Showing posts with label naatiya adab. Show all posts
Showing posts with label naatiya adab. Show all posts
مبین منور۔۔۔۔جہان نعت کاباسی

مبین منور۔۔۔۔جہان نعت کاباسی

مبین منور۔۔۔۔جہان نعت کاباسی\

غلام ربانی فداؔ
gulamrabbanifida@gmail.com
مبین اردو کے فعال اور متحرک شخصیت ہیں۔موجودہ کرناٹک اردواکادمی کے صدرنشین ہیں۔ اردوادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ان کی خدمات میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ممکن ہے کہ ذاتی طورپرمجھے اپنے تحفظات کے تئیں مبین منورسے اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان کی ادبی ونعتیہ خدمات اپنے اندرایک جہان سموئے ہوئے ہیں۔
مبین منور کی پیدائش ضلع ٹمکور میں 22مئی 1948کوہوئی۔تعلیم ایس ایس ایل تک حاصل کی ہیں۔آپ بنگلور ہی میں مستقل قیام پذیرہیں۔ آپ گوناگوں شخصیت اور خوبصورت ترنم کے مالک ہیں۔آپ اسد ؔاعجازسے شرف تلمذ رکھتے ہیں۔آپ نے پہلی نعت 1970میں کہی۔ جس کے اشعاریہ تھے۔
مجھے کونین سے نسبت نہ یارا  یارسول اللہ
میرے سب کچھ ہو تم میں ہوں تمہارا یارسول اللہ
ہے میرا ایک عرصہ سے ارادہ  یا رسول اللہ
کہ دیکھوں روضۂ انور تمہارا یارسول اللہ
بنگلور کاشایدوباید ہی کوئی مشاعرہ ہو جس میں منورصاحب کی نعت خوانی نہ ہوتی ہو آپ جہاں شاعر وادیب ہیں وہیں ۔ایک بے باک سیاسی لیڈربھی ہیں۔اعزازت وانعامات کی ایک لمبی فہرست ہے،۔آپ کے تصانیف
۱)اذکارمبین
۲)متاعِ مبین
۳)رازمبین
 مبین منورؔ نعت کے حوالے سے خاصے اچھے اشعار لکھے ہیں۔ جن میں حضور کی ذاتِ پاک سے عقیدت و و ابستگی اور اُن کے پیغام سے تعلق کا اظہار سلیقے سے ہوا ہے۔ ، یہ شعردیکھیے                  ؎
ایوب کے جو گھر پہ سواری اتر گئی
سارے مدینے والوں کی قسمت سنور گئی
مظہر ذاتِ خدا ہے ہستیٔ خیرالبشر
سرورکونین سے ہے کون بڑھ کر معتبر
اس سے بڑھ کر کیا ملے گا پھر رفاقت کا صلہ
بازوئے سرکار ہیں صدیق اکبر  وعمر
کتابِ زیست کا روشن ترین باب ہیں آپ
تمام نبیوں میں سچ ہے کہ لاجواب ہیں آپ
ظہور نور ہر ایک شئے میں آپ ہی کاہے
مٹی  ہیں ظلمتیں جس سے وہ آفتاب ہیں آپ
یہی دیکھتا ہوں جدھر دیکھتا ہوں
کرم ہائے خیرالبشر دیکھتا ہوں
مداح ہوں جنابِ رسالت مآب کا
پھر کیسے خوف ہو مجھے روز حساب کا
مبین منور کا نعتیہ چمن ایسا ہے جو اپنے اندر مدحتِ رسول کے خوش رنگ پھولوں سے مزین کیاریاں رکھتا ہے۔گلہائے خوش رنگ رنگ میں کس کاانتخاب کروں ؟ 
مبین منور نے حضور حبیب پاک ﷺ کے اوصاف اوران کے عشق کی بے چینی کوپانے اشعارمیں ڈھالاہے۔یہ اشعاردیکھئے:
جب بھی زبان پہ نام محمد آگیا
گونجی فضائیں ساری درود وسلام سے
ایک بار مجھ کو آقا مدینے بلایئے
ہوگانہ کوئی مدعا اس التجا کے بعد
تخلیق کائنات کا مقصد ہے جس کا نام
بعد از خدا مقدس و امجد ہے جس کا نام
ہیں جتنے نام ان میں مجدد ہے جس کا نام
محمود ، حامد اور محمد ﷺ ہے جس کانام
جب کسی کو یادِ محبوبِ خدا آنے لگی
ٹھنڈی ٹھنڈی پھر مدینے کی ہوا آنے لگی
لے کے  کیا صورت جاؤں میں آپ کے دربار میں
کارواں بڑھنے لگا شرم وحیا آنے لگی
مدینہ شہرِ آرزوئے عاشقانِ رسول ہے، یہیں پر انھیں جلوۂ رسول میں آپ کے لطف عمیم سے معرفت کے بحر تجلیٔ ناپیدا کنار سے کنارہ حاصل ہوتا ہے۔ یہیں پر پیارے رسولﷺ کی محبت کے صلہ میں عرفانِ الٰہی کے دریچے کھلتے ہیں۔ دیدار و حضوریِ روضۂ اقدس عام مسلمانوں کی بھی معراج ہے۔یہیں پر انھیں نبی سے قریب ہونے کا احساسِ جمیل ہوتا ہے کہ مسجدِ نبوی میں آپ کے شب و روز گزرتے تھے اور اس کا ایک ایک چپہ دیدارِ نبی کا گواہ ہے اور ان چپوں کی بوسہ کنانی ہر اُمتی کی معراج ہے۔ اس لیے مدینہ منورہ کی تابانی، اس کے چپے چپے کی جلوہ سامانی، روضۂ اقدس پر صلوٰۃ و سلام کے وردِ والہانہ پر نعت گو شعرا نے اپنی عقیدت کے خوب خوب نگینے تراشے ہیں۔ منور نے بھی مدینہ کی شان میں آب دار نگینوں کی لڑیاں تخلیق کی ہیں۔ ملاحظہ ہو ایسی ایک نعت کے چند اشعار:
کس درجہ ہوگئی ہے معطر یہ انجمن
طیبہ سے ہو کے آیا یہ جھونکا ہوا کاہے
ہے مدینہ شہر سب سے جدا سب سے الگ
سبزگنبد کا ہے منظر باخدا سب سے الگ
ہو گیا معلوم آتے ہی دیارِ مصطفیٰ 
جنت الفردوس کا رستہ ملا سب سے الگ
نور کی برسات آٹھوں پہر برسے ہے جہاں
مسجدِ نبوی  کا ہر ذرہ لگا سب سے الگ
سرکارِ دوعالم کے روضہ کا وہ عالم ہے
رحمت کو وہاں ہر دم اک جوش میں پایا ہوں 

شہرنعت کاایک باشندہ

شہرنعت کاایک باشندہ

شہرنعت کاایک باشندہ
منیراحمدجامیؔ

غلام ربانی فدا



منیراحمدجامی ایک زیرک صحافی کی حیثیت سے مقبول ہیں۔ انھوںنے اپنے عہد کے نامور تخلیق کاروں سے گفتگو کرکے اپنے عہد کے سیاسی، سماجی، مذہبی، شعری اور تہذیبی رویوں کو محفوظ کرنے کی ہر سعی کی اواردو اب کو اپنی تخلیقی وانفرادی فکر سے ’’اختراع اور ارتفاع‘‘ جیسی کتابیں صاحبانِ علم و ادب کی خدمت میں پیش کیں۔ 
جامی کا اسلوب ان کی شخصیت کا غماز ہے۔ سادگی، سلاست اور اخلاص ان کے پُرتاثیر اسلوب کا منظرنامہ مرتب کرتے ہیں۔ طویل و مختصر ہر مزاج کی بحر میں ان کی طبیعت اپنے صناعانہ جوہر دکھاتی ہے۔ وہ لکھنوی شعرا کی طرف صنائع بدائع کی نزاکتوں سے تو کماحقہ آگاہ نہیں ہیں تاہم انھوںنے علم بیان و بدیع کے معروف اراکین سے خوب خوب کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نقوی صاحب نے آیات و احادیث سے بھی کماحقہ استفادہ کیا ہے۔ آپ ان کی نعتوں کی درج ذیل تراکیب و مرکبات ملاحظہ فرمایئے اور دیکھیے کہ عمران نقوی نے کس طرح فنی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی نعتوں میں اپنے تخلیقی جوہر نمایاں کیے ہیں خاکِ پا، سرِ مژگاں، دل مضطر، قصدِ سخن، جبلِ نور، شہرِ انوار، اشک ندامت، سُوئے مدینہ، گنبدِ خضرا، گل جاں، قریۂ سنگ، مدحتِ سرورِ عالم، اہلِ بقا، سرِ کوہِ صفا، رنگِ فنا، دیارِ جاں، رہینِ احساں، طاقِ افلاک، سرِ عرش بریں، جوارِ مکہ، حرفِ التجا، حرفِ تسلی، نقشۂ صحرا، ارض پاک، خیالِ خواجۂ بطحا، کشتِ تمنا، رنگ و بو، نگاہِ فیض، جمالِ شہرِنبی، کعبۂ دل، لوحِ زماں و مکاں، نگارخانۂ قصرِ شہاں، بہارِ عشقِ نبی، حلقۂ چارہ گراں، شاخِ خزاں، درِ قبول، آلِ عبا، عمرِ جاوداں، گلِ مراد، طلوعِ حسنِ بصیرت، فراتِ عصر، صبحِ اُمید، نقشِ سادہ، سالارِ کارواں، محبوبِ سبحانی، آیاتِ قرآنی، جمالِ طیبہ، راحتِ سائبان، درِ غارِ حرا، لوح، ادراک، فکر و نظر، ظلمتِ شب، ماہ تابِ مبیں، حسرتِ مدحتِ شہِ بطحا، گوشۂ چشمِ تر، قریۂ نور، کتابِ مبیں، سایۂ سیّدالابرار، عہدِ مواخات، لوحِ تاریخ، سحابِ مبیں، عرصۂ ہجر، شہرِ انوار، صبحِ مدحت، مدحِ شہِ والا، انبوہِ یاس، کشتِ سخن، صدق و صفا، ربّ دوعالم، نخلِ جاں، شاخِ ثنا، ساعتِ مہرباں، شہرِ انوار، نسیمِ طیبہ، کارِ فضول، آہنگ ثنا، رشکِ کہکشاں، صفحۂ دل، شہرِ رحمت، دلِ زار، اُسوۂ کامل، حسرتِ طیبہ، ورق زیست، ساعتِ فجر، اسیرِ نسیمِ طیبہ، عفو و  رحمت، خواہشِ خلد، بریں، کارزارِ حیات، ریاضِ جنہ، فردوسِ سخن، موجِ کرم، صورتِ التماس، صفحۂ جاں، خلدِ نظر، داغِ عصیاں، مشعلِ عشقِ نبی، لطفِ حضوری، ہجومِ صحنِ حرم۔
جناب جامی صاحب کے حوالے سے ڈاکٹر غلام ربانی فدا رقمطراز ہیں:
جناب منیراحمدجامی کرناٹک کی ان ادبی شخصیات میں سے ہیں جنہیں کرناٹک ادبی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ منیراحمد تخلص جامیؔ رکھتے ہیں۔جامی ؔ کی پیدائش۵۔مئی ۱۹۵۴ کو جناب ایم عبدالرحمٰن  کے پیداہوئے۔ والدمرحوم ایم عبدالرحمٰن نے جامی کی پیدائش دینی ومذہبی ماحول میں کی۔ یہی وجہ ہے کہ جامیؔ میں تصوف کا گہرا رنگ پایاجاتا ہے ۔ جامی کی زندگی نشیب وفراز سے ہمیشہ گزرتی رہی ۔ جامیؔ نے زندگی کوبہت قریب سے دیکھاہے اور زندگی کے کئی رنگ دیکھے ہیں ۔جن میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ غموں کوبھی بہت قریب سے دیکھاہے مگر صوفیانہ صفت نے جامیؔ کو کبھی بھی ان غموں سے اداس اور مایوس نہیں کیا۔ دوستوں کی چالاکیاں اورحاسدین کے حسد نے انہیں مزیدترقیاں عطاکی ہیں۔اگر ایک جملے میں جامیؔ کوکہا جائے تو یہ وہ ہوگا ’’ فارسی کے جامیؔ کے ثانی ہمارے منیراحمدجامیؔ ہیں۔ شہرت و خودنمائی سے دور سادگی مزاج وسادگی پسند ۔ یہی کیفیت وخصوصیت انہیں معاصرین میں ممتازکرتی ہے، خیرجامیؔ سے میراربط گہرا ہے۔ منیراحمدجامیؔ کی تمام خدمات کواحاطہ کرنے کے لئے مختصرسطریںکافی نہیں ہیں۔ انشاء اللہ کبھی جامیؔ مکمل ’’فن اورشخصیت‘‘ کے ساتھ آپ سے تعارف کرواتاہوں۔ منیراحمدجامیؔ نے پی یو سی کی تکمیل کے بعد آل انڈیا ریڈیو بنگلور میں تقریباً 1973؁ء میں بحیثیت ناظم خدمات کاآغاز کیا۔ہنوز برقرار ہے۔ 1978میںحکومت سے ملنے کے بعد آپ نے ہورائیزن پرنٹنگ پریس کا آغاز کیا۔ ان کا پریس گورنمنٹ سے اپرول  بھی کروایا۔ اردو کا یہ مجذوب منیراحمدجامیؔ بے شمار کتابوں کی چھپائی کی اور ان کے حوالے سے یہ مشہوررہاکہ ’’اگراردواکاڈمی سے انعام پاناہوتوجامیؔ کے پریس سے کتاب چھپاؤ‘‘ اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جامی ؔ کس دیانتداری اورایمانداری سے یہ کام کرتے تھے۔ اکثرلوگوں کی کتابیں شائع کرنےکے بعد اپناحقِ محنت بھی لینا نہیں چاہا۔اس طرح خسارہ کے ساتھ اس پریس کوبندکرناپڑا۔ 1983؁ء میں جب دوردرشن بنگلورکا قیام عمل میں آیا تو جامیؔ دوردرشن کے چندن چینل میں بحیثیت انٹرویور کے خدمات کاآغاز کیے اور سنکیڑوں لوگوں کے انٹرویو لیے اور لاتعداد ڈرامہ لکھے اور دوردرشن سے نشربھی ہوئے۔ اور آج تک کتنوں پوشیدہ شاعروں کو ٹی وی اسکرین پر پیش کرچکے ہیں اورکریں گے انشاء اللہ۔
تصنیفات:٭ سوانح حضرت سید فخرالدین،٭ سوانح حضرت خواجہ بندہ نواز٭  سوانح ٹیپوسلطان،٭ سوانح حضرت توکل مستان٭  اردوکے اصناف سخن٭ اجالوں کاسفیر٭  الجامعہ ( تاریخ جمعہ مسجدبنگلور)٭ قصیدہ بردہ شریف کامنظوم ترجمہ٭  اختراع٭ حرف ناتمام ٭  نقش لاثانی٭ باران رحمت(کتابچہ سیریز پانچ حصے)٭  ارتفاع٭ اختراع٭ اجتماع٭ تذکرۃ الصالحین  ۔حال ہی میں وجہ کل نامی ایک نعتیہ سی ڈی ان کی ہی آواز میں جاری کی گئی ہے۔
روزنامہ سیاست بنگلور کے ادبی ایڈیشن کے مدیر اور ماہنامہ طرزتحریر بنگلورکے مدیراعلیٰ ہیں،
ایوارڈ واعزازات:
جشن جامیؔ (۲۰۱۴)
گورنرایوارڈ (۲۰۱۳)
’’اختراع ‘‘اردومنچ کی جانب سے ایوارڈ اور۲۵۰۰۰نقد
کرناٹک اردواکادمی کی جانب سے تین مجموعہائے کو اولین انعام
(یہ فہرست بہت طویل ہے۔ اورتفصیل طلب ہے)
آڈیوکیسٹس :
مشہورزمانہ کنڑا فلم انڈسٹری کی کیسٹ کمپنی لہری کی جانب سے نشرکی گئی جامیؔ کی کیسٹس
۱)فضائل رمضان
۲)پہلاوہ گھرخداکا
۳)ایمان کامل (اول)
۴)ایمان کامل(دوم)
۵)حسن عقیدت
۶)حسین ابن علی
اس کے علاوہ بھی ہیں، 
اس مختصرتعارف کے بعد جامیؔ کی نعتیہ شاعری پرنظرڈالتے ہیں:
جامی کی نعت گوئی میں خود سپردگی اور جاں فگاری ہے جس کی بدولت ان کا رنگِ نعت حسنِ تغزل کے ستارے بکھیرتا نظر آتا ہے۔ یہ الفاظ کے سنگ ریزوں کو مہر و ماہ کی چمک عطا کرتے ہوئے اپنے محبوب کے حسنِ ظاہر و باطن کی جلوہ گری سے نعت کو غزلیت عطا کرتے ہیں۔ خوب صورت غزل کو بہترین نعتوں کے گل و لالہ کو شعورِ حیات بخشتا ہے۔ ان الفاظ کا رچائو، مصرعوں کی صد رنگی اور احساسات کے حسنِ عقیدت اور عشق کی جلوہ گری حسنِ تغزل کو جنم دیتی ہے۔جامی کے نغز و آہنگ کی آمیزش ان کی نعت گوئی کو دوامی چمک عطا کرتی ہے۔
کرناٹک میں نعتیہ شاعری میں ڈاکٹرغلام ربانی فدا لکھتےہیں:
نعت گوئی ایک نازک صنف سخن ہے۔ یہ فن شاعری کی پل صراط ہے۔ خدا اور بندے کا فرق اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ یہاں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اردو کے بعض شعرا اس پل صراط سے سلامتی کے ساتھ نہیں گذرسکے لیکن جناب اظہار اشرف صاحب نے ایسے موقع پر بہت ہی احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت کرتے ہوئے اس فن کا بہت ہی مہارت سے استعمال کیاہے۔آپ الوہیت اور عبدیت کے فرق کو بخوبی سمجھتے اورجانتے ہیں اور رسالت مآب کی  عظمت و جلات کا بھرپور شعور بھی رکھتے ہیں۔اس لئے آپ کی نعتوں میں کہیں کوئی بے راہ روی نہیں پائی جاتی۔ آپ نے نعت گوئی کو ایک منفرد لب ولہجہ دیا ہے۔ وہ اشعار بھی جس میں براہِ راست نعتیہ مضامین نہیںآئے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات و صفات کی تجلی سے منور نظرآتے ہیں۔سادہ بیانی اور لب ولہجہ کی انفرادیت اس پر مستضاد ہیں
جامیؔ نعت گوئی میں کوئی بناوٹ و تصنع نہیں ہے ۔ لب و لہجہ بالکل صاف ستہرا، آسان اور عام فہم ہے۔الفاظ و جملوں کی ترکیب سے خلوص و محبت ٹپکتی ہے نمونہ دیکھئے:
جمالِ دیدۂ بینا کا انتخاب ہیں آپ
خدا حجاب ہے آئینۂ حجاب ہیں آپ
مہ و نجوم کہاں اپنے آپ روشن ہیں
جو انبیا کاہے مرکز  وہ آفتاب ہیں آپ
جامی کے کلام میں صد رنگی ہے۔ آپ کے بقول نبی اکرمﷺ کا خلقِ بے کراں، آپ کی رحمت جاوداں ہے آپ کے نطق پہ ’’وما ینطق عن الھویo ان ھو حی‘‘ کی جلوہ کاری، آپ کے عفوِ عام پہ حسنِ دوام کی غم گستری، پتھر کھا کر بھی رحمت کی دعا دینا، دشمنانِ دین کو جادۂ حق پر گامزن کرکے خلدِ نعیم کا مژدہ سنا دینا، وہ جن کے آنے سے زمانے کو جگمگاہٹ ملی، جن کے لطف و کرم سے اسلام کو سطوت ملی، جنھوںنے غریبوں کو شاد کامی بخشی۔ رنج و آلام کے ماروں کو پُرکیف زندگی کی نکہت بخشی۔ جنھوںنے عرب کے بدوئوں کو قیصر و کسریٰ کے مقدر کا مالک بنایا۔ جنھوںنے پژمردہ حیاتِ ارضی کو سکوں بخش زندگی کا قرینہ سکھایا۔ کرم ہی کرم، عطا ہی عطا، بخشش ہی بخشش، غرض ذاتِ تنہا اور کونین کی وسعتیں سینہ پُرنور میں لیے ہوئے:
نیا سراغ نئی جہت زندگی کو ملی
شعورِ ذات میں درپردہ انقلاب ہیں آپ
نگاہ شوق کہ رہتی ہے آپ پر مرکوز
زوال چھو نہ سکا جس کو وہ شباب ہیں آپ
نہ رکھی آپ نے کوئی بات بھی پوشیدہ
کہ پڑھ کے دیکھ لو جامیؔ کھلی کتاب ہیں آپ
جب ہم جامیؔ صاحب کا نعتیہ کلام دیکھتے ہیں تویہ احساس ہوتا ہے کہ آپ کو رسالت مآب  ﷺ سے قلبی لگاؤ ہے، آپ کو شہر مدینہ سے اس طرح محبت و عقیدت ہے کہ اس کا اثر آپ کے اشعار میں بجا طور پر نمایاں ہے ایک نعت کے کچھ اشعار دیکھیں:
صحرا میں سنکتی ہیں گلستاں کی ہوائیں
ہے ابر کرم سایۂ دامانِ محمد
خوشبوؤں کی روشنی سے روح کا پیکر دھلے
پرتو انوارِ جنت کوچۂ  سرکار ہے
ُجامی کی  شاعری میں تنوع ہے۔ندرت ہے بانکپن ہے۔ عشق کے گل بوٹے ہیں فکر کی توانائی ہیں۔جامیؔ کاخیال  اورعقیدہ ہے نظر ودل کی پاکیزگی کے لئے جمالِ مصطفٰی ﷺ کی ضرورت ہے۔ اور کہتے ہیں کہ میری نظر پاکیزہ ہو گئی ہے کیوں کہ تصور میں جمالِ مصطفیﷺ ہے۔ جو بازارِ مصطفیٰ ﷺ میں بک جائے اسے دنیا کی ضرورت ہی کیاہے:
نظر ہو جائے گی پاکیزہ جامیؔ
تصور میں جمالِ مصطفیٰ ہے
ایک نعت گو کے لیے سب سے بڑی تمنا محشر کی تمازتوں میں شفاعتِ حضورﷺ ہے۔ اس کیفیت سےجامی بھی سرشار ہیں کہ قبر کی تاریکیوں سے لے کر محشر تک اگر کوئی سہارا میسر آسکتا ہے تو وہ شفاعتِ حضورﷺ ہے۔ حضور مہربان ہیں تو خدائے قدوس مہربان ہے۔ حضورﷺ تو تمام اُمت کے لیے مایۂ رحمت و شفاعت ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جس طرف نظر اُٹھ گئی ہر طرف الطاف و کرم کا سحابِ نور چھانے لگے گا۔ خدا نے اپنے محبوب سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ’’آپ کو اتنا دوںگا کہ آپ راضی ہوجائیںگے‘‘ قیامت کے ہنگام میں یہی وعدہ پورا ہوگا اور محبوبِ خدا سے جو کچھ کہا گیا ہے آج اس کے ایفا کی گھڑی ہے۔ حضورﷺ سجدۂ رحمت نوازی میں سر رکھے ہوںگے۔ لبوں سے اُمتِ عاصی کے لیے دعائیں نکل رہی ہوںگی، آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں گر رہی ہوںگی اور یہی شفاعت طلبی بخشش و عطائے بے کراں کی ساعتوں میں ڈھل جائے گی اور حضورﷺ کو اُمتِ عاصی کی  بخشش کا مژدہ یوں سنائی دے گا کہ بے چارگان ہستی خلد کے تصور سے مسکرا مسکرا اُٹھیںگے۔جامی نے حضورﷺ کو عطا ہونے والے اسی اذنِ شفاعت کو سینے میں بسا رکھا ہے۔ آپ خود پر برسنے والے بارانِ رحمت کا یوں تذکرہ کرتے ہیں:
آپ آئے تو ہوا پھر سامانِ زندگی  کا
تپتی ہوئی زمیں سے چشمہ ابل پڑا ہو
صد مرحبا کہ روئے روشن کا یہ تصور
اک چاند جیسے میری آنکھوں سے کھیلتاہو
   نعت گوئی میں نہ صرف زبان دیکھی جاتی ہے اور نہ بیان پر نظر جاتی ہے، نہ فنی نکات تلاش کئے جاتے ہیں ۔ اس کی روح صرف اخلاص اور محبت رسول ہے۔ اگر بات دل سے نکلی ہے تو دلوں پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور بارگاہِ رسالت مآب میں وہ نذرانہ عقیدت اور محبت قبول ہوجائے تو اشعار کو حیات جاویدانی نصیب ہوجاتی ہے۔ جیسے فارسی میں سعدی شیرازیؒ، عبدالرحمان جامیؒ، محمد جان قدسیؒ وغیرہ کی بعض نعتیں اس کی شہادت دے رہی ہیں ۔
آرزوئے احمد میں چین ہی ملا جامیؔ
زندگی کے چہرے کا حسن بھی نکھر آیا
ہرایک لفظ نور کے سانچے میں ڈھل گیا
جامیؔ بیاں جو تم نے کی مدحت رسول کی
ہوائے دامنِ احمد چلی کہ دنیا میں
کتابِ زیست کا اک خوشگوار باب کھلا
نعت گوئی کا منصب جلیلہ جس نے بھی پایا، اس نے بڑی سعادت پائی، لیکن نعت گوئی کے منصب کو جس نے ہوش مندی سے نباہا اُس نے نعت گوئی کے مقصد کی طرف پیش قدمی کی اور میں بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ محمد اکرم رضا نے نعت گوئی کے مقصد کی طرف نہ صرف پیش قدمی کی ہے بلکہ نعت گوئی کے معیارات قائم کرنے کی طرف توجہ مبذول کروا کے بعد کے نعت گو شعرا کے لیے جادۂ رہنمائی بھی بنا دیا ہے




کرناٹک میں نعتیہ شاعری

کرناٹک میں نعتیہ شاعری

کرناٹک میں نعتیہ شاعری

ڈاکٹرغلام ربانی فداؔ




ہانگل
gulamrabbanifida@gmail.com
نعتیہ شاعری کی خوشبو ئیں روزبروزکائنات کومعطرکررہی ہیں ۔نعت کی روشنیاںعاشقان رسول ﷺ کو نویدسحر سے سرفراز کر رہی ہیں اورنعت خوانی فن قرات کی طرح مقبول ہوتی جارہی ہے۔ مرد شاعر ہوں کہ خواتین شاعرات سبھی اس میدان میں اپنے جوہر اورحضور ﷺ سے محبت کا پرخلوص اظہار (کرچکے اور) کررہے ہیں ۔ ریاست کرناٹک میں نعتیہ منظرنامے پر اپنی شناخت بنانے والے شعراء اور شاعرات میں چند نام یہ ہیں ۔ صابرشاہ آبادی، رزاق اثرشاہ آبادی ، ڈاکٹر وحیدانجمؔ، ظہیررانی بنوریؔ، حافظ کرناٹکیؔؔ ، ڈاکٹرصغریٰ عالم، راج پریمیؔ ، کامل کلادگی ، غلام ربانی فداؔ، سلام نجمیؔ،سلیمان خمارؔ، ریاض احمدخمارؔ، منیراحمدجامیؔ، جیلانی شاہدؔ، وغیرہ وغیرہ ۔ 
جب بات موضوعات اور طرزِ اظہار کی ہوگی تو کرناٹک کے نعت گوشعرا اس میدان میں کیفیت اور کمیت ہردواعتبار سے پیچھے ہیں ۔ کرناٹک کے اکثر صاحب مجموعہ نعت گوشعرا میں آداب نعت اور موضوعات کافقدان ہے۔ ہم شعرائے کرناٹک کے یہاںصرف اور صرف ایک موضوع مدینہ سے دوری ومہجوری کثرت سے نظرآتاہے۔ سیرتِ نبویﷺ کے دیگر پہلو پیش کرنے اور اس کے لئے الفاظ کے چناؤ میں ہم پیچھے ہیں۔واضح رہے کہ رسولِ کریم ﷺکی بارگاہ میں عرض کرنے کے لئے ہمیں عمدہ عمدہ سے موضوع والفاظ کاانتخاب کرناچاہئے۔مگر ایک دہے سے بعض شعرا ئے نعت سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو قلمبند فرما رہے ہیں جن کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔نعت برائے نعت کہنے والوں کی تعداد ابھی بہت زیادہ ہے۔ نعت عبادت ہے مگر نعت کے تقاضوں اور مطالبوں کی تکمیل بھی ازحدضروری ہے۔
 کرناٹک میں غیرمسلم نعت گوشعرانے بھی اپناادبی حصہ نعتیہ ادب میں شامل کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے اور کامیاب ہوئےجن میں راج پریمی، کامل کلادگی، طلب راج سیٹھ وغیرہ نمایاں ہیں۔
کرناٹک کے نعتیہ منظرنامہ کوسمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل ایک فہرست ناچیزنے تحقیق کے بعد رقم کی ہے،
فہرست مجموعہائے نعت
شمار
نام کتاب
شاعر
سن اشاعت
1
یاایھالنبیﷺ
خان صاحب سلیمؔ
۱۹۵۷؁ء
2
خطاب تاب
کلام قمرؔ
۱۹۶۰
3
حرم کاتحفہ
فیاضؔ بلگوڈی
۱۹۷۱
4
رحمت تمام
صابرؔشاہ آبادی
۱۹۷۳
5
نورروظہور
اکمل ؔآلدوری
۱۹۷۹
6
نقش لاثانی
منیراحمدجامیؔ
۱۹۸۳ء
7
جذباتِ دل
ظہیرالدین بابرؔ
۱۹۸۱
8
گلزارِحرم
اظہارافسرؔ
۱۹۸۵ء
9
ضامن نجات
 صابرؔشاہ آبادی
۱۹۸۴
10
شیون احمدی
سرورؔمرزائی
۱۹۸۶
11
اعتراف
رزاق افسرؔ
۱۹۸۹
12
تہذیب منورہ
صابرؔشاہ آبادی
۱۹۹۰
13
صداقت کے پھول
ظہیرالدین بابرؔ
۱۹۹۰
14
گنجینۂ گوہر
باسط خاں صوفیؔ
۱۹۹۲
15
مصداق
ڈاکٹر راہیؔ فدائی
۱۹۹۳
16
جذبۂ اطہر
سلام نجمیؔ
۱۹۹۸
17
محراب دعا
صغریٰ ؔعالم
۱۹۹۹
18
ورفعنالک ذکرک
سیدخسروحسینی
۲۰۰۰
19
اوج سخن
کوثرؔجعفری
۲۰۰۰
20
صلواعلیہ وسلموا
جوہرؔصدیقی
۲۰۰۰
21
بیاض ثنا
رزااق ؔشاہ آبای
۲۰۰۲
22
ردائے رحمت
ایس ایم عقیلؔ 
۲۰۰۳
23
آبروئے سخن
اسداعجازؔ
۲۰۰۳
24
انواررحمت
نازؔرانی بنوری
۲۰۰۳
25
انوارِ مدینہ
تاجؔ نوردریا
۲۰۰۴
26
شمع ہدیٰ
حافظؔ کرناٹکی
۲۰۰۵
27
نورہدایت
بشیرؔبیجاپوری
۲۰۰۵
28
سرحدیقیں کی
ریاض احمد خمارؔ
۲۰۰۶
29
نغمۂ رحمت
 نازؔرانی بنوری
۲۰۰۶
30
تجلیات حرمین
تاجؔ نوردریا
۲۰۰۷
31
فردوس سخن
سیدشاہ قاسم القادری
۲۰۰۷
32
ازہارمدینہ
سیدمحمدمحی الدین قیسؔ
۲۰۰۸
33
نورِوحدت
حافظ ؔکرناٹکی
۲۰۰۸
34
باب جبرئیل
صغریٰؔ عالم
۲۰۰۹
35
مہبط انوار
ڈاکٹرراہی فدائیؔ
۲۰۰۹
36
انوارِحرم
تاج ؔنوردریا
۲۰۰۹
38
ابررحمت
ڈاکٹروحیدانجمؔ
۲۰۱۰
39
فانوسِ حرم
حافظ ؔکرناٹکی
۲۰۱۰
40
پہلی ضیا
صبیح ؔحیدر
۲۰۱۰
41
گلزارنعت
غلام ربانی فداؔ
۲۰۱۰
42
سنگ در
کلیم ؔرضانوری چشتی
۲۰۱۰
43
 یامصطفیٰﷺ
غلام ربانی فداؔ
۲۰۱۱
44
مہکِ ریاضِ رسولﷺ
ڈاکٹرریاض احمدریاضؔ
۲۰۱۱
45
صحرائے مدینہ
غلام ربانی فدؔا
۲۰۱۱
46
ورفعنالک ذکرک
جوہرؔصدیقی
۲۰۱۱
47
نشاط نو ر
عبدالستارخاطرؔ
۲۰۱۱
48
مراۃ
چنداؔحسینی
۲۰۱۲
49
گلشن مدینہ
غلام ربانی فدؔا
۲۰۱۲
50
بیابانِ مدینہ
غلام ربانی فداؔ
۲۰۱۲
51
جہاں محمدوہاں خداہے
جیلانی شاہدؔ
۲۰۱۳
52
تجلیات مدنی
سورج ؔکرناٹکی
۲۰۱۳
53
اذکارِمبین
مبین منورؔ
۲۰۱۳
54
یانبی یا نبی یانبی
غلام ربانی فداؔ
۲۰۱۴
55
انوارِمصطفیٰ
تاج ؔنوردریا
۲۰۱۴
56
ناعت  ومنعوت 
ڈاکٹرراہی فدائیؔ
۲۰۱۴
57
آبشاررحمت
سیدعبدالوہاب جامیؔ
۲۰۱۴
58
انواررحمت
جیلان بادشاہ جیلانؔ
۲۰۱۴
59
دروداصفیہ
حبیب اللہ ساغرؔ مظہری
۲۰۱۵
انتخابات
جلوۂ رحمت:( کوثری جعفری، ۲۰۰۲)
گلستان رحمت، ؛( عثمان شاہد،)
اکرام، 
  مدنی رنگ(امتیازاشرفی)    
نور (ضلع بیدرکے نعت گوشعرا) 
گلستاں 
نعت جہان(سیدہ نورفاطمہ2014)
(اس کے علاوہ بھی دیگرانتخابات ہوسکتے ہیں)
نثری کتب:
  آدابِ نعت گوئی 2013 (غلام ربانی فداؔ) 
کرناٹک میں نعت گوئی (جہان نعت کاخصوصی شمارہ)
گل وبرگ(ڈاکٹر غصنفر)۲۰۱۴۔
کرناٹک میں نعتیہ شاعری(غلام ربانی فدا)ؔ
اس فہرست پر غورکرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کرناٹک میں ادبِ نعت کی طرف شعراکا رجحان کم رہااورنعتیہ مشاعروں تک محدود رہے۔سن 2000کے بعد کئی نعتیہ مجموعے منظرعام پرآئے۔ نعتیہ مشاعروں کاانعقاد بھی زیادہ تعدادمیں ہونے لگا۔
۱۹۵۷ کو ریاست میسور اور حیدرآباد وممبئی کے مختلف علاقوں کے جوڑ سے ریاست کرناٹک کاوجودمیں آیا۔کرناٹک کی تشکیل کے بعد ادب حمدو نعت میں جو کتب اولین مقام حاصل کرتی ہیں وہ یہ ہیں۔

اولیاتِ ادبِ حمدو نعت مابعد ۱۹۵۷
نام کتاب
مرتب/مصنف
صنف
سالِ اشاعت
یایھالنبیﷺ
خانصاحب سلیم
نعت (پابند)
1957
نوروظہور
اکمل آلدوری
نعت(رباعیات)
1979
حرفِ تمام
منیراحمدجامی 
حمد
1983
ردائے رحمت
ایس ایم عقیل
نعت(آزادنظمیہ)
2003
اردومیں حمد
مصنفہ ڈاکٹرسلیمیٰ کولور
حمد(نثر)
2010
جہان نعت
غلام ربانی فدا
مجلہ 
2010
آدابِ نعت گوئی
غلام ربانی فدا
نثر
2011
انوارِمدینہ
تاج نوردریا
نعتیہ دیوان
2015
مجھے اپنی کم علمی کابخوبی احساس ہے کہ ممکن ہوکہ ان فہرستوں میں کئی چیزیں چھوٹ گئی ہوں اگرکسی صاحب علم وفہم کو کسی کے رہ جانے کا علم ہوتوبرائے کرم ناچیز کو آگاہ فرمائیں۔


فیاضؔ بلگوڈی کی نعتیہ شاعری

فیاضؔ بلگوڈی کی نعتیہ شاعری



فیاضؔ بلگوڈی کی نعتیہ شاعری




ڈاکٹرغلام ربانی فداؔ
gulamrabbanifida@gmail.com

مولاناقاضی عبدالقادر فیاض بلگوڈی اپنے وقت کے معتبر عالم دین تھے۔ آپ نے مذہبی کتب کی تصنیف فرمائے۔ آپ حضرت شاہ جماعت سے شرف بیعت رکھتے تھے۔ اور دارالعلوم شاہ جماعت کے آر پورم ہاسن کے مہتمم بھی مقرر ہوئے۔ تفصیلی تعارف تلاش وبسیار کے باوجود بھی حاصل نہ ہوسکا۔ ناچیز اسی بہانے ہاسن وبلگوڈ کاسفر بھی کیا ۔
 م پ راہی فیاض بلگوڈی رقمطراز ہیں۔
  آپ کا پورا نام قاضی عبدالقادر تھا ۔ فیاض تلخص فرمایا ۔ جائے پیدائش کی نسبت سے فیاض بلگوڑی کے نام سے مشہور ہوئے اور’ شاعر ملناڈ ‘ کا خطاب پایا ۔ آپ اس ضلع کے سکلیشپور تعلقہ کے ایک چھوٹے سے قصبے بلگوڑ میں پیدا ہوئے ۔ شہر کی میونسپل ہائی اسکول میں عرصے تک اردو کے استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور یہاں سے سبکدوش ہوکر اپنے گاؤں لوٹ گئے اور باقی عمر اردو کی زلفیں سنوارنے میں گزار دی ۔ 
آپ ایک کہنے مشق اور استاد شاعر تھے ۔ آپ نے کم وبیش تمام قدیم اصناف سخن  میں طبع آزمائی کی مگر نعت گوئی سے انہیں ایک خاص شغف رہا ۔ حضور ﷺ سے غیر معمولی عشق تھا ۔ حب رسول ﷺ ان کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا ۔ انہوں نے عشق رسول ﷺ ہی کو زندگی کا حصول سمجھا لہٰذا آگے چل کر مستقل طور پر نعت گوئی ہی اپنا وظیفہ بنالیا ۔ 
آپ نے حج بیت اللہ کے موقع پر مدینہ شریف میں بے شمار نعتیہ کلام تحریر فرمائے۔  



فیاض بلگوڈی کرناٹک کے وہ خوش قسمت شاعر جنہیں مدینۃ الرسولﷺ کے محافل میں اپنا کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جنہیں بھارت اور پاکستان کے بیت سے حاجیوں نے انہیں سنا اورآپ کاکلام ٹیپ کر کے لے گیے۔قیام مدینہ کے دوران جو واقعات پیش آئے تھے انہیں اپنے اشعار میں مبہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہیں ۔ اورشہررسول ﷺمیں قطبِ مدینہ حضرت ضیاء الدین مدنی کی صحبت بابرکت حاصل رہی۔
دو مرتبہ حج کی سعادت سے مشرف ہوئے ۔ آپ کو نعتوں اور سلاموں کا مجموعہ ’’ حرم کا تحفہ ‘‘ کے نام سے بہت پہلے ہی زیور طباعت سے آراستہ ہو کر ادبی حلقوں میں داد و تحسین حاصل کر چکا ہے ۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ اس خطے اور اس ضلع کے پہلے صاحب ِمجموعہ شاعر تھے ، جنہوں نے نعت گوئی کو محض ایک صنف کے نہیں بلکہ ایک فن کی حیثیت سے اختیار کیا تھا ۔ یہی بات ہے کہ ان کی نعتوں میں بلا کی سر شاری اور والہانہ پن پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پرا ن کے یہ نعتیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
تو حسیں حسیں گلوں میں توہے نس بہ نس کلی میں 
تو جمیل خلوتوں میں کہاں رونما نہیں ہے
مراسر ہو تیرے درپر میں اٹھوں وہاں سے مرکر
بجز اسکے زندگی کا کوئی مدعا نہیں ہے 
محمدکے دامن میںدنیا بھی دیں بھی  محمد ہیں قندیل راہ یقیں بھی 
زمیں آسماں اس کی عظمت کے قائل 
محمد کے دربان روح امیں بھی 
پلادے ساقیا بھر بھر کے پیمانہ محمد کا 





 زمانے بھر میں کہلاؤں میں مستانہ محمد کا 
لڑکپن ہی سے انہیں نعت خوانی کاشوق رہا ،ابتدا میں حضرت محسن کاکوروی ، امیر مینائی ، امجدحیدرآبادی زائرحرم حمیدصدیقی اور ماہرالقادری کوبہت پڑھا ہے اوراس دورمیں بارہ ربیع الاول کوانہیں نعت خوانی کی مجلسوں میں شریک ہونے اوراپنی لحنِ داؤڈی سے محفلوں کومسحورکرنے موقعہ ملتارہاوراسی زمانہ کی بات ہے کہ طبیعت شعرکہنے کی طرف مائل ہوئی۔
فیاض اس نصیب  پہ رشک آئے پھر نہ کیوں
عشقِ رسول نے تجھے شاعر بنا دیا
عرب کو لے کر میں کیا کروں گا عدن کولے کرمیںکیا کروں گا
نہیں ہے خود رغبتِ چمن جب چمن کو لے کرمیںکیا کروں گا 
کمال جب ہے کلامِ فیاضؔ سے ہو بیدار روحِ ملت
مرے محبو کے خشک دادِ سخن کو لے کر میں کیا کروں گا





فیاض بلگوڈی کی نعتیہ شاعری


تنقیدنعت وقت کی اہم ضرورت غلام ربانی فداؔ

تنقیدنعت وقت کی اہم ضرورت غلام ربانی فداؔ





تنقیدنعت وقت کی اہم ضرورت


غلام ربانی فداؔ

مدیراعلیٰ جہان نعت ہیرور9741277047


جب نعت نے ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کا تاج اپنے سر کی زینت بنایا تو اس کے عظمت و انفرادیت و شعریت کے چرچے ہر سُو پھیل گئے۔ لفظوں نے جب نعت کالباس زیب تن کیاتو اس کے حسن کے چرچے چہارسو پھیل گئے جیسے جیسے شوق تحقیق و جستجونے ہردور کوکھنگالا تو ایک ہی حقیقت سامنے آئی کہ سیّدنا حسان بن ثابت ص سے لے کر آج تک ہردوردورِ نعت تھا۔ بحمداللہ حضرت سیّدنا حسان، سیدنا کعب، سیّدنا عبداللہ بن رواحہ ث، قدسی، جامیؔ ، عرفیؔ ، رومیؔ ، احمد رضاؔ خان،حفیظ تائب ،ماہرالقادری،الطاف حسین حالی کے سفرنعت تاریخ ادب نعت فراموش نہیں کرسکتی۔

جب نعت کہنے والوں تعداد زیادہ ہوئی تو تنقیدِ نعت کا مسئلہ وقت کا تقاضا بن کر اُبھرا۔ اگرتنقید اپنے بانہیں نہ پھیلائی ہوتی تونعت میں عقیدت کے نام پر افراط وتفریط کاشکارہوکررہ جاتی جوکسی بھی صاحب ایمان یاعاشق رسول ،عالم دین کوگوارہ نہ ہوتیں۔ تنقید نعت کامطلب یہ نہیں کسی کی تنقیص کی جائے بلکہ سفیران نعت کی رہنامئی اور رہبری ہے۔ فروعِ ادب نعت کے لیے ماہ نامہ ’’نوائے وقت‘‘، ماہ نامہ ’’شام و سحر‘‘، ماہ نامہ ’’نعت‘‘، ماہ نامہ ’’حمد و نعت‘‘ ’’نعت رنگ‘‘ اور ہندوستان میں’’جہان نعت‘‘راقم الحروف کی ادارت میں آسمان نعت میں روشن ستارے بن کر ابھرے۔

اللہ کریم نے ذکررسول کوبلندفرماکر ہمارے دلوں اوردماغوں میں یہ نقش فرمادیا کہ ہر دور دورِ نعت ہے پہلی صدی ہجری ہو یا چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری ہو یہ اوربات ہے کہ یہ صدی نعت کے حوالے سے کافی بیداری کے ساتھ جلوہ افروزہے کچھ محققین کا خیال ہے کہ ادبی طورپر یہ صدی نعت کی صدی ہے اگر مقصد یہ ہے کہ اس صدی میں لاتعداد مجموعہائے نعوت اورنعتیہ ادبی رسالے اورمقالہ جات منظرعام پرآئے توٹھیک ۔اگر ماضی وحال سے مقابلہ کرناہے تو پھر قول خدا’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کامطلب ہوگا ؟کیا منشائے خداوندی اپنے طریقہ کار بدل دے گی؟میراخیال ہے کہ ہرصدی کے اختتام پر محققین نعت یہ کہہ اٹھے کہ ہماری صدی نعت کی صدی ہے اور یہ سچ بھی اس صدی میں نعت کے حوالے سے جوبیداری جنم لی شائد ہی کسی اور صدی کو یہ امتیاز حاصل ہوگانیز ہم یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتے یہی اس صدی میں ہم نے نعت کے حوالے سے مطمئن ہیں بلکہ ابھی تک بے شمار موضوعات ہماری دسترس سے بہت دورہیں اور ہمارے نامعلومات کے پردوں میں ہیں اس صدی کے محققین اور تحقیق کے حوالے سے آنے والے صدی مورخین ومحقیقن نعت ہی فیصلہ فرمائیں گے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

حضرت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا آپ کا ربّ کریم پوچھتا ہے کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کے ذکر کو کیسے سر بلند کیا؟ میں نے جواب دیا اس بات کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کے رفعِ ذکر کی کیفیت یہ ہے کہ جہاں میرا ذکر کیا جائے گاوہاں آپ کا ذکر بھی میرے ساتھ کیا جائے گا۔

عہدحاضر کویہ فخرحاصل ہے اس عہدمیں بے شمارنعتیہ دیوان اور ادب نعت پر کتابیں منظرعام پر آئیں لاکھ کوشش کے باوجود ہم ان کا شما ر نہیں کرسکتے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کتب کی کثرت سے معیار متاثرہوتاہے یہ کوچۂ ہوس نہیں گلستان نعت ہے جہاں معمولی لغزش بھی شاعر کو جہنم کا مستحق بناسکتی ہے۔

جیسے کہ ایک مشہور صوفی صاحب کا یہ

جوکبھی مستئ عرش تھا خدا بن کر اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی بن کر

(اس کی تشریح علمائے دین اور ناقدین نعت ہی کریں تو بہتر ۔مجھ سا طالب علم اس خامہ فرسائی کرنے سے رہا۔)

یاجدیدیت کی رومیں بہہ کر

اگر بادحوادث ریزہ ریزہ کرکے بکھرادے

توبن کر خاک میں جم جاؤں ترے روضے کی جالی پر

(ناقدین نعت ہی بتائیں یہ خیال کہاں تک درست ہے جبکہ علمائے دین فرماتے ہیں دررسول پر باادب رہناچاہئے۔یہ بات عیاں ؔ صاحبہ کی واضح کردیں تو بہتر)

میں عرض کررہاتھا کہ جب نعتیہ کتب کی اشاعت کثرت سے ہونے لگی توپھر نقدنعت نے بھی اپنی ضرورت محسوس کرائی اور ہوشمند ناقدین اس سفرکے راہی بن گئے۔ایک سوال یہ یداہوتاہے کہ جب ماضی میں نعیہ دیوان شائع ہوتے تھے جس کی مثال ہمیں آسانی سے مل سکتی ہے تو پھر اس وقت نقدنعت کی ضرورت کیوں نہ محسوس ہوئی؟۔میرے خیال میں اس کا جواب یہ ہوگا ماضی کے شعراء علم عروض و ادب کے ساتھ ساتھ علم دین سے بھی واقف ہوتے تھے اور آج کے نئی نسل کی علم دین سے ناآشنائی اورشعرا نعت کو عبادت کے بجائے فن کے طورپر بتنے لگے جیساکہ کچھ شعرا کی فطرت بن گئی کے نعتیہ مشاعرے میں ایک نعت پڑھتے اور بہاریہ مشاعرے میں اسی نعت کو الفاظ کی ہیراپھیری کے بعد اپنے مجازی محبوب کی نذر کردیتے۔(اللہ ہمیں محفوظ رکھے) شعراکی علم دین سے دوری اور نعتیہ مجموعہائے کلام کی تیزی سے اشاعت دوسری اصنافِ شعر و ادب کی طرح میدانِ نعت میں بھی تنقید وقت کا اہم تقاضہ بن کر سامنے آئی۔ فرق صرف اتناہے دوسرے اصناف سخن ادب کاقصاب جس طرح چاہے تنقیدی چاقو چلاسکتاتھا مگر نعت کا تقدس نقادوں پرپاندیاں عائدکرتاہے بیجا کسی کی تنقیص نہیں کرسکتے اور نیز کمال ہوش مندی کے ساتھ تنقید کی اجازت ملتی ہے گویا جس طرح نعت گوئی ہرکس وناکس کی بس کی بات نہیں ایسے ہی نقدنعت بھی۔

بہرحال تنقیدِ نعت وقت کا تقاضا اہم ہے۔پاکستان میں اس تقاضے کو سنجیدگی کے ساتھ اپنایاگیامگر ہندوستان میں ابھی تک اطمینان بخش پیش رفت نہیں ہوئی۔

آپ ہندوستان میں نعت اور نقدنعت کی فضاؤں کی کیفیت ایک ناقد نعت کے جملے میں دیکھیں تو انکارنہیں کریں گے

ڈاکٹر صابر سنبھلی رقمطراز ہیں

نعت پر پاکستان میں بہت کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ میرا اپنا خیال یہ ہے (جو بعض شعراے ہند کو ناگوار بھی ہوسکتا ہے) کہ پاکستان کی نعتیہ شاعری بھارت سے موضوعات اور طرزِاظہار دونوں حیثیتوں سے کم سے کم پچاس برس آگے ہے۔ پاکستان میں ہی نعت کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ اور ’’سفیرِنعت‘‘ جیسے مجلے بھی جاری ہوئے۔ (نعت رنگ شمارہ ۲۰)

ایک سوال یہ پیداہوتا ہے کیا نعت جیسا مقدس و محترم موضوع تنقید کامتحمل ہوسکتا ہے۔ تنقید نگار نعت کے شایانِ شان تنقید کرسکتا۔تنقیدنعت کے لئے ماضی اور حال، مستقبل کے تمام نعتیہ دیون کو پیش نظر رکھ کراور فرامین خداواحادیث رسول کی روشنی میں اوردل سے بغض وعناد نکال کر تنقید کرناہرناقد کاحق ہے اس میدان میں بڑے ناموں سے نہیں بلکہ صلاحیت سے آزمائی جاتے ہیں۔

میدان نعت میں گروہی بندی نہیں ہونی چاہئے۔ جیسے ماضی میں غزل، مرثیہ اور دوسری اصناف میں گروہ بندی کا میدان گرم ہونے کی بنا پر ہوتاآیا ہے ویساکچھ معاملہ نعت کے حوالے سے مشاعروں کے بارے میں ہونے لگا۔ اپنے گروہ کے مبتدی شعرا کے لیے بھی ضرورت سے زیادہ داد اور دوسرے گروہ کے بہترین نعتیہ کلام پرصرف خاموشی پراکتفا۔ بڑی معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ نعتیہ محافل ومشاعروں کے نام پر اپنے اپنے پسندیدہ نعت خواں یا نعت گو کوبڑے بڑے خطابات کے ساتھ نمائش کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت نقدنعت کا مطالبہ کررہی ہے

ہمیں تنقیدنعت کا بہت ہی صبروضبط کے ساتھ استقبال کرناچاہئے اور اس معاملے کوئی کوتاہی نہیں ثابت کرنی چاہئے۔ اور اوریہ خوف بھی دامن گیر نہ رہے کہ تنقید نعت کے نام پرتنقیص نعت ہوگی ۔ کام نیاہے یہ ضروری بھی ہے نئے کام کے ساتھ خوف وخدشات بھی دامن دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں مگر رضائے خدا اور خدمت نعت کے لئے کمربستہ ہوناہی ہر محقق کا فریضہ ہے۔ اوراس امید کے ساتھ نقدنعت سے نئے اسالیب وموضوعات کی کہکشاں سجے گی اور ادب نعت کو تازگی ملے گی اور ہرمحقق کا دینی واخلاقی فریضہ ہوگاکہ وہ تنقیدنعت کے نام پر کسی کی تنقیص نہ کرے۔

ہاں یہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ اچھا کام کرنے والے کی بے انتہا تعریف کرنے کے بعد اُس کی ایک چھوٹی سی لغزش پر بھی ہاتھ رکھ وتو وہ تمام تعریفیں بھول کر مرنے مارنے پہ آجائے ۔ جب تعریف وتوصیف گوارہ ہے تو کوتاہی بیان کرنے پر یہ غصہ کیوں؟ ہوناتویہ چاہئے کہ اس ناقد کا احسان مان لیں کیوں کہ وہ بروز حشرآپ کو رب کی پکڑسے بچارہاہے

خیرمیراایک سوال ہے آپ نعت کیوں کہتے ہیں؟تو ہرشاعر کا یہی جواب ہوگا کہ رسول کریم ﷺ کے مداحوں کی صف میں آخرمیں سہی کہیں ایک پیر پر بھی کھڑنے کے لئے جگہ مل جائے۔اپنی عاقبت سنور جائے۔جب آپ اپنی عاقبت سنوارناچاہتے ہیں تو پھر اتنا چراغ پا کیوں ہو رہے ہیں؟

اورناقدین سے بھی کہناچاہوں گا کہ یہاں کوئی شمالی اور جنوبی،دکنی ،مراٹھی اور فاروقی اور نارنگی نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ مدح خواں ہیں یہاں صرف خالص تنقید چاہئے اور وہ تنقیص نہیں جو کسی خلاف قلم اٹھاؤتو میدان ادب سے بھاگنے پر مجبور کردو۔اپنی مختصر ادبی حیات سہی مگر میں نے ہمیشہ سے یہ پایاہے کہ ناقد کی بات غورسے سنو!اگردرست کہہ رہاہے تو اس کا مشورہ قبول کرلو کیوں ملک الموت کسی کو وقت نہیں دیتے۔یہاں تک احتیاط ہونی چاہئے اگر آپ کا نعتیہ شعر بہت خوبصورت ہے اور کوئی مشورہ دے یا آپ کو لگے کہ اس کے دومطلب نکلتے ہیں ایک رسول کریم ﷺ کی تعریف اور دوسرا کچھ اور مطلب بیان کرتاہے تو اس سے آپ فوراًعوام الناس کی دادودہش سے بے نیاز ہوکر اس مطلب کو اجاگر کرو مدحِ رسول کی نمائندگی کر رہاہے اوراگر شعر بدل سکتے ہوتو فوراً بدل لو۔اگرشعری صلاحیت اس قابل نہیں تو فوراً شعرہی سے رجوع کرلو۔یہ حضرت غالب ؔ کا دیوان نہیں ہے جس کے ایک شعر سولہ سترہ مطالب ہوںیہاں بس ایک مطلب ہوناچاہئے کہ آپ اس شخصیت کی مدحت کہہ رہے ہیں جس کی مدحت خود رب کریم فرماتاہے

حضرت کعب بن زہیر عرب مشہورشاعر تھے۔حضرت کعب کے والد زہیر بن ابی سلمیٰ کا شمار خود نامور شاعروں میں ہوتا تھا۔نعت گوصحابی رسولﷺ حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کااسلام لانے سے پہلے اسلام کے خلاف منظومات لکھتے اوردشمنان اسلام سے خوب داد پاتے۔ نبی کریمﷺ نے کعب کے ایمان لانے سے قبل ان کے خون کو مباح قرار دے دیاتھا۔جب دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے توحضرت کعب نے مدینہ منورہ آکر معافی اور امان طلب کی تورسول کریم ﷺنے معاف فرما دیا۔ اسی موقعہ پر جب کعب بن زہیر نے ’’قصیدہ بانت سعاد‘‘ سنایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بڑے ذوق اور محویت کے ساتھ قیصدہ سماعت فرمارہے تھے ؂

ان الرسول لسیف لسیضا بہ

مھند من سیوف الہند مسلول

ن کے اس شعر کا ترجمہ یوں تھا:

’’رسول اللہﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور وہ بے نیام ہندی تلواروں کی طرح تیز اور فیصلہ کن ہیں۔‘‘

۔ جب وہ مذکورہ بالا شعر تک پہنچے تو آپ نے اس شعر کے دوسرے مصرعے کی یوں اصلاح فرمائی کہ ’’سیوف الہند‘‘ کی جگہ ’’سیوف اللہ‘‘ لگانے کو کہا۔ اس ایک لفظی اصلاح سے شعر کے معانی ومفاہیم ہی بدل گئے۔ شاعر و شعر دونوں کو ہی اونچا مقام مل گیا۔ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشارہ پاتے ہی اس شعر کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اصلاح کے ساتھ دہرایا۔

یعنی ’’رسول اللہﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ آپ اللہ کی تلواروں میں سے ایک کھینچی ہوئی تلوار ہیں۔‘‘اس قصیدہ کے ۵۸؍ اشعار ہیں ۔ رسول کریم ﷺ نے خوش ہوکر اپنے دوشِ مبارک سے اپنی نوری چادر اُتاری اور جناب کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انعام میں عطا کردی اس طو ر اس قصیدہ کا دوسرا نام قصیدہ بردہ شریف مشہور ہوا

چھوٹے چھوٹے شعرا تنقیدکواپنے لئے توہین تصور کرتے ہیں جب کہ بڑے بڑے لوگ تنقید کے ہرہرلفظ ہیرے موتی سمجھ کر دامن میں سمیٹ لیتے ہیں۔ ایک اورماضی قریب کاواقعہ ہے مولانا احمد رضا خاں کے زمانے میں اطہرہاپوڑی معروف شاعر تھے جو کبھی کبھی اپنا کلام سنانے کے لیے خود آجاتے اور کبھی ڈاک سے بھیج دیتے۔ انھوں نے ایک مرتبہ ایک نعت لکھ کر آپ کی خدمت میں بھیجی جس کا مطلع تھا ؂

کب ہیں درخت حضرتِ والا کے سامنے

مجنوں کھڑے ہیں خیمۂ لیلیٰ کے سامنے

مولانا احمد رضا خان نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ دوسرا مصرعہ مقامِ نبوت کے لائق نہیں ہے۔ آپ نے قلم برداشتہ اصلاح فرمائی ؂

کب ہیں درخت حضرتِ والا کے سامنے

قدسی کھڑے ہیں عرشِ معلیٰ کے سامنے

فاضلِ بریلوی کی اس اصلاح سے اطہر ہاپوڑی کی نعت کی مضمون آفرینی اور حقیقت تخیل کو چار چاند لگ گئے۔(شمائم النعت)

موجودہ زمانے کے نعت نگاروں کے لئے ایک اور مثال پیشِ نظر ہے۔ ایک صاحب نے مولانا احمدرضا خاں کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے اشعار سنانے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا میں اپنے چھوٹے بھائی حسن میاں (حسن رضا خان شاگرد داغؔ ) یا حضرت کافیؔ مرادآبادی کا کلام سنتا ہوں۔ اس لیے کہ اُن کا کلام میزانِ شریعت پر تلا ہوتا ہے۔ پھر ان صاحب کے اصرار پر آپ نے نعت سنانے کی اجازت عطا کردی۔ ان کا ایک مصرع یوں تھا:

شانِ یوسف جو گھٹی ہے تو اسی در سے گھٹی

آپ نے فوراً اس شاعر کو ٹوک دیا اور فرمایا:

حضور اکرمﷺ کسی نبی کی شان کو گھٹا نے کے لیے نہیں بلکہ انبیائے کرام علیہم السلام کی شان و شوکت کو سربلند سے سر بلند کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ مصرع یوں بدل دیا جائے:

شانِ یوسف جو بڑھی ہے تو اسی در سے بڑھی(امام احمدرضاکی نعتیہ شاعری)

ایک وہ دورتھا جب کوئی کسی کی اصلاح کردیتا توخوش دلی کے ساتھ قبول کرلیتے اورنعت نگاربھی خوش اورتنقیدنگاربھی خوش۔مگر آج کاحال ملاحظہ کیجئے اگر کسی رسالے یا اخبار کے مدیرنے کسی پرتنقیدی مضمون شائع کردے تو وہ مجلس ادارت کے لائق نہیں بلکہ اسے نائی کادکان کھول لینا چاہئے اورایک شاعر کے درجنوں شعری مجموعے شائع ہورہے ہیں اور نہ کسی استاد کو سنانے کی خواہش نہ تنقیدکاخوف۔اور اگر کوئی خامی رہ جائے تو اپنی شان میں ایک تقریب منقعد کر کے خوشامدیوں کی جھرمٹ میں پوری کرلی جائیں گی۔اس دور خود پسندی میں وہ ناقدین لائق تعریف ہیں جو صلے اورستائش سے بے پرواہ اصلاح ادب کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔

آج وقت کاتقاضہ ہے کہ محققین اورناقدین نعت کی جانب متوجہ ہوجائیں


عجائب القرآن مع غرائب القرآن




Popular Tags

Islam Khawab Ki Tabeer خواب کی تعبیر Masail-Fazail waqiyat جہنم میں لے جانے والے اعمال AboutShaikhul Naatiya Shayeri Manqabati Shayeri عجائب القرآن مع غرائب القرآن آداب حج و عمرہ islami Shadi gharelu Ilaj Quranic Wonders Nisabunnahaw نصاب النحو al rashaad Aala Hazrat Imama Ahmed Raza ki Naatiya Shayeri نِصَابُ الصرف fikremaqbool مُرقعِ انوار Maqbooliyat حدائق بخشش بہشت کی کنجیاں (Bihisht ki Kunjiyan) Taqdeesi Mazameen Hamdiya Adbi Mazameen Media Zakat Zakawat اِسلامی زندگی تالیف : حكیم الامت اِسلامی زندگی تالیف : حكیم الامت مفسرِ شہیر مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی Mazameen mazameenealahazrat گھریلو علاج شیخ الاسلام حیات و خدمات (سیریز۲) نثرپارے(فداکے بکھرے اوراق)۔ Libarary BooksOfShaikhulislam Khasiyat e abwab us sarf fatawa مقبولیات کتابُ الخیر خیروبرکت (منتخب سُورتیں، معمَسنون اَذکارواَدعیہ) کتابُ الخیر خیروبرکت (منتخب سُورتیں، معمَسنون اَذکارواَدعیہ) محمد افروز قادری چریاکوٹی News مذہب اورفدؔا صَحابیات اور عِشْقِ رَسول about نصاب التجوید مؤلف : مولانا محمد ہاشم خان العطاری المدنی manaqib Du’aas& Adhkaar Kitab-ul-Khair Some Key Surahs naatiya adab نعتیہ ادبی Shayeri آیاتِ قرآنی کے انوار نصاب اصول حدیث مع افادات رضویّۃ (Nisab e Usool e Hadees Ma Ifadaat e Razawiya) نعتیہ ادبی مضامین غلام ربانی فدا شخص وشاعر مضامین Tabsare تقدیسی شاعری مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روشن فیصلے مسائل و فضائل app books تبصرہ تحقیقی مضامین شیخ الاسلام حیات وخدمات (سیریز1) علامہ محمد افروز قادری چریاکوٹی Hamd-Naat-Manaqib tahreereAlaHazrat hayatwokhidmat اپنے لختِ جگر کے لیے نقدونظر ویڈیو hamdiya Shayeri photos FamilyOfShaikhulislam WrittenStuff نثر یادرفتگاں Tafseer Ashrafi Introduction Family Ghazal Organization ابدی زندگی اور اخروی حیات عقائد مرتضی مطہری Gallery صحرالہولہو Beauty_and_Health_Tips Naatiya Books Sadqah-Fitr_Ke_Masail نظم Naat Shaikh-Ul-Islam Trust library شاعری Madani-Foundation-Hubli audio contact mohaddise-azam-mission video افسانہ حمدونعت غزل فوٹو مناقب میری کتابیں کتابیں Jamiya Nizamiya Hyderabad Naatiya Adabi Mazameen Qasaid dars nizami interview انوَار سَاطعَہ-در بیان مولود و فاتحہ غیرمسلم شعرا نعت Abu Sufyan ibn Harb - Warrior Hazrat Syed Hamza Ashraf Hegira Jung-e-Badar Men Fateh Ka Elan Khutbat-Bartaniae Naatiya Magizine Nazam Shura Victory khutbat e bartania نصاب المنطق

اِسلامی زندگی




عجائب القرآن مع غرائب القرآن




Khawab ki Tabeer




Most Popular