت قدمی کا مظاہرہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو وَاتَّصِفُوْا بِصِفَاتِ اللّٰہِ تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاقِ اللّٰہْ کے مصداق اللہ تعالی کے صفات اور اس کے اخلاق سے جومتصف ہوئے ہوںاور جنہیں صفات خداوندی کا عرفان حاصل ہوچکاہوتاہے۔
صفات ذاتیہ :
حضرت شیخ الاسلام اپنی کتاب مقاصد الاسلام حصہ سوم میں صفات باری تعالیٰ سے متعلق لکھتے ہیں۔
’’جتنے صفات کمالیہ الہیہ ہیں سب ازلی اور ذاتی ہیں اور نفس کے صفات حادث اور عطائی ہیں جیساکہ ’’باب الفتوح لمعرفۃ احوال الروح ‘‘ میں صدر الدین شیرازی کا قول نقل کیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانیہ کو اپنی ذات وصفات اور افعال کی معرفت اپنی مثال پیدا فرمایا مثال ممتنع نہیں البتہ اس کا مثل ممتنع ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عالم کی ایجاد سے معرفت الہی مقصود ہے جیساکہ حدیث سے ظاہر ہے کہکُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرِفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ اس لحاظ سے ضروری تھاکہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس میں ایسے صفات ہوں کہ ان کے علم سے صفات الہیہ کا علم حاصل ہو۔ کیونکہ ذات الہیہ کا ادراک تو ممکن نہیں پھر اگر یہ صفات بھی معلوم نہ ہوں تو معرفت الہی کا وجود ہی نہ ہوگا۔ اس لئے کہ آدمی جو بات اپنے میں نہیں پاتا اس کا ادراک نہیں کر سکتا ۔ مثلا مادر زاد اندھا جانتا ہی نہیں کہ بصارت کیا چیز ہے اور دیکھنا کس کو کہتے ہیں ۔اگر اس سے کہاجائے کہ اللہ تعالی بصیر ہے تو وہ کیا سمجھے گا ۔(۷)
غرضیکہ حکمت کا تقاضہ یہی تھاکہ نفس میں ایسے صفات رکھے جائیں کہ جو صفات کمالیہ الہیہ کے نمونے ہوں مثلاً وجود، تجرد،سمع، بصر، مشیت ، ارادہ ، قدرت، کلام،ان تمام صفات کو حضور ﷺ نے کس وضاحت کے ساتھ ایک مختصر جملے میں ارشاد فرمایاکہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْعَرَفَ رَبَّہٗ سے صاف ظاہر ہے کہ معرفت کنہ ذات الہی ممکن نہیں جیسے معرفتِ ذات نفس ناطقہ ممکن نہیں اور نفس کے صفات کی معرفت ضرور ی ہے جس سے صفاتِ الہیہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے جو مقصودِ ایجاد عالم ہے ۔مزید یہ کہ جن حضرات کو نفسِ ناطقہ یعنی روحِ انسانی اور اس کے صفات کا پورا پورا علم ہے ان کو اس صحیح حدیث پر ایمان لا نے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا۔ جیساکہ فرمایاکہ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ میں بعض علماء نے لکھا ہے کہ صورت کی ضمیر آدم کی طر ف ہے یعنی آدم ؑ کو انہی کی صور ت پر پیدا کیا وہ جانتے ہیں کہ آدمی کی خصوصیات نہ ملائکہ میں ہیں اور نہ مخلوقات میں نہ عالم میں یہی ایک نسخہ جامع اس اندا ز سے پیدا کیاگیا ہے کہ اس کا کو ئی مثل اور نظیر نہیں اسی وجہ سے بعض محققین نے لکھا ہے کہ آیت شریفہ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیٌٔ سے جس طرح (ذات) تنزیہ ثابت ہوتی ہے اس سے (ذات) تشبیہ بھی اشارۃ معلوم ہو تی ہے اس لئے کہ اگر کاف زائد لیاجائے تو اللہ تعالی کاکوئی مثل نہیں جو ذات وصفات میں اس کے جیسا قدیم اور مستقل بالذات ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اگر کاف کے معنی لئے جائیں تو آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ اس کے مثل یعنی انسان کے جیسا کوئی نہیں جس کو اپنی صورت پر پیدا کیا ‘‘۔ ( ۸ )
حضرت شیخ الاسلام کے اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جیسے لامحدود ہے اسی طرح اس کے صفات بھی لامحدود ہیں اور صفات کا ظہور موصوف سے ہے اگر موصوف نہ ہو تو صفات کا اظہار بھی ممکن نہیں۔لہٰذاجو شخص صفاتِ خداوندی کواچھی طرح جان لیگا تو یقینا وہ ذاتِ خدا و ند ی سے بھی اچھی طرح واقف ہوجائیگا۔ جیساکہ آنحضرت ﷺ ارشاد فرماتے ہیںکہ۔ ’’لَاتَفَکَّرُوْا فِیْ ذَاتِ اللّٰہَ بَلْ تَفَکَّرُوْا فِیْ صِفَاتِ اللّٰہِ‘‘ ترجمہ: کہ تم اللہ تعالی کی ذات میں غور وفکر مت کرو بلکہ اسکی صفات میں غور وفکر کرو ۔ اور اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہو جانا چاہئے کے خداکی ذات میں وہ کونسی شئی ہے جس سے متصف ہو کر بندہ خلیفۃ اللہ کہلا تا ہے۔ صو فیہ کے پاس وہ ’’سبعہ صفات‘‘ ہیںجو علم تصوف کا محور ہیں۔ اور انسان انہی صفات کو اللہ تعا لی کیلئے استعمال کرتا ہے تو وہ ’’ولایت‘‘ کے منصب پر فائز ہوجاتاہے اوران صفات کاملہ کو جب کوئی اللہ کے بندوں کیلئے استعمال کرتاہے تو وہ ’’خلیفۃ اللہ‘‘ کہلا تاہے ۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر ذرا حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت کو دیکھئے کہ وہ ہردو پہلو کو کس خوش اسلوبی کے ساتھ نبھا رہے ہیں کہ بحیثیت صد ر المہام وناظم امور مذہبی سارے دکن کے لوگوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں کہیں آپ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کیلئے واعظین کو مقرر کررہے ہیں توکہیں شہر وبیرون شہردیگر اصلاحات کو انجام دے رہے ہیں حکومت آصفیہ میں جو اصلاحی پہلو نظر آتے ہیں وہ سب بالواسطہ یابلا واسطہ حضرت شیخ الاسلام ہی کے مرہون منت ہیں ۔نیز رات کے وقت بڑے بڑے جید علماء کرام کو عرفان خداوندی سے متعلق درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اس طرح صبح تک یہ سلسلہ جاری وساری رہتا حتی کہ فجر کی نماز کے بعد کچھ دیر آرام کرلیتے پھر جا معہ نظامیہ کے امور کو بخوبی انجام دیتے ۔بندے میں یہ خوبی اور خصوصیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ انسان اللہ تعالی کے اخلاق و صفات میں کمال حاصل کر لیتا ہے پھر ایسی ہی ذات گرامی کو اصطلاح تصوف میں ’’انسان ِ کا مل‘‘ کہاجا تا ہے مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت کو عملی طور پر دیکھنے کیلئے آپ ہی کی زند گی کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو :
شیخ الاسلام کا مقام ولایت :
آپ کی ایک مریدہ حضرت نجیبہ بیگم صاحبہ ؒ جن کو حضرت شیخ الاسلام سے رشتہ داری بھی تھی کثرت ذکر و اذکا ر سے ان کا قلب اس قدر پاک وصاف ہوگیاتھا کہ جس کی وجہ سے ان کے انکشافات صحیح ہوجاتے تھے جن کا ذکر خود حضرت ممدوح نے بھی بارہا فرمایاتھا ۔
’’چنانچہ بی بی صاحبہ فرماتی ہیں میں نے جب کبھی مراقبہ میں حضرت ممدوح کا تصور کیا ہے میں نے آپ کو اس حال میں دیکھا ہے کہ آپ آنحضر ت ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہیں اور آپ کے دونوں ابرؤں سے نور کی زبردست شعائیں نکل کر آسمان تک جارہی ہیں اور آپ بے خود ہیں معلو م ہو تا ہے کہ حضرت ممدوح کو یہ مقام ومرتبہ محض اعلاء کلمۃ الحق اور اشاعت دین مصطفوی ﷺ کی وجہ سے حاصل ہوا۔ بی بی صاحبہ ہمیشہ ’’ فتو حات مکیہ‘‘ کے حلقۂ درس سے استفادہ کیلئے قریب کے ایک کمرے میں بیٹھی سنتی تھیں ان کا بیان ہے کہ میں نے بارہا حضرت سیدنا غو ث پا ک ؒ کو حلقہ درس میں تشریف لاتے ہوئے دیکھاہے کبھی کھڑے کھڑے ہی سماعت فرماتے کبھی بیٹھ بھی جاتے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ حضرت ممد و ح کا طرز تعلیم دیکھنا مقصود ہوتاہے۔ (۹)
ایک دفعہ درس کے وقت حضرت سرکاردوعالم ﷺ کو دیکھا کہ ایک دوسرے کمرے میںتشر یف فرماہیں اور حضرت ممد وح درس دے رہے ہیں اسی طرح آنحضرت ﷺ بھی درس میں مصروف ہیں ایک اورمرتبہ حضرت ممدوح کسی اہم مسئلہ کو اچھی طرح سمجھا نہیں سکے با ر با ر رک جاتے تھے میں نے دیکھاکہ یہاں سے حرمِ پاک تک ایک صاف راستہ ہے آنحضرتﷺ حطیم کعبہ میں تشریف فرما تدریس میں مشغول ہیں آپ کے رک جانے سے آنحضرت ﷺ نے حاضرین سے ارشاد فرمایاکہ آپ لوگ ذرا تو قف کریں کہ اس وقت میرا بچہ حل مضمون سے قاصر ہوگیا ہے اور حضرت ممدوح کی جانب توجہ فرمائی جب توجہ پاک سے مضمون حل ہوگیا توحضورانور ﷺ نہایت مسرور ہوئے اور اپنے حلقہ درس کی جانب توجہ منعطف فرمائی‘‘ ۔( ۱۰ )
اس طرح حضرت غوث پاک ؒ یا حضور ﷺ کا حضرت شیخ الاسلام کے حلقہ درس کی جانب متوجہ ہونا اس با ت کو بتلاتاہے کہ حضرت شیخ الاسلام نہ صرف عرفان خداوندی سے واقفیت رکھتے تھے بلکہ وہ معرفت کے اس مقام ومرتبہ پر فائز تھے جس کو بجا طور پر اس ارشا د خداوندی کا مصداق تصورکیاجاتاہے : اَلْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَاَنَا سِرُّہُ (حدیث قدسی ) یعنی انسان میراراز ہے اور میں اس کا راز ہوں۔ ان خصو صیا ت کے ساتھ حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت گویا اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی مظہر کامل اور اس کے اسماء وصفات کی مجالی ومرائی نظر آتی ہے۔
شیخ الاسلام کی تصانیف میںعلم تصوف سے متعلق کئی عنوانات کے تحت بحثیں پائی جاتی ہیں جس پر آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں سیر حاصل بحث کرتے ہوئے تشنگانِ علوم معرفت کو خوب سیراب فرمایا کئی عرفاء آپ کے سامنے زانوے ادب طئے کرتے ہوئے اور و ں کے مرشد کہلائے یہی و جہ تھی کہ آپ ’’عارف باللہ‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ایسے ہی اولیاء اللہ کے متعلق قرآن حکیم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے اِنْ اَوْلِیَائُ ہٗ اِلَّاالْمُتَّقُونَ (۱۱) یعنی اولیاء اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ان کی صفت کو واضح فرمایاجارہاہے کہ وہ متقی ہی ہوتے ہیں ۔
اس آیت کی روشنی میں اگر ہم حضرت شیخ الاسلام کی زند گی پر غور کریں تو معلوم ہوگاکہ آپ کی زند گی بہت پاکیزہ و صاف ستھری اور تقوی و پر ہیز گا ر ی سے معمور نظر آتی ہے ۔یہاں صرف تقوی کس کو کہتے ہیں اس کا کیا معیار ہوتاہے اس بات کو ہم بطور دلیل مفسرین کے اس قول کو پیش کرتے ہیں جس میں انہو ں نے تقوی کی مختصر مؤثراور جامع تعریف کی ہے ’’ اَلتَّقْویٰ اَنْ لَا یَرَاکَ اللّٰہَ حَیْثُ نَہَاکَ وَلَا یُفْقدکَ حَیْثُ اَمَرَکَ ‘‘
ترجمہ : تیرا رب تجھے وہاں نہ دیکھے جہاں جانے سے تجھے روکا ہے اور اس مقام سے تجھے غیر حاضر نہ پائے جہاں حاضر ہو نے کا اس نے حکم دیا ہے ۔
ملازمت سے سبکدوشی:
اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا ہم اس واقعہ پر بھی غور کریں جوآپ کی زند گی میں ملازمت کے دوران پیش آیاتھا ’’مطلع انوار‘‘ کے بموجب واقعہ یوں بیان کیاجاتاہے۔
’’ آپ کا۱۲۸۵ ھ محکمہ مالگزاری میں خلاصہ نویسی کی خدمت پر تقرر عمل میں آیا پھر اس خدمت کو آپ نے صرف دیڑ ھ سال انجام دیا یعنی ۱۲۸۷ ھ میںملازمت سے استعفاء دیدیا ملازمت سے استعفاء پیش کرنے کا واقعہ عجیب وغریب ہے حالانکہ لوگ آج کے دور میں سرکاری ملازمت کو عزت و خوشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں حضر ت شیخ لاسلام نے صرف ایک مسئلہ کی وجہ سے ملازمت کو چھوڑ دیا کہ سودی لین دین سے متعلق ایک فائل آپ کی خدمت میں پیش کی گئی جس پر آپ کو صرف اس کا خلاصہ لکھنا پڑتا گویا کہ آپ کی غیرت ایمانی تقوی وپرہیزگاری نے اس بات کو گوارہ نہیں کیا اور اسی وقت حضرت شیخ الاسلام نے استعفاء لکھ کرافسر بالا کے پاس روانہ کردیا افسر اعلی نے معافی چاہی اور وعدہ کیاکہ آئندہ آپ کے پاس ایسا کوئی کام نہیں بھیجا جائے گا ۔ حضرت شیخ الا سلام نے فرمایاکہ جب تک آپ ہیں یہ رعایت ملے گی لیکن دوسروں سے اس بارے میں کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ جب ملازمت ہی ٹھیری تو حاکم جو کہے گا ماننا پڑے گا لہٰذا آپ نے فرمایا کہ مجھ سے یہ کام نہیں ہوسکتا اور ملازمت سے سبکدوش ہوگئے ۔اس وقت آپ صاحب اولاد تھے اور جب تک آپ کے والد محترم بقید حیات رہے ترک ملازمت کرنے سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی ۔تقریبا ایک سال کے بعد آپ کے والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ پھر کیاتھا ادھر مصائب وآلام نے جگہ لی ۔ملنے اور جلنے والے ترک ملازمت کی وجہ سے آپ پر ملامت کرنے لگے ۔لیکن اس واقعہ سے یہی معلوم ہوتاہے کہ آپ نے جس ذات وحدہ لا شریک لہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ملازمت سے سبکدوشی اختیار فرمائی تھی پھر اسی ذات وحدہ کے کلام پاک کی اس آیت مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقُہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (طلاق)کو نمونہ بناتے ہوئے صوفیانہ زند گی بسر کی جس کا نتیجہ یہ ہواکہ آپ درس و تدریس میں مشغو ل ہوگئے ۔ (۱۲ )
صوفیانہ شان کی حامل یہ شخصیت اوروں کو راحت پہنچاتے ہوئے خود تکلیف اٹھاتی ۔ یہ ہم کو صرف صوفیہ کی زند گی میں ہی ملتا ہے کیونکہ وہ اسباب سے زیادہ مسبب الاسباب پر نظر رکھتے ہیں اور اس حقیقت کا انکشاف وہی شخص کرسکتا ہے جو عارف باللہ ہو ۔
رب کی تشریح :
چنانچہ شیخ الاسلام رب کی صوفیانہ تشریح فرماتے ہوئے اپنی کتاب ’’ مقاصد الاسلام، حصہ ہشتم‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’ لفظ رب یہ مضاعف ہے اس کا اصل ربب تھا دو حرف ایک جنس کے جمع ہو ئے پہلے کو ساکن کرکے دوسرے میں ادغام کیاگیا رب ہوا ۔یعنی پہلا باء دوسرے میں چھپ گیا ۔ شان ربوبیت خالق کا مقتضی یہی تھاکہ خود ظاہر نہ ہو اور مربوب یعنی جس کی پرورش مقصود ہے اس کو ظاہرکردے۔ دیکھئے جب کسی کو رزق دیاجاتاہے تو اس کے آثار چہرے سے نمایاں ہوتے ہیں اور تمام قوتیں اور جسم گواہی دیتا ہے کہ روزی مل گئی ۔ مگر یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کس نے دی ؟یوں تو خدا اور رسول کے ارشاد سے معلوم ہوگیاکہ رزق دینے والا وہی خدائے تعالی ہے مگر وجدانی طور پر یہ بات معلوم نہیں ہو تی اسی وجہ سے جب نگاہ پڑتی ہے تو اپنے ہی پر پڑ تی ہے کہ ہم نے اپنی قوت بازو سے رزق حاصل کیا یاکسی غلّہ سے حا صل ہو ا یا کسی آدمی نے دے دیا ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو اس طرح چھپایاکہ کسی کو معلوم ہی نہ ہو ۔جس طرح لفظ رب میں پہلا ’’ب‘‘ چھپا ہوا ہے ۔ اسکی صورت محسوس ہے نہ علامت یہاں تک کہ اس کا نقطہ بھی نظر نہیں آتا اور نمایاں ہے ۔سو وہی ایک دوسرا ’’ب‘‘ ہے مگر لفظ رب اشارتاً کہہ رہاہے کہ اگر باء اول نہ ہوتا تو یہ قوت اور شدت جو مدغم فیہ میں محسوس ہے وجود ہی میںنہ آتی ۔ہر چند پہلا ب بالکل چھپا ہواہے مگر جو عقلاء ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ در باطن اس کی حرکت معنوی کا ظہور ہے جس طرح تمام عالم کی حرکت اور قوت گواہی دے رہی ہے کہ بغیر رب العالمین کی ربوبیت کے مجال نہیں کہ کوئی حرکت کر سکے ‘‘۔(۱۳)
توکّل علی اللہ :
اقتبا س کا خلاصہ یہی ہوا کہ رزق دینے کی ایک حرکت اللہ تعالی کی جانب اور دوسری نسبت اسباب کی طرف ہو گی لیکن سبب میں جو فیضان جاری ہے وہ ذات ہی کا ہے جس کی وجہ سے صفت ربوبیت اپنا فیض عطا کررہی ہے ۔اس بات کی وضاحت کرنا اس لئے ضروری سمجھا گیاکہ آج انسا ن اسبا ب اور ذرائع ہی کو اصل جانتا ہے حالانکہ ساری کائنات کا ایک ہی پالنہار ہے جو رب العالمین ہے مزید جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے وَاللّٰہُ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ یعنی رزق دینے والوں میں بہترین رزق دینے والااللہ ہی ہے ۔ ایک انسان جن کے زیر پرورش رہتا ہے اس کو اس بات کی تعلیم دیجا رہی ہے کہ وہ اسبا ب کی نفی کرتے ہوئے مسبب الاسباب پر نظر رکھے ۔یہی وہ بات ہے جو صوفیہ کرام میں پائی جاتی ہے اس بارے میں حضرت شیخ الاسلام کا خیال تھاکہ
’’ اسباب وذرائع جو اللہ تعالیٰ ہی کے پیدا کردہ ہیں ان کو صحیح طور پر استعمال کریں ان کو چھوڑ نا کوئی مناسب بات نہیں بلکہ ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے مسبب الاسبا ب یعنی ذات وحدہ پر بھروسہ کیا جائے کہ وہی ہر چیز کا خالق اور وہی ہر بات کا کار ساز ہے ۔ اور حضرت شیخ الاسلام اسی بات پر پوری طرح کار بند تھے ۔جیساکہ آپ اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ کو کارساز سمجھتے تھے اسی طرح جامعہ نظا میہ کے معاملہ میں بھی اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے فرمایاکرتے کہ خرچ کو ہمیشہ آمد نی پر زیادہ رکھاجائے تاکہ احتیاج الی اللہ باقی رہے‘‘ ۔
یہ بات وہی شخصیت کہہ سکتی ہے جو اپنے اندر صوفیانہ شان رکھتی ہے اور جس کے سامنے قرآن حکیم کی یہ آیت مبارک ہو۔ وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہُ یعنی جس کا اللہ تعالی پر بھروسہ ہوگا اس کیلئے اللہ تعا لی کافی ہے۔ چنانچہ آپ کے وصال سے چنددن پہلے جب آپ نے جامعہ نظامیہ کی مجلس انتظامی بدلی تھی تو بعض اراکین نے چاہا کہ جامعہ کا ایک موازنہ (بجٹ) مرتب کریں اور اخراجات کو اس سے بڑھنے نہ دیں ۔اس بات پر آپ نے فرمایا کہ
’’میں ایک بات کہتا ہوں غالباً آپ حضرات اس بات کو پسند نہیں فرمائیں گے وہ یہ ہے کہ میں نے جس طرح جامعہ نظامیہ کو تَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہ پر چلایاہے اسی طرح آپ لوگ بھی چلائیں‘‘ (۱۴ )
بہر حال یہ بات آپ نے قرآن حکیم کی اس آیت کی روشنی میں فرمائی جیساکہ اللہ تعالی کارشاد ہے ، مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَیَرْزُقُہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبْ (۱۵)
ترجمہ: اللہ تعالی اس مقام سے رزق پہنچاتاہے جہاں اس کا خیال وگمان بھی نہ تھا۔ یہی وجہ ہے اللہ تعالی نے جامعہ نظا میہ پر اپنا خاص فضل فرمایا جہاں طلبہ کی تعداد میں روز انہ اضافہ ہی ہوتاگیا وہاں اس کی آمدنی میں بھی اضافہ فرمایا۔ ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت ہر اعتبار سے اپنے میں صوفیانہ شان رکھتی ہے پھر اسی شان سے ایسے کئی خاصانِ خدا کو تصوف کے رنگ میں رنگ دیا جو کچھ آپ فرماتے تھے اس پر سب سے پہلے عمل پیرا ہوتے جس کی مثالیں آپ کی زند گی میں ہم کو ملتی ہیں۔
وحدۃ الوجود اور حضرت شیخ الاسلام :
وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود ہر دو اصطلاحات پر دنیائے تصوف میں بڑے معرکۃالآراء مبا حث کئے جاتے ہیں۔تصوف کاتعلق چونکہ ان امور سے ہے جو محسوسات سے بہت اعلی وارفع ہیں اس علم میں اصطلاحات سے کام لینے کی سب سے زیادہ ضرورت پیش آئی وہ فن جو انسان کو محسوس سے غیر محسوس اور معلوم سے نامعلوم کی جانب لے جائے اس کے اظہار وبیان کیلئے اصطلاحات سے کیونکر استغنا برتا جاسکتاہے ۔ تصوف میں اصطلاحات کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ جو زبان اپنی لغوی حیثیت سے محدود ہے ان کے رموز ومعانی کو اس طرح واضح طور پر بیان کیاجائے تاکہ لوگ کسی لفظ کے معنی ومفہوم کے سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہو ں ۔ کیونکہ جو اصطلاح ہوتی ہے وہ قانون نہیں بنتی بلکہ وہ صوفی کی ایک منز ل ہے سلوک کے دوران جس منزل میں وہ کمال حاصل کرتا ہے اور وہ شئی سالک کوجس حال میں نظر آتی ہے وہ منزل اس صوفی کیلئے ایک مقام ہے اور جس صوفی میں یہ بات پیدا ہوجاتی ہے تو کسی دوسرے صوفی کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ بھی اس مقام پر وہی دیکھے۔ اگرچیکہ مسئلہ وحدۃ الوجود میں حضرت شیخ اکبر ؒ کے دور سے تصوف کی اس اصطلاح میں بڑے اتار چڑاؤ اور بحث ومباحث کا آغاز ہوا اور کچھ لوگوں نے اس اصطلاح کو شریعت کا ایک اہم مسئلہ سمجھ لیا اور اس مسئلہ پر زیادہ تر وہی لوگ گفتگو کرتے ہیں جو شریعت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نماز وروزوں کو پس پشت ڈالدیتے ہیں ۔چنانچہ اگر ہم گہرائی کے ساتھ غور کریں تو معلوم ہوگاکہ ساری کائینات کی تمام مخلوقات کے علاوہ ذرہ ذرہ میں اگر کسی کا وجود پایاجاتاہے تو وہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ یہاں سار ی مخلوقات میں اس کا وجود پائے جانے کی وجہ سے تمام مخلوقات کو خدا ٹھیرایا نہیں جاسکتا ۔بلکہ اللہ کا وجود اور ہے مخلوق اور چیز ہے ورنہ سب خدا ٹھیریں تو انبیاء کا تشریف لانا ،آسمانی کتابوںکا نزول ،احکامِ خداوندی ،سزا وجزا کس کیلئے؟ ان حقائق کو سمجھنے سے پہلے مسئلہ وحدۃ الوجو د کیاہے اور اس کی حقیقت کو کس طرح واضح کیاجاسکتاہے۔چنانچہ جو چیز حقیقت میں موجود ہے لیکن بظاہر نظر نہ آئے تو اس چیز کے نہ ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ جو چیز حقیقت میں موجود ہی نہ ہو تو پھر اس چیز کا انکار بھی صحیح ہے ۔البتہ چیز کے نظر نہ آنے کی وجہ سے اس کے نہ ہونے کا انکار نہیں کیاجاسکتا کیونکہ وہ چیز اس کے اعیان ثابتہ میں موجود ہے جس کی وجہ سے وہ چیز ظاہر میں وجود پارہی ہے اسی حقیقت کے نظر نہ آنے کو ’’موجودبالذات‘‘ اور نظر آنے کو ’’اعیانِ ثابتہ‘‘ کہا جاتاہے کیونکہ جو چیز ثبوت پاچکی ہے اب اس کا ظہور بھی یقینی ہے۔ جس طرح دودھ میں دہی، مسکہ ،بالائی اور گھی موجود ہے لیکن بظاہر نظر نہیں آرہے ہیں ان کے نظر نہ آنے کی وجہ سے من حیث الذات ان اشیاء کا انکار نہیں کیاجاسکتا پھر ان اشیاء کی حقیقت کو دیکھنا چاہتے ہو تو اسی دودھ سے دہی پھر مسکہ پھر بالائی اورگھی بنے گا۔ان اشیاء کا انکار اسلئے نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اشیاء معدو م تھے لیکن معدوم محض نہ تھے بلکہ وجود سے پہلے ثابت تھے اور وجود کے بعد ظاہر لیکن معدوم ہونے کی وجہ سے سب کو دہی نہیں کہاجاسکتا بلکہ خدا اورذات ہے بندہ اور لیکن عبد و معبود کے درمیان جو گہرا ربط وتعلق ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے سیاہی کو حروف سے جیساکہ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ نے اپنے رسالہ رَأیْتُ رَبِّیْ فِی اَحْسَنِ صُوْرَۃٍمیں فرمایا ۔ عالم کو اللہ تعالی سے وہی تعلق ہے جو سیاہی کو حروف کے ساتھ ہے اور یہ معلوم ہے کہ سیاہی سے حروف ظاہر ہو تے ہیں بلکہ سیاہی حروف کا عین ہے مگر حروف کوسیا ہی نہیں کہتے۔ البتہ یہ درست ہے کہ حروف عین سیاہی ہیں ۔چنانچہ جو سیاہی حروف میں روشن ہے وہ نور ربوبیت ہے جو مظہر میں ظہور فرما ہے اور ہم کو اس کا مشاہدہ کرنا چاہئے۔
حضرت شیخ الاسلام نے اپنی کتاب ’’انوار اللہ الودود فی مسئلۃ وحدۃ الوجود‘‘میں ایک مثال کے ذریعہ اس حقیقت کا انکشاف یوں فرمایاہے
’’زید مثلاً جو موجود ہوا حالت عدم میں زید معدوم تھا یعنی عدمِ محض نہ تھا اسی وجہ سے اس کو زید معدوم کہنے کی ضرورت ہوئی ۔ دیکھئے جب ہم گھر بناتے ہیں تو پہلے اس کا نقشہ ذہن میں لاتے ہیں پھر خارج میں اس کو موجود کرتے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ خارج میں معدوم گھر وجود میں آیا نہ یہ کہ مطلق معدوم یعنی عدم محض ،مقصود یہ ہے کہ گو گھر خارج میں معدوم ہے مگر عدم محض نہیں اگر عدم محض ہوتا تو یوں کہتے کہ عدم کو ہم نے وجود میں لایا حالانکہ کہاجاتاہے کہ معدوم گھر کو ہم نے موجود کیا ۔پھر وہ معدوم گھر جب وجود میں آیاتو جس قدر آثار ولوازم اس کے خیال کئے گئے تھے ان سب کا وجود خارج میں آگیا۔
حاصل یہ کہ موجود گھر کے وجود سے اگر قطع نظر کیاجائے تو صرف گھر رہ جائے گا ۔جو قبل وجود معدوم تھا اور بعد وجود موجود ہوگیا۔ اس کو اس گھر کی عین ثابتہ کہیں گے گو کہ حالت عدم میں موجود نہیں مگر من وجہ اس کو ثبوت کا ایک درجہ حاصل ہے ۔جس کو وجود نہیں کہہ سکتے جب ہی موجود میں دو چیزیں پائی جاتی ہیں ۔ایک وجود دوسری عین ثابتہ تومعلوم ہواکہ کثرت موجودات صرف اعیان ثابتہ کی کثرت سے ہے ورنہ نفس وجود واحد ہے ۔اس کویوں سمجھنا چاہئے کہ تمام عالم کے اعیان ثابتہ پر وجود محیط ہے اور وجود ان پر ایسا ہے جیسے چادر مختلف اشیاء پر اڑادیجا تی ہے ۔ اور ان اعیان ثابتہ کا ظہور صرف وجود کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔اب تمام عالم کو خیال کرلیجئے کہ کہیں زمین ہے کہیں پانی اور کہیں ہوا اور افلاک وغیرہ اس مجموعہ میںوجود موجود ہے جو ایک ہے مگر ہر چیزکی عین ثا بتہ علحدہ علحدہ ہے اور جتنے آثار ولوازم ہرایک کے ہیں وہ سب ہر ایک کے عین ثابتہ میں مندرج ومندمج ہیں ان کو وجود سے کوئی تعلق نہیں اور تعلق ہے تو اس قسم کا کہ ان کا ظہور بغیر وجود کہ ممکن نہیں ۔
اس صورت میں زید مثلا بلکہ عالم معدوم ہے اور موجود ہے تو اسوجہ سے کہ وجود کے ساتھ اس کو ایک تعلق خاص ہے ۔اگر وہ تعلق اٹھ جائے تو اس کو پھر کسی طرح موجود نہیں کہہ سکتے ۔اب اگر ظاہر ہے تو وجود ہی ہے کیونکہ معدوم بہ حیثیت عدم ظاہر نہیں ہوسکتا ۔اگر اس کو ظہور ہے تو تعلق وجود کے طفیل سے ہے اس لحاظ سے بندہ اپنے کو فانی اور غیر موجود کہہ سکتاہے ‘‘۔(۱۶ )
حضرت شیخ الاسلام کے اس اقتباس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ عام طور پر جس کو وحدت وجود اور غیر حق کا عدم محض اور فنائے کامل سمجھاجاتاہے وہ دراصل وجود حقیقی کے سامنے دوسری موجودات کا اس طرح ماندپڑجانا اور مغلوب ہوجاناہے جس طرح آفتاب کی روشنی کے سامنے ستاروں کی روشنی ماند اور ذات کا وجود بے حقیقت ہوجاتاہے دو لفظوںمیںاس کواس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ ’’نابودن دیگر است ونادیدن دیگر ‘‘ یعنی کسی چیز کا نابود ومعدوم ہو جانا اور چیز ہے اور نظر نہ آنا اور چیز۔
گویا تمام ذرات وجود اس روشنی کی آب وتاب میں اس کی نظر سے اوجھل ہوجاتے ہیں جس طرح آفتا ب کی روشنی کے سامنے ذرات ہوا چھپ جاتے ہیں اور ان ذرات کو دیکھا نہیں جاسکتا،اس کا مطلب یہ نہیں کہ ذرہ موجود نہیں اور یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ ذرہ آفتاب ہوگیا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ آفتاب کی روشنی کے ظاہر ہونے پر سوائے چھپ جانے کے ذرہ کامنہ نہیں کہ وہ اپنی صورت دکھائے ۔اسی طرح یہ بات نہیں کہ بندہ خدا ہوگیا اور نہ یہ کہ بندہ حقیقت میں معدوم ہوجاتاہے ،نابود ہونا اور معدوم ہوجانا اور چیز ہے اور نظر نہ آنا اور چیز ہے ۔اسی طرح جب تم آئینہ دیکھتے ہوتوآئینہ کو نہیں دیکھتے اس لئے کہ تم اپنے جمال میں مستغرق ہوتے ہو اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ آئینہ معدوم ہوگیا اور یہ کہ آئینہ تمہارا جمال بن گیاہے یاتمہاراجمال آئینہ بن گیاہے ۔ قدرت کو اشیاء میں ایساہی دیکھا جا سکتاہے ۔ چنانچہ حضرت شیخ لاسلام فرماتے ہیں کہ
’’ حضرت شیخ اکبر ابن عربی ؒنے متعدد مقامات میں فرمایا ’’مَااَنْتَ ھُوَ بَلْ اَنْتَ ہُوَ‘‘ اگر کوئی اس خیال سے کہ وجود واحد ہے اور بزرگانِ دین نے ہمہ اوست فرمایاہے اپنی حقیقت جو عین ثابتہ ہے پیش نظر نہ رکھے اور یہ کہے کہ ہمیں عبادت کی ضرورت نہیںتو حضرات صوفیہ کے نزدیک وہ کافرہے ۔۔۔۔۔اور جگہ جگہ عبادت کی تاکید فرمائی ۔اور وحدت وجود سے اس کو کوئی نفع نہ ہوگا ۔کیونکہ باوجود وحدت وجود کے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ آگ برابر جلا تی ہے اور اس سے درد و مصیبت ہوتی ہے اسی طرح قیامت میں بھی عذاب الیم ہوگا اگر وحدت وجود کامقتضی یہ ہوتاکہ کسی کو اذیت اور ضرر نہ ہوتو دنیا میں بھی اذیت اور تکلیف نہ ہو تی اور یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وحدت وجود کا اثر قیا مت ہی میں ہوگا۔کیونکہ وجود دنیا و آخرت میں ایک ہی ہے مقتضائے ذاتی اس کا بد ل نہیں ہوسکتا ہاں یہ بات اورہے کہ کثرت عبادت سے کُنْتُ سَمْعُہُ وَبَصَرُہُ کے مقام تک پہنچ جائے لیکن وحدت الوجود سے کوئی تعلق نہیںوہ کثرت عبادت کا ثمرہ ہے‘‘ ۔(۱۷)
حضرت شیخ الاسلا م کے مذکورہ اقتباس کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا حضرت خواجہ گیسودراز بندہ نواز ؒ کے اس ملفوظ کو ملاحظہ فرمائیں جو روز پنجشنبہ بتاریخ۴؍ محرم الحرام ۸۰۳ ھ کی مجلس میں ’’ہمہ اوست‘‘ کو بہانہ بناکر شریعت کی پابندیوں سے روگردانی کرنے والوںسے متعلق حضرت مخدوم ؒنے فرمایا۔
’’کہ میں مانتا ہوں کہ سب کچھ اسی کے حکم سے ہے وہی ہے جس نے اپنی رحمت سے جنت بنایا ۔اور وہی ہے جس نے اپنے قہر سے دوزخ پیدا کیا۔ اسی نے نیکی اور برائی دونوں پیدا کی ۔ جو مقہور بندے تھے ان پر قہر نازل کیا کیونکہ وہ اسی کے سزاوار تھے اور جو فرمانبردار بندے تھے ان کو مہربانی اور لطف و کر م سے نوازا کہ وہ اسی کے مستحق تھے ۔۔۔۔۔ اے احمق انسان !اتنا تو سمجھ کہ تجھ سے کیا ہوسکتاہے نیکی یا برائی جس پر تو ہے اسی پر رہے گا اور اسی پر خاتمہ ہوگا تیری طاقت اور حقیقت ہی کیا ہے ۔ فکل میسر لما خلق یعنی ہر ایک کیلئے وہی عمل آسان کیاگیا جس کیلئے وہ پیدا کیاگیا۔نیکی صرف آنحضر ت ﷺ کی پیروی واتباع ہی میں ہے اس کے سوا جو کچھ ہے غلط اور برائی میں داخل ہے ۔۔۔۔۔ برائی سے اور اللہ تعالی کے عذاب سے بچنے کی صورت صرف حضور نبی کریم ﷺ کی پیروی اور اطاعت میں ہی مضمر ہے ۔یہ تمام باتیں جوبیان کی گئیں مسائل شرع اور امور اخروی اور معارف وحقائق سے متعلق ہیں‘‘۔(۱۸)
مزید آنکہ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ نے اپنے ملفوظ میں اس حقیقت کا بھی انکشاف فرمایا کہ ہمیں اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہو جانا چاہئے کہ صوفیہ کا مسلک ’’ ہمہ اوست‘‘ نہیں ہے بلکہ وہ’’ ہمہ ازاوست‘‘ کے قائل ہیں ۔ اور حضرت خواجہ پیر نصیرالدین محمود چراغ دہلوی ؒ کے اس شعر سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے جیساکہ آپ فرماتے ہیں ۔
اے زاہد ظاہر بیں از قرب چہ می پرسی
او درمن دروئے چوں بو بہ گلاب اندر
ترجمہ: اے زاہد اے ظاہر کے دیکھنے والے تو مجھ سے کیا پوچھتا ہے کہ وہ میرے کیسے قریب ہے ،میں اس میں ہوں اوروہ مجھ میں جیسے گلاب میں خوشبو ۔
اس شعرمیں چراغ دہلوی ؒ خداکا بندہ سے اور بندہ کا خدا سے تعلق بتلا تے ہو ئے فرماتے ہیں کہ جیسے گلاب اور خوشبو میں گلاب، خوشبو نہیں اور خوشبو ،گلاب نہیں لیکن ایک دوسرے کے بغیر کسی کا وجود بھی نہیں ۔ لہذا بندہ خدا نہیں اور خدا کبھی بندہ نہیں ہوسکتا ۔ لیکن بندہ ہی کیا بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ خداکی ذات سے جدا نہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ ایک ذات ہی ہے جو اپنے وجود سے موجود ہے ۔ یہ ساری کائنات اسی ذات کا پر تو اور اسی ذات کے کمالات ہیں ۔لہٰذا اس بات کو مستحکم فرمانے کے لئے حضرت خواجہ بندہ نوازؒ ایک حدیث کو نقل فرماتے ہیں کہ ۔ ’’مَارَأیْتُ شَیْئًااِلَّا رَأیْتُ اللّٰہَ فِیْہٖ‘‘۔(۱۹)
ترجمہ:نہیں دیکھی میں نے کوئی چیز مگر دیکھا میں نے اس میں اللہ تعالیٰ کو۔
حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا غور کریں کہ اگر سب وہی ہے توحضرت ممدوح کے یہ اصلاحی کارنامے اور جامعہ نظامیہ کا قیام عمل میں لانا اورہند وبیرون ہند کے جید علماء کرام کو مقرر فرمانا جس کے فیو ض وبرکات سے جامعہ نظا میہ کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی اور اقطائے عالم سے طلبہ جامعہ میں شریک ہوتے اورفارغ ہونے کے بعد اپنے اپنے شہروںمیں درس وتدریس کی خدمات میں مصروف ہونا ان تمام چیزوں کی چنداں ضرورت نہ ہوتی۔
جامعہ نظامیہ کی مقبولیت :
جامعہ نظامیہ کی مقبولیت سے متعلق حضرت ممدوح اپنی کتاب ’’مقاصدالاسلام‘‘ کے حصہ چہارم میں ایک بزرگ کا خوا ب نقل فرمایا ہے جس سے جامعہ ہذا کی اہمیت اور بارگاہ رسالت ﷺ میں اس کی مقبولیت ظاہر ہوتی ہے ۔
’’جیساکہ ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ آنحضر ت ﷺ تشریف فرماہیں اور طلبہ کے اسناد اس غرض سے طلب فرمارہے ہیں کہ خود بھی ان کو اپنی دستخط سے مزین و آراستہ فرمائیں‘‘ (۲۰)۔
حضرت شیخ الا سلا م ایک مجاہدِ اعظم اور مصلحِ کبیر تھے ۔ یہ سب کچھ آپ کے اخلاص اور رضائے الٰہی کا نتیجہ تھا۔ علاوہ ازیں کتب خانہ آصفیہ ،دائرۃ المعارف ، مجلس اشاعت العلوم کا قیام عمل میں لاکر قوم وملت کی وہ خدمت انجام دی جس کو رہتی دنیا تک کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔
آخر میں سید المرسلین ،رحمۃ للعالمین ﷺ کے صدقے میں دعا کرتاہوں کہ اے اللہ ہم سب کو بزرگان دین کے اسوئہ حسنہ کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما اور حضرت شیخ الاسلام کے روحانی وعلمی فیوض وبرکات سے ہمیں مستفیض فرما ۔ آمین ۔ بجاہ سید المرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین ۔
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) مطلع الانوار،ص۱۲ مطبوعہ۱۴۰۵، زیر اہتمام: جمعیۃ الطلبۃ جامعہ نظامیہ حیدرآباد
(۲) شیخ عبدالحق محدث دہلوی؍ترجمہ مرج البحرین (وصال السعدین)، ص ۵۲، مطبع ثانی، لکھنو ۱۳۱۴ھ ۱۸۹۷ء
(۳) مولانا انواراللہ فاروقیؒ، مقاصد الاسلام، حصہ پنجم،ص۵ مجلس اشاعۃ العلوم حیدرآباد۔
(۴) القرآن الحکیم سورہ لقمان آیت نمبر(۱)
(۵) القرآن الحکیم، سورۃ التوبہ، آیت(۷۲)
(۶)القرآن الحکیم، سورۃ الانعام، آیت(۱۶۲)
(۷)شیخ الاسلامؒ، مقاصد الاسلام، حصہ سوم ص۹، مطبوعہ۱۳۲۸ھ، مطبع سبحانی، حیدرآباد، دکن۔
(۸)مقاصدالاسلام، حصہ سوم، ص۱۴،مطبوعہ اشاعۃ العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد
(۹)مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ مطلع الانوار،ص۸۱، مطبوعہ ۱۴۰۵ھ۔
(۱۰) مولانا مفتی محمد رکن الدین مطلع الانوار،ص۸۲، مطبوعہ۱۴۰۵ھ
(۱۱) القرآن الحکیم سورۃ الانفال آیت (۳۴)
(۱۲) مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ؍ مطلع الانوار،ص۱۴۔۱۵، مطبوعہ۱۴۰۵ھ
(۱۳)شیخ الاسلامؒ،مقاصدالاسلام،حصہ ہشتم،ص۵۸۔۵۹، مجلس اشاعۃ العلوم حیدرآباد۔
(۱۴) مولانا مفتی محمد رکن الدین ؒ ؍مطلع الانوار،ص۷۹، مطبوعہ۱۴۰۵ھ
(۱۵) القراٰن الحکیم، سورۃ الطلاق، آیت ۲ ۔ ۳
(۱۶)انواراللہ الودود فی مسئلۃ وحدۃ الوجود، مصنفہ حضرت شیخ الاسلام ص۴۔۵۔
(۱۷) انوار اللہ الودود فی مسئلۃ وحدۃ الوجود، مصنفہ حضرت شیخ الاسلام ؍مطبوعہ مجلس اشاعۃ العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن۔
(۱۸)ملفوظات حضرت خواجہ گیسودراز بندہ نوازؒ؍ مجلس روز پنجشنبہ ۴؍محرم الحرام ۸۰۳ھ
(۱۹)ملفوظات حضرت خواجہ گیسودراز بندہ نوازؒ؍ مجلس روز پنجشنبہ ۴؍محرم الحرام ۸۰۳ھ
(۲۰) مقاصد الاسلام، حصہ چہارم،ص۴مطبوعہ مجلس اشاعۃ العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد
ژژژ
0 Comments: