اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداوند قدوس سے دو چیزیں طلب کیں ایک تو یہ کہ کچھ لوگوں کے دل اولاد ابراہیم علیہ السلام کی طرف مائل ہوں اور دوسرے ان لوگوں کو پھلوں کی روزی کھانے کو ملے۔ سبحان اللہ عزوجل آپ کی یہ دعائیں مقبول ہوئیں۔ چنانچہ اس طرح لوگوں کے دل اہل مکہ کی طرف مائل ہوئے کہ آج کروڑہا کروڑ انسان مکہ مکرمہ کی زیارت کے لئے تڑپ رہے ہیں اور ہر دور میں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھا کر مسلمان خشکی اور سمندر اور ہوائی راستوں سے مکہ مکرمہ جاتے رہے۔ اور قیامت تک جاتے رہیں گے اور اہل مکہ کی روزی میں پھلوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ باوجودیکہ شہر مکہ اور اس کے قرب و جوار میں کہیں نہ کوئی کھیتی ہے نہ کوئی باغ باغیچہ ہے۔ مگر مکہ مکرمہ کی منڈیوں اور بازاروں میں اس کثرت سے قسم قسم کے میوے اور پھل ملتے ہیں کہ فرط تعجب سے دیکھنے والوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ''طائف'' کی زمین میں ہر قسم کے پھلوں کی پیداوار کی صلاحیت پیدا فرما دی ہے کہ وہاں سے قسم قسم کے میوے اور پھل اور طرح طرح کی سبزیاں اور ترکاریاں مکہ معظمہ میں آتی رہتی ہیں اور اس کے علاوہ مصر و عراق بلکہ یورپ کے ممالک سے میوے اور پھل بکثرت مکہ مکرمہ آیا کرتے ہیں۔ یہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کی برکتوں کے اثرات و ثمرات ہیں جو بلاشبہ دنیا کے عجائبات میں سے ہیں۔
اس کے بعد آپ نے یہ دعا مانگی جس میں آپ نے اپنی اولاد کے علاوہ تمام مومنین کے لئے بھی دعا مانگی۔
رَبِّ اجْعَلْنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ ﴿40﴾رَبَّنَا اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیۡنَ یَوْمَ یَقُوۡمُ الْحِسَابُ ﴿٪41﴾ (پ13،ابرٰھیم:40،41)
ترجمہ کنزالایمان:۔اے میرے رب مجھے نماز کاقائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو اے ہمارے رب اور میری دعا سن لے اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہو گا۔
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے دو باتیں خاص طور پر معلوم ہوئیں:۔
(۱)حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب تعالیٰ کے بہت ہی اطاعت گزار اور فرماں بردار تھے کہ وہ بچہ جس کو بڑی بڑی دعاؤں کے بعد بڑھاپے میں پایا تھا جو آپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھا، فطری طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کو کبھی اپنے سے جدا نہیں کرسکتے تھے مگر جب اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہو گیا کہ اے ابراہیم! تم اپنے پیارے فرزند اور اس کی ماں کو اپنے گھر سے نکال کر وادیئ بطحا کی اُس سنسان جگہ پر لے جا کر چھوڑ آؤ جہاں سر چھپانے کو درخت کا پتّا اور پیاس بجھانے کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے، نہ وہاں کوئی یار و مددگار ہے، نہ کوئی مونس و غم خوار ہے۔ دوسرا کوئی انسان ہوتا تو شاید اس کے تصور ہی سے اُس کے سینے میں دل دھڑکنے لگتا، بلکہ شدتِ غم سے دل پھٹ جاتا۔ مگر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا کا یہ حکم سن کر نہ فکر مند ہوئے، نہ ایک لمحہ کے لئے سوچ بچار میں پڑے، نہ رنج و غم سے نڈھال ہوئے بلکہ فوراً ہی خدا کا حکم بجا لانے کے لئے بیوی اور بچے کو لے کر ملک شام سے سرزمین مکہ میں چلے گئے اور وہاں بیوی بچے کو چھوڑ کر ملک شام چلے آئے۔ اللہ اکبر! اس جذبہ اطاعت شعاری اور جوشِ فرماں برداری پر ہماری جاں قربان!
(۲)حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور اُن کی اولاد کے لئے نہایت ہی محبت بھرے انداز میں اُن کی مقبولیت اور رزق کے لئے جو دعائیں مانگیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی اولاد سے محبت کرنا اور اُن کے لئے دعائیں مانگنا یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا مبارک طریقہ ہے جس پر ہم سب مسلمانوں کو عمل کرنا ہماری صلاح و فلاح دارین کا ذریعہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: