نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ضو فشانیاں:
'لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھ۔'' پس قلم نے لکھا اور مخلوق کے متعلق علمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ پر رسائی پالی۔ پھراس نے یہ باتیں لکھیں: (۱)۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی پشت مبارک میں
موجود اولاد کی تعداد(۲)۔۔۔۔۔۔ جو اطاعتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ بجا لائے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور جواس کی نافرمانی کریگا اُسے دوزخ میں ڈال دے گا۔ اسی طرح (۳) ۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُنا ابراہیم خلیل اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام،
1۔۔۔۔۔۔''عام الفیل'' وہ سال ہے جس میں ابرہہ بادشاہ نے ہاتھیوں کا لشکر لے کر خانۂ کعبہ پر چڑھائی کی تھی۔
حضرت سیِّدُناموسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام اورحضرت سیِّدُناعیسیٰ روح اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی امتوں کے متعلق بھی لکھا یہاں تک کہ جب حضورنبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی امت کے متعلق لکھا کہ جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی، قلم یہ جملہ ''وہ اُسے جہنم میں ڈال دے گا'' ابھی لکھنا ہی چاہتا تھاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نِدا آئی: ''اے قلم! ذرا ادب سے۔'' تو وہ ہیبت وجلالِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے شق ہو گیاپھر دستِ قدرت سے تراشا گیا۔ تب سے قلم میں یہ بات جاری ہو گئی کہ تراشے بغیر نہیں لکھتا۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلّ نے قلم سے ارشاد فرمایا: اس امت کے متعلق لکھ، '' یہ اُمَّت گنہگار ہے اور رب عَزَّوَجَلَّ غفَّار ( یعنی بہت بخشنے والا) ہے۔'' پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیسرے حصے سے عرش کوپیداکیا۔ پھرچوتھے حصے کے مزید چار حصے کرکے پہلے حصے سے عقل، دوسرے سے معرفت، تیسرے سے سورج، چاند اور آنکھوں کا نور اور دِن کی روشنی پیدا فرمائی اور یہ سب حقیقۃً نبئ مختارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہی کے انوارہیں۔ پس آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تمام کائنات کی اصل ہیں۔ اس کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نور کی اس چوتھی قسم کے چوتھے حصے کو بطورِ امانت عرش کے نیچے رکھ دیا۔ پھر جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا آدم صفی اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو پیدا فرمایا تو وہ نور ان کی پشت مبارک میں رکھا۔ پھر فرشتوں سے آپ علیہ السلام کو سجدہ کروایااور جنت میں داخل کر دیا۔ فرشتے صف در صف آپ علیہ السلام کی پشت مبارک کے پیچھے کھڑے ہو کر نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت کیا کرتے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی:''یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! یہ فرشتے میری پشت کے پیچھے صف باندھ کر کیوں کھڑے رہتے ہیں؟'' ارشاد فرمایا:'' اے آدم! یہ فرشتے میرے حبیب،خاتم الانبیآء، محمدِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے نورکی زیارت کرتے ہیں، جسے میں تیری پُشت سے پیدا فرماؤں گا۔''حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصّلٰوۃ والسّلام نے عرض کی: ''یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ ! اس مبارک نورکو میری پیشانی میں رکھ دے تاکہ یہ فرشتے میرے سامنے رہیں، پشت کی طرف نہ جائیں۔''تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو آپ علیہ السلام کی پیشانی میں رکھ دیا۔فرشتے حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر دُرودو سلام کے نذرانے پیش کرتے رہتے۔ حضرت سیِّدُناآدم علٰی نبیناو علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عرض کی: ''یاالٰہی عَزَّوَجَلَّ ! میں بھی اس مبارک نور کی زیارت کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا اسے میری پیشانی سے نکال کر کسی ایسی جگہ رکھ دے جہاں میں اس کی زیارت کر سکوں۔'' تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم حضرت سیِّدُناآدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی اَنگُشتِ شہادت میں منتقل فرما دیا۔فرشتے تسبیح پڑھتے تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسّلام کی اَنگُشتِ مبارک میں وہ نور بھی تسبیح خوانی کرتا۔اسی وجہ سے اس اُنگلی کو ''اَلْمُسَبِّحَۃُ''(یعنی تسبیح والی اُنگلی) کہتے ہیں۔ پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عرض کی : ''یااللہ عَزَّوَجَلَّ !کیا اس مبارک نور میں سے کچھ میری پشت میں بھی باقی ہے ؟''جواب ملا:
''ہاں! میرے محبوب کے صحابہ کا نورابھی باقی ہے۔'' عرض کی :''یااللہ عَزَّوَجَلَّ! اس بقیہ نورکو میری بقیہ انگلیوں میں رکھ دے۔'' تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانور درمیان والی انگلی میں، امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نور بِنْصَرْ(یعنی درمیانی کے ساتھ والی انگلی) میں ، امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نور خِنْصَرْ (یعنی سب سے چھوٹی اُنگلی)میں اور امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نورانگوٹھے میں رکھ دیا۔ جب تک حضرت سیِّدُنا آدم صفی اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام جنت میں رہے تو یہ نور ان کی اُنگلیوں میں چمکتارہا۔ جب آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام درخت کی آزمائش سے دوچار ہوئے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس نور کو دوبارہ واپس پشت میں رکھ دیا۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس ودیعت کئے گئے نور کے راز کی قدر و منزلت کی پہچان کرا ئی اور فرمایا: ''پاک صاف ہو کر تسبیح و تقدیس کرو پھر دونوں طاہرہو جاؤ اور اپنی اہلیہ حواء کا حقِّ زوجیت ادا کروکہ میں تم دونوں سے اپنے اس فیض آثار نور کا ظہور فرمانے والا ہوں۔'' پس آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے حکمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے مطابق عمل کیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام سے حضرت سیِّدَتُنا حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں منتقل فرما دیا۔ پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام اس نور کوحضرت سیِّدَتُنا حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی پیشانی میں سورج کی مانند دائرے کی صورت میں دیکھا کرتے۔
(مصنّف عبد الرّزّاق، الجزء المفقود من الجزء الاوّل،کتاب الایمان،باب فی تخلیق نورمحمد ، الحدیث۱۸،ص۶۳۔ بالفاظٍ مختلفۃٍ)
موجود اولاد کی تعداد(۲)۔۔۔۔۔۔ جو اطاعتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ بجا لائے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور جواس کی نافرمانی کریگا اُسے دوزخ میں ڈال دے گا۔ اسی طرح (۳) ۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُنا ابراہیم خلیل اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام،
1۔۔۔۔۔۔''عام الفیل'' وہ سال ہے جس میں ابرہہ بادشاہ نے ہاتھیوں کا لشکر لے کر خانۂ کعبہ پر چڑھائی کی تھی۔
حضرت سیِّدُناموسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام اورحضرت سیِّدُناعیسیٰ روح اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی امتوں کے متعلق بھی لکھا یہاں تک کہ جب حضورنبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی امت کے متعلق لکھا کہ جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی، قلم یہ جملہ ''وہ اُسے جہنم میں ڈال دے گا'' ابھی لکھنا ہی چاہتا تھاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نِدا آئی: ''اے قلم! ذرا ادب سے۔'' تو وہ ہیبت وجلالِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے شق ہو گیاپھر دستِ قدرت سے تراشا گیا۔ تب سے قلم میں یہ بات جاری ہو گئی کہ تراشے بغیر نہیں لکھتا۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلّ نے قلم سے ارشاد فرمایا: اس امت کے متعلق لکھ، '' یہ اُمَّت گنہگار ہے اور رب عَزَّوَجَلَّ غفَّار ( یعنی بہت بخشنے والا) ہے۔'' پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیسرے حصے سے عرش کوپیداکیا۔ پھرچوتھے حصے کے مزید چار حصے کرکے پہلے حصے سے عقل، دوسرے سے معرفت، تیسرے سے سورج، چاند اور آنکھوں کا نور اور دِن کی روشنی پیدا فرمائی اور یہ سب حقیقۃً نبئ مختارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہی کے انوارہیں۔ پس آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تمام کائنات کی اصل ہیں۔ اس کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نور کی اس چوتھی قسم کے چوتھے حصے کو بطورِ امانت عرش کے نیچے رکھ دیا۔ پھر جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا آدم صفی اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو پیدا فرمایا تو وہ نور ان کی پشت مبارک میں رکھا۔ پھر فرشتوں سے آپ علیہ السلام کو سجدہ کروایااور جنت میں داخل کر دیا۔ فرشتے صف در صف آپ علیہ السلام کی پشت مبارک کے پیچھے کھڑے ہو کر نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت کیا کرتے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی:''یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! یہ فرشتے میری پشت کے پیچھے صف باندھ کر کیوں کھڑے رہتے ہیں؟'' ارشاد فرمایا:'' اے آدم! یہ فرشتے میرے حبیب،خاتم الانبیآء، محمدِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے نورکی زیارت کرتے ہیں، جسے میں تیری پُشت سے پیدا فرماؤں گا۔''حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصّلٰوۃ والسّلام نے عرض کی: ''یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ ! اس مبارک نورکو میری پیشانی میں رکھ دے تاکہ یہ فرشتے میرے سامنے رہیں، پشت کی طرف نہ جائیں۔''تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو آپ علیہ السلام کی پیشانی میں رکھ دیا۔فرشتے حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر دُرودو سلام کے نذرانے پیش کرتے رہتے۔ حضرت سیِّدُناآدم علٰی نبیناو علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عرض کی: ''یاالٰہی عَزَّوَجَلَّ ! میں بھی اس مبارک نور کی زیارت کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا اسے میری پیشانی سے نکال کر کسی ایسی جگہ رکھ دے جہاں میں اس کی زیارت کر سکوں۔'' تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم حضرت سیِّدُناآدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی اَنگُشتِ شہادت میں منتقل فرما دیا۔فرشتے تسبیح پڑھتے تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسّلام کی اَنگُشتِ مبارک میں وہ نور بھی تسبیح خوانی کرتا۔اسی وجہ سے اس اُنگلی کو ''اَلْمُسَبِّحَۃُ''(یعنی تسبیح والی اُنگلی) کہتے ہیں۔ پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عرض کی : ''یااللہ عَزَّوَجَلَّ !کیا اس مبارک نور میں سے کچھ میری پشت میں بھی باقی ہے ؟''جواب ملا:
''ہاں! میرے محبوب کے صحابہ کا نورابھی باقی ہے۔'' عرض کی :''یااللہ عَزَّوَجَلَّ! اس بقیہ نورکو میری بقیہ انگلیوں میں رکھ دے۔'' تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانور درمیان والی انگلی میں، امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نور بِنْصَرْ(یعنی درمیانی کے ساتھ والی انگلی) میں ، امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نور خِنْصَرْ (یعنی سب سے چھوٹی اُنگلی)میں اور امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نورانگوٹھے میں رکھ دیا۔ جب تک حضرت سیِّدُنا آدم صفی اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام جنت میں رہے تو یہ نور ان کی اُنگلیوں میں چمکتارہا۔ جب آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام درخت کی آزمائش سے دوچار ہوئے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس نور کو دوبارہ واپس پشت میں رکھ دیا۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس ودیعت کئے گئے نور کے راز کی قدر و منزلت کی پہچان کرا ئی اور فرمایا: ''پاک صاف ہو کر تسبیح و تقدیس کرو پھر دونوں طاہرہو جاؤ اور اپنی اہلیہ حواء کا حقِّ زوجیت ادا کروکہ میں تم دونوں سے اپنے اس فیض آثار نور کا ظہور فرمانے والا ہوں۔'' پس آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے حکمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے مطابق عمل کیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام سے حضرت سیِّدَتُنا حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں منتقل فرما دیا۔ پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام اس نور کوحضرت سیِّدَتُنا حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی پیشانی میں سورج کی مانند دائرے کی صورت میں دیکھا کرتے۔
(مصنّف عبد الرّزّاق، الجزء المفقود من الجزء الاوّل،کتاب الایمان،باب فی تخلیق نورمحمد ، الحدیث۱۸،ص۶۳۔ بالفاظٍ مختلفۃٍ)
0 Comments: