''ایکہ'' جھاڑی کو کہتے ہیں ان لوگوں کا شہر سرسبز جنگلوں اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا۔ آپ نے ''اصحاب ایکہ'' کے سامنے جو وعظ فرمایا وہ قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ، آپ نے فرمایاکہ
اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿177﴾ۚاِنِّیۡ لَکُمْ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿178﴾ۙفَاتَّقُوا اللہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿179﴾ۚوَ مَاۤ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیۡہِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿180﴾ؕاَوْفُوا الْکَیۡلَ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُخْسِرِیۡنَ ﴿181﴾ۚوَزِنُوۡا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیۡمِ ﴿182﴾ۚوَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیۡنَ ﴿183﴾ۚ وَ اتَّقُوا الَّذِیۡ خَلَقَکُمْ وَ الْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیۡنَ ﴿184﴾ؕقَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیۡنَ ﴿185﴾ۙوَمَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَ اِنۡ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیۡنَ ﴿186﴾ۚفَاَسْقِطْ عَلَیۡنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿187﴾ؕقَالَ رَبِّیۡۤ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿188﴾فَکَذَّبُوۡہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیۡمٍ ﴿189﴾ (پ19،الشعراء:177 تا 189)
ترجمہ کنزالایمان:۔کیا ڈرتے نہیں بیشک میں تمہارے لئے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو اور میں اس پرکچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو اور سیدھی ترازو سے تولو اور لوگوں کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو بولے تم پر جادو ہوا ہے تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور بیشک ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادو اگر تم سچے ہو فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے کو تک ہیں تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آلیا۔ بیشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔
خلاصہ یہ کہ ''اصحاب ایکہ''نے حضرت شعیب علیہ السلام کی مصلحانہ تقریر کو سن کر بدزبانی کی اور اپنی سرکشی اور غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پیغمبر کو جھٹلا دیا اور یہاں تک اپنی سرکشی کا اظہار کیا کہ پیغمبر سے یہ کہہ دیا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا کر ہم کو ہلاک کردو۔
ا س کے بعد اس قوم پر خداوند قہار و جبار کا قاہرانہ عذاب آگیا وہ عذاب کیا تھا؟ سنئے اور عبرت حاصل کیجئے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جس سے پوری آبادی میں شدید گرمی اور لو کی حرارت و تپش پھیل گئی اور بستی والوں کا دم گھٹنے لگا تو وہ لوگ اپنے گھروں میں گھسنے لگے اور اپنے اوپر پانی کا چھڑکاؤ کرنے لگے مگر پانی اور سایہ سے انہیں کوئی چین اور سکون نہیں ملتا تھا۔ اور گرمی کی تپش سے ان کے بدن جھلسے جارہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی بھیجی جو شامیانے کی طرح پوری بستی پر چھا گئی اور اس کے اندر ٹھنڈک اور فرحت بخش ہوا تھی۔ یہ دیکھ کر سب گھروں سے نکل کر اس بدلی کے شامیانے میں آگئے جب تمام آدمی بدلی کے نیچے آگئے تو زلزلہ آیا اور آسمان سے آگ برسی۔ جس میں سب کے سب ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جل گئے۔ ان لوگوں نے اپنی سرکشی سے یہ کہا تھا کہ اے شعیب! ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا کر ہم کو ہلاک کردو۔ چنانچہ وہی عذاب اس صورت میں اسسرکش قوم پر آگیا اور سب کے سب جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔
(تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۴۷۴،پ۱۹، الشعرآء:۱۸۹)
ایک ضروری توضیح:۔واضح رہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ ایک قوم ''مدین''دوسرے ''اصحاب ایکہ''ان دونوں قوموں نے آپ کو جھٹلادیا، اور اپنے طغیان و عصیان کا مظاہرہ اور اپنی سرکشی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں قوموں نے آپ کے ساتھ بے ادبی اور بدزبانی کی اور دونوں قومیں عذابِ الٰہی سے ہلاک کردی گئیں۔ ''اصحاب مدین''پر تو یہ عذاب آیا کہ فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام کی چیخ اور چنگھاڑ کی ہولناک آواز سے زمین دہل گئی اور لوگوں کے دل خوف ِ دہشت سے پھٹ گئے اور سب دم زدن میں موت کے گھاٹ اُتر گئے۔
اور ''اصحاب ایکہ''، ''عذاب یوم الظلۃ''سے ہلاک کردیئے گئے جس کا تفصیلی بیان ابھی ابھی آپ پڑھ چکے ہیں۔ (تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۴۷۳، پ۱۹، الشعرآء:۱۷۶)
0 Comments: