شہرنعت کاایک باشندہ
منیراحمدجامیؔ
غلام ربانی فدا
منیراحمدجامی ایک زیرک صحافی کی حیثیت سے مقبول ہیں۔ انھوںنے اپنے عہد کے نامور تخلیق کاروں سے گفتگو کرکے اپنے عہد کے سیاسی، سماجی، مذہبی، شعری اور تہذیبی رویوں کو محفوظ کرنے کی ہر سعی کی اواردو اب کو اپنی تخلیقی وانفرادی فکر سے ’’اختراع اور ارتفاع‘‘ جیسی کتابیں صاحبانِ علم و ادب کی خدمت میں پیش کیں۔
جامی کا اسلوب ان کی شخصیت کا غماز ہے۔ سادگی، سلاست اور اخلاص ان کے پُرتاثیر اسلوب کا منظرنامہ مرتب کرتے ہیں۔ طویل و مختصر ہر مزاج کی بحر میں ان کی طبیعت اپنے صناعانہ جوہر دکھاتی ہے۔ وہ لکھنوی شعرا کی طرف صنائع بدائع کی نزاکتوں سے تو کماحقہ آگاہ نہیں ہیں تاہم انھوںنے علم بیان و بدیع کے معروف اراکین سے خوب خوب کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نقوی صاحب نے آیات و احادیث سے بھی کماحقہ استفادہ کیا ہے۔ آپ ان کی نعتوں کی درج ذیل تراکیب و مرکبات ملاحظہ فرمایئے اور دیکھیے کہ عمران نقوی نے کس طرح فنی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی نعتوں میں اپنے تخلیقی جوہر نمایاں کیے ہیں خاکِ پا، سرِ مژگاں، دل مضطر، قصدِ سخن، جبلِ نور، شہرِ انوار، اشک ندامت، سُوئے مدینہ، گنبدِ خضرا، گل جاں، قریۂ سنگ، مدحتِ سرورِ عالم، اہلِ بقا، سرِ کوہِ صفا، رنگِ فنا، دیارِ جاں، رہینِ احساں، طاقِ افلاک، سرِ عرش بریں، جوارِ مکہ، حرفِ التجا، حرفِ تسلی، نقشۂ صحرا، ارض پاک، خیالِ خواجۂ بطحا، کشتِ تمنا، رنگ و بو، نگاہِ فیض، جمالِ شہرِنبی، کعبۂ دل، لوحِ زماں و مکاں، نگارخانۂ قصرِ شہاں، بہارِ عشقِ نبی، حلقۂ چارہ گراں، شاخِ خزاں، درِ قبول، آلِ عبا، عمرِ جاوداں، گلِ مراد، طلوعِ حسنِ بصیرت، فراتِ عصر، صبحِ اُمید، نقشِ سادہ، سالارِ کارواں، محبوبِ سبحانی، آیاتِ قرآنی، جمالِ طیبہ، راحتِ سائبان، درِ غارِ حرا، لوح، ادراک، فکر و نظر، ظلمتِ شب، ماہ تابِ مبیں، حسرتِ مدحتِ شہِ بطحا، گوشۂ چشمِ تر، قریۂ نور، کتابِ مبیں، سایۂ سیّدالابرار، عہدِ مواخات، لوحِ تاریخ، سحابِ مبیں، عرصۂ ہجر، شہرِ انوار، صبحِ مدحت، مدحِ شہِ والا، انبوہِ یاس، کشتِ سخن، صدق و صفا، ربّ دوعالم، نخلِ جاں، شاخِ ثنا، ساعتِ مہرباں، شہرِ انوار، نسیمِ طیبہ، کارِ فضول، آہنگ ثنا، رشکِ کہکشاں، صفحۂ دل، شہرِ رحمت، دلِ زار، اُسوۂ کامل، حسرتِ طیبہ، ورق زیست، ساعتِ فجر، اسیرِ نسیمِ طیبہ، عفو و رحمت، خواہشِ خلد، بریں، کارزارِ حیات، ریاضِ جنہ، فردوسِ سخن، موجِ کرم، صورتِ التماس، صفحۂ جاں، خلدِ نظر، داغِ عصیاں، مشعلِ عشقِ نبی، لطفِ حضوری، ہجومِ صحنِ حرم۔
جناب جامی صاحب کے حوالے سے ڈاکٹر غلام ربانی فدا رقمطراز ہیں:
جناب منیراحمدجامی کرناٹک کی ان ادبی شخصیات میں سے ہیں جنہیں کرناٹک ادبی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ منیراحمد تخلص جامیؔ رکھتے ہیں۔جامی ؔ کی پیدائش۵۔مئی ۱۹۵۴ کو جناب ایم عبدالرحمٰن کے پیداہوئے۔ والدمرحوم ایم عبدالرحمٰن نے جامی کی پیدائش دینی ومذہبی ماحول میں کی۔ یہی وجہ ہے کہ جامیؔ میں تصوف کا گہرا رنگ پایاجاتا ہے ۔ جامی کی زندگی نشیب وفراز سے ہمیشہ گزرتی رہی ۔ جامیؔ نے زندگی کوبہت قریب سے دیکھاہے اور زندگی کے کئی رنگ دیکھے ہیں ۔جن میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ غموں کوبھی بہت قریب سے دیکھاہے مگر صوفیانہ صفت نے جامیؔ کو کبھی بھی ان غموں سے اداس اور مایوس نہیں کیا۔ دوستوں کی چالاکیاں اورحاسدین کے حسد نے انہیں مزیدترقیاں عطاکی ہیں۔اگر ایک جملے میں جامیؔ کوکہا جائے تو یہ وہ ہوگا ’’ فارسی کے جامیؔ کے ثانی ہمارے منیراحمدجامیؔ ہیں۔ شہرت و خودنمائی سے دور سادگی مزاج وسادگی پسند ۔ یہی کیفیت وخصوصیت انہیں معاصرین میں ممتازکرتی ہے، خیرجامیؔ سے میراربط گہرا ہے۔ منیراحمدجامیؔ کی تمام خدمات کواحاطہ کرنے کے لئے مختصرسطریںکافی نہیں ہیں۔ انشاء اللہ کبھی جامیؔ مکمل ’’فن اورشخصیت‘‘ کے ساتھ آپ سے تعارف کرواتاہوں۔ منیراحمدجامیؔ نے پی یو سی کی تکمیل کے بعد آل انڈیا ریڈیو بنگلور میں تقریباً 1973ء میں بحیثیت ناظم خدمات کاآغاز کیا۔ہنوز برقرار ہے۔ 1978میںحکومت سے ملنے کے بعد آپ نے ہورائیزن پرنٹنگ پریس کا آغاز کیا۔ ان کا پریس گورنمنٹ سے اپرول بھی کروایا۔ اردو کا یہ مجذوب منیراحمدجامیؔ بے شمار کتابوں کی چھپائی کی اور ان کے حوالے سے یہ مشہوررہاکہ ’’اگراردواکاڈمی سے انعام پاناہوتوجامیؔ کے پریس سے کتاب چھپاؤ‘‘ اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جامی ؔ کس دیانتداری اورایمانداری سے یہ کام کرتے تھے۔ اکثرلوگوں کی کتابیں شائع کرنےکے بعد اپناحقِ محنت بھی لینا نہیں چاہا۔اس طرح خسارہ کے ساتھ اس پریس کوبندکرناپڑا۔ 1983ء میں جب دوردرشن بنگلورکا قیام عمل میں آیا تو جامیؔ دوردرشن کے چندن چینل میں بحیثیت انٹرویور کے خدمات کاآغاز کیے اور سنکیڑوں لوگوں کے انٹرویو لیے اور لاتعداد ڈرامہ لکھے اور دوردرشن سے نشربھی ہوئے۔ اور آج تک کتنوں پوشیدہ شاعروں کو ٹی وی اسکرین پر پیش کرچکے ہیں اورکریں گے انشاء اللہ۔
تصنیفات:٭ سوانح حضرت سید فخرالدین،٭ سوانح حضرت خواجہ بندہ نواز٭ سوانح ٹیپوسلطان،٭ سوانح حضرت توکل مستان٭ اردوکے اصناف سخن٭ اجالوں کاسفیر٭ الجامعہ ( تاریخ جمعہ مسجدبنگلور)٭ قصیدہ بردہ شریف کامنظوم ترجمہ٭ اختراع٭ حرف ناتمام ٭ نقش لاثانی٭ باران رحمت(کتابچہ سیریز پانچ حصے)٭ ارتفاع٭ اختراع٭ اجتماع٭ تذکرۃ الصالحین ۔حال ہی میں وجہ کل نامی ایک نعتیہ سی ڈی ان کی ہی آواز میں جاری کی گئی ہے۔
روزنامہ سیاست بنگلور کے ادبی ایڈیشن کے مدیر اور ماہنامہ طرزتحریر بنگلورکے مدیراعلیٰ ہیں،
ایوارڈ واعزازات:
جشن جامیؔ (۲۰۱۴)
گورنرایوارڈ (۲۰۱۳)
’’اختراع ‘‘اردومنچ کی جانب سے ایوارڈ اور۲۵۰۰۰نقد
کرناٹک اردواکادمی کی جانب سے تین مجموعہائے کو اولین انعام
(یہ فہرست بہت طویل ہے۔ اورتفصیل طلب ہے)
آڈیوکیسٹس :
مشہورزمانہ کنڑا فلم انڈسٹری کی کیسٹ کمپنی لہری کی جانب سے نشرکی گئی جامیؔ کی کیسٹس
۱)فضائل رمضان
۲)پہلاوہ گھرخداکا
۳)ایمان کامل (اول)
۴)ایمان کامل(دوم)
۵)حسن عقیدت
۶)حسین ابن علی
اس کے علاوہ بھی ہیں،
اس مختصرتعارف کے بعد جامیؔ کی نعتیہ شاعری پرنظرڈالتے ہیں:
جامی کی نعت گوئی میں خود سپردگی اور جاں فگاری ہے جس کی بدولت ان کا رنگِ نعت حسنِ تغزل کے ستارے بکھیرتا نظر آتا ہے۔ یہ الفاظ کے سنگ ریزوں کو مہر و ماہ کی چمک عطا کرتے ہوئے اپنے محبوب کے حسنِ ظاہر و باطن کی جلوہ گری سے نعت کو غزلیت عطا کرتے ہیں۔ خوب صورت غزل کو بہترین نعتوں کے گل و لالہ کو شعورِ حیات بخشتا ہے۔ ان الفاظ کا رچائو، مصرعوں کی صد رنگی اور احساسات کے حسنِ عقیدت اور عشق کی جلوہ گری حسنِ تغزل کو جنم دیتی ہے۔جامی کے نغز و آہنگ کی آمیزش ان کی نعت گوئی کو دوامی چمک عطا کرتی ہے۔
کرناٹک میں نعتیہ شاعری میں ڈاکٹرغلام ربانی فدا لکھتےہیں:
نعت گوئی ایک نازک صنف سخن ہے۔ یہ فن شاعری کی پل صراط ہے۔ خدا اور بندے کا فرق اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ یہاں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اردو کے بعض شعرا اس پل صراط سے سلامتی کے ساتھ نہیں گذرسکے لیکن جناب اظہار اشرف صاحب نے ایسے موقع پر بہت ہی احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت کرتے ہوئے اس فن کا بہت ہی مہارت سے استعمال کیاہے۔آپ الوہیت اور عبدیت کے فرق کو بخوبی سمجھتے اورجانتے ہیں اور رسالت مآب کی عظمت و جلات کا بھرپور شعور بھی رکھتے ہیں۔اس لئے آپ کی نعتوں میں کہیں کوئی بے راہ روی نہیں پائی جاتی۔ آپ نے نعت گوئی کو ایک منفرد لب ولہجہ دیا ہے۔ وہ اشعار بھی جس میں براہِ راست نعتیہ مضامین نہیںآئے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات و صفات کی تجلی سے منور نظرآتے ہیں۔سادہ بیانی اور لب ولہجہ کی انفرادیت اس پر مستضاد ہیں
جامیؔ نعت گوئی میں کوئی بناوٹ و تصنع نہیں ہے ۔ لب و لہجہ بالکل صاف ستہرا، آسان اور عام فہم ہے۔الفاظ و جملوں کی ترکیب سے خلوص و محبت ٹپکتی ہے نمونہ دیکھئے:
جمالِ دیدۂ بینا کا انتخاب ہیں آپ
خدا حجاب ہے آئینۂ حجاب ہیں آپ
مہ و نجوم کہاں اپنے آپ روشن ہیں
جو انبیا کاہے مرکز وہ آفتاب ہیں آپ
جامی کے کلام میں صد رنگی ہے۔ آپ کے بقول نبی اکرمﷺ کا خلقِ بے کراں، آپ کی رحمت جاوداں ہے آپ کے نطق پہ ’’وما ینطق عن الھویo ان ھو حی‘‘ کی جلوہ کاری، آپ کے عفوِ عام پہ حسنِ دوام کی غم گستری، پتھر کھا کر بھی رحمت کی دعا دینا، دشمنانِ دین کو جادۂ حق پر گامزن کرکے خلدِ نعیم کا مژدہ سنا دینا، وہ جن کے آنے سے زمانے کو جگمگاہٹ ملی، جن کے لطف و کرم سے اسلام کو سطوت ملی، جنھوںنے غریبوں کو شاد کامی بخشی۔ رنج و آلام کے ماروں کو پُرکیف زندگی کی نکہت بخشی۔ جنھوںنے عرب کے بدوئوں کو قیصر و کسریٰ کے مقدر کا مالک بنایا۔ جنھوںنے پژمردہ حیاتِ ارضی کو سکوں بخش زندگی کا قرینہ سکھایا۔ کرم ہی کرم، عطا ہی عطا، بخشش ہی بخشش، غرض ذاتِ تنہا اور کونین کی وسعتیں سینہ پُرنور میں لیے ہوئے:
نیا سراغ نئی جہت زندگی کو ملی
شعورِ ذات میں درپردہ انقلاب ہیں آپ
نگاہ شوق کہ رہتی ہے آپ پر مرکوز
زوال چھو نہ سکا جس کو وہ شباب ہیں آپ
نہ رکھی آپ نے کوئی بات بھی پوشیدہ
کہ پڑھ کے دیکھ لو جامیؔ کھلی کتاب ہیں آپ
جب ہم جامیؔ صاحب کا نعتیہ کلام دیکھتے ہیں تویہ احساس ہوتا ہے کہ آپ کو رسالت مآب ﷺ سے قلبی لگاؤ ہے، آپ کو شہر مدینہ سے اس طرح محبت و عقیدت ہے کہ اس کا اثر آپ کے اشعار میں بجا طور پر نمایاں ہے ایک نعت کے کچھ اشعار دیکھیں:
صحرا میں سنکتی ہیں گلستاں کی ہوائیں
ہے ابر کرم سایۂ دامانِ محمد
خوشبوؤں کی روشنی سے روح کا پیکر دھلے
پرتو انوارِ جنت کوچۂ سرکار ہے
ُجامی کی شاعری میں تنوع ہے۔ندرت ہے بانکپن ہے۔ عشق کے گل بوٹے ہیں فکر کی توانائی ہیں۔جامیؔ کاخیال اورعقیدہ ہے نظر ودل کی پاکیزگی کے لئے جمالِ مصطفٰی ﷺ کی ضرورت ہے۔ اور کہتے ہیں کہ میری نظر پاکیزہ ہو گئی ہے کیوں کہ تصور میں جمالِ مصطفیﷺ ہے۔ جو بازارِ مصطفیٰ ﷺ میں بک جائے اسے دنیا کی ضرورت ہی کیاہے:
نظر ہو جائے گی پاکیزہ جامیؔ
تصور میں جمالِ مصطفیٰ ہے
ایک نعت گو کے لیے سب سے بڑی تمنا محشر کی تمازتوں میں شفاعتِ حضورﷺ ہے۔ اس کیفیت سےجامی بھی سرشار ہیں کہ قبر کی تاریکیوں سے لے کر محشر تک اگر کوئی سہارا میسر آسکتا ہے تو وہ شفاعتِ حضورﷺ ہے۔ حضور مہربان ہیں تو خدائے قدوس مہربان ہے۔ حضورﷺ تو تمام اُمت کے لیے مایۂ رحمت و شفاعت ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جس طرف نظر اُٹھ گئی ہر طرف الطاف و کرم کا سحابِ نور چھانے لگے گا۔ خدا نے اپنے محبوب سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ’’آپ کو اتنا دوںگا کہ آپ راضی ہوجائیںگے‘‘ قیامت کے ہنگام میں یہی وعدہ پورا ہوگا اور محبوبِ خدا سے جو کچھ کہا گیا ہے آج اس کے ایفا کی گھڑی ہے۔ حضورﷺ سجدۂ رحمت نوازی میں سر رکھے ہوںگے۔ لبوں سے اُمتِ عاصی کے لیے دعائیں نکل رہی ہوںگی، آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں گر رہی ہوںگی اور یہی شفاعت طلبی بخشش و عطائے بے کراں کی ساعتوں میں ڈھل جائے گی اور حضورﷺ کو اُمتِ عاصی کی بخشش کا مژدہ یوں سنائی دے گا کہ بے چارگان ہستی خلد کے تصور سے مسکرا مسکرا اُٹھیںگے۔جامی نے حضورﷺ کو عطا ہونے والے اسی اذنِ شفاعت کو سینے میں بسا رکھا ہے۔ آپ خود پر برسنے والے بارانِ رحمت کا یوں تذکرہ کرتے ہیں:
آپ آئے تو ہوا پھر سامانِ زندگی کا
تپتی ہوئی زمیں سے چشمہ ابل پڑا ہو
صد مرحبا کہ روئے روشن کا یہ تصور
اک چاند جیسے میری آنکھوں سے کھیلتاہو
نعت گوئی میں نہ صرف زبان دیکھی جاتی ہے اور نہ بیان پر نظر جاتی ہے، نہ فنی نکات تلاش کئے جاتے ہیں ۔ اس کی روح صرف اخلاص اور محبت رسول ہے۔ اگر بات دل سے نکلی ہے تو دلوں پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور بارگاہِ رسالت مآب میں وہ نذرانہ عقیدت اور محبت قبول ہوجائے تو اشعار کو حیات جاویدانی نصیب ہوجاتی ہے۔ جیسے فارسی میں سعدی شیرازیؒ، عبدالرحمان جامیؒ، محمد جان قدسیؒ وغیرہ کی بعض نعتیں اس کی شہادت دے رہی ہیں ۔
آرزوئے احمد میں چین ہی ملا جامیؔ
زندگی کے چہرے کا حسن بھی نکھر آیا
ہرایک لفظ نور کے سانچے میں ڈھل گیا
جامیؔ بیاں جو تم نے کی مدحت رسول کی
ہوائے دامنِ احمد چلی کہ دنیا میں
کتابِ زیست کا اک خوشگوار باب کھلا
نعت گوئی کا منصب جلیلہ جس نے بھی پایا، اس نے بڑی سعادت پائی، لیکن نعت گوئی کے منصب کو جس نے ہوش مندی سے نباہا اُس نے نعت گوئی کے مقصد کی طرف پیش قدمی کی اور میں بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ محمد اکرم رضا نے نعت گوئی کے مقصد کی طرف نہ صرف پیش قدمی کی ہے بلکہ نعت گوئی کے معیارات قائم کرنے کی طرف توجہ مبذول کروا کے بعد کے نعت گو شعرا کے لیے جادۂ رہنمائی بھی بنا دیا ہے
0 Comments: