منگنی کے مُروّجہ انداز کی قباحتیں
بدقسمتی سے منگنی کا جو انداز ہمارے مُعاشَرے میں رائج ہے وہ اپنے دامن میں ایک دو نہیں بلکہ درجنوں خِلافِ غیرت و خِلافِ شریعت کاموں کو لئے ہوئے ہے۔ منگنی کی باقاعدہ تقریب رکھی جاتی ہے ، جس میں لڑکا لڑکی اور اُن کے والدین اپنے عزیز و اَقارب ، دوست اَحباب اور محلّہ داروں کو دعوت دیتے ہیں ، منگنی والے دن جب یہ سب پِنڈال (یعنی شامیانے یا شادی ہال وغیرہ )میں جمع ہوتے ہیں تو لڑکا “ نصف دُولھا بن کر “ اپنے قریبی دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ مَنْج (Stage)پر آکر کرسی پر بیٹھتا ہے ، اسی طرح لڑکی بھی مکمل سَج دَھج کے ساتھ “ نصف دُلہن بن کر “ اپنی سہیلیوں اور بہنوں کے ہمراہ مَنْج (Stage)پر آکر اپنے منگیتر کے برابر میں بیٹھتی ہے اور پھر ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے ، غیرت و حیا کو بالائے طاق رکھ کر بہت سے غیر شَرْعی کاموں کا اِرتکاب کیا جاتا ہےاور دُکھ کی بات یہ بھی ہے کہ علمِ دین کی کمی کے باعث بہت سے لوگوں کی ان کاموں کے غیر شَرْعی ہونے کی طرف یا تو توجّہ ہی نہیں ہوتی یا پھر وہ دانستہ بے پروائی کا مُظاہَرہ کرتے ہیں ، اس موقع پر یا تو پردے کا کوئی اِہْتِمام ہی نہیں کیا جاتا یا پھر برائے نام اِہْتِمام ہوتا ہے ، مُووی بنانے والا غیرمرد صرف مَردوں ہی کی نہیں عورتوں اور لڑکیوں کی بھی مُووی بناتا ہے بلکہ نوجوان لڑکیاں انتہائی اِہْتِمام کے ساتھ وہاں موجود بہت سے غیر مَردوں کے سامنے ننگے سر ، لبوں پر مسکراہٹ سجائے مختلف زاویوں
سے مُووی بنواتی ہیں ، نَفْسانی خواہشات کو اُبھارنے اور بھڑکانے والے بے ہودہ اشعار پر مشتمل عشقیہ و فسقیہ گانے انتہائی بلند آواز میں چلائے جاتے ہیں اور اِس کے ذریعے غیر اِرادی طور پر ہی سہی مگر آس پاس کے گھروں میں موجود موسیقی کے شائقین کو موسیقی سننے کے گُناہ میں شریک کیا جاتا ہے اور موسیقی کے گُناہ سے بچنے والوں یونہی بڑے بوڑھوں ، بیماروں اور ننھے بچّوں کا آرام و سُکون برباد کرکے ان کی ایذاء رسانی کا سامان کیا جاتا ہے ، اس کے علاوہ تقریب میں شریک بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موسیقی کی دُھن پر ناچتے بھی ہیں بلکہ اب تو دونوں خاندانوں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں دو گروہوں کی صورت میں باقاعدہ ناچنے کا مقابلہ (Dance Competition)کرتے ہیں جس گروہ کی بے ہودگی پر زیادہ تالیاں اور سیٹیاں بجائی جائیں وہ فاتح قرار پاتا ہے ، جو لوگ اپنے آپ کو سنجیدہ سمجھتے اور سُلجھا ہوا ظاہر کرتے ہیں وہ بھی موسیقی کی دُھن پر اپنے ہاتھ پاؤں یا انگلیاں ہلاتے گردنیں مٹکاتے اور جسم تھرکاتے ہوئے نظر آتے ہیں ، حتی کہ بوڑھے بھی اس طوفانِ بے حیائی و بدتمیزی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور دانت نکال نکال کر ہنس رہے ہوتے ہیں ۔ پھر ان خرافات کا آغاز ہوتا ہے جسے “ رَسْم “ کا نام دیا جاتا ہے خواتین و حضرات بلاامتیاز لڑکے اور لڑکی کو اپنے ہاتھ سے مِٹھائی کھلاتے ہیں اور اِس دور ان بھی جو بے تکلّفی برتی جاتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، بالآخر اس رَسْم کا انتہائی بَدترین موڑ آتا ہے اور وہ یہ کہ لڑکا اپنی منگیتر کا ہاتھ تھام کر اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے سامنے اُسے سونے کی انگوٹھی پہناتا ہے یونہی لڑکی بھی سونے کی انگوٹھی جو کہ مرد کیلئے حرام ہے۔ (1)منگیتر کو اپنے ہاتھ سے پہناتی ہے جسے بالکل معیوب نہیں سمجھا جاتا ، حالانکہ وہ لڑکا اپنی منگیتر کیلئے منگنی سے پہلے بھی اور منگنی کے بعد بھی اجنبی اور غیر مَحْرَم ہی ہوتا ہے لہٰذا ہاتھ پکڑ کر انگوٹھی پہنانا تو دُور کی بات اُسے چھونا بھی سراسر ناجائز ہے۔
چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے : تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے جو اس کیلئے حلال نہیں۔(2)مفتیِ اعظم پاکستان ، مفتی وقارُ الدین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : نکاح سے پہلے لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کیلئے اجنبی اور غیر مَحْرَم ہیں ، دونوں کو ایک دوسرے کے جسم کو چھونا ناجائز ہے ، لہٰذا لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو خود انگوٹھی نہیں پہنا سکتے۔ (3)مگر ہمارے مُعاشَرے میں بڑی بیباکی کے ساتھ یہ ناجائز کام ہو رہا ہے اور نجانے لڑکی کے والدین اور بھائیوں کی غیرت کہاں چلی جاتی ہے کہ ایک پرائے اور بیگانے مرد کو اپنی بہن بیٹی کا ہاتھ تھامے دیکھ کر اُن کا چہرہ شرم و غصے سے سُرخ ہونے کے بجائے خُوشی و مَسَرَّت سے کِھل اُٹھتا ہے ، صرف یہی نہیں بلکہ دونوں خاندانوں کے مرد و عورت اور لڑکے اور لڑکیاں تالیاں بجاتے ہیں ، سیلفیاں لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو نہ صرف آزادانہ تَک رہے ہوتے ہیں بلکہ بے تکلّفی سے بات چیت اور ہنسی مذاق کر رہے
ہوتے ہیں ، پھر اس بےشرمی کا طوفان یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ لی گئی سیلفیاں اور ویڈیوز واٹس ایپ (WhatsApp) ، فیس بک (Facebook) اور ٹیوٹر وغیرہ کے ذریعے شیئر بھی کی جاتی ہیں اور گروپ میں شامل نجانے کتنے غیر مَحْرَم اور اجنبی افراد انہیں دیکھتے ہیں ۔ پھر مُووی ، موسیقی اور بڑے پیمانے پر کثیر مہمانوں کی پُرتکلّف دعوت وغیرہ پر ہونے والے بھاری اور فضول اَخْراجات اِن خرابیوں کے علاوہ ہیں ، اِن اَخْراجات کی وجہ سے لڑکے اور لڑکی کے والدین کی بسا اوقات جیبیں ایسی خالی ہوتی ہیں کہ وہ کچھ عرصے تک مالی طور پر بچّوں کی شادی کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ رَسْمِ منگنی کے متعلِّق یہ وہ تلخ حقیقتیں اور کڑوی سچائیاں ہیں جو کچھ نہ کچھ تبدیلی اور کمی بیشی کے ساتھ ہر جگہ پائی جارہی ہیں ، ان حقائق کو بیان کرنے کا اصل مقصد معلومات میں اضافے کے بجائے ان کے غیر شَرْعی ہونے کی طرف توجّہ دِلانا اور ان سے بچانا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ خود بھی ان بُرائیوں اور فضول کاموں سے بچیں اور دوسروں کو بھی اَحْسَن انداز میں بچانے کی کوشش کریں ۔ زہے نصیب کہ مُفَسِّرِ شہیر ، حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اِس بارے میں جو مفید مشورے دئیے ہیں اُن کو پیشِ نظر رکھا جائے۔
________________________________
1 - بہارِ شریعت ، حصہ ۱۶ ، ۳ / ۴۲۶ ماخوذا
2 - معجم کبیر ، ۲۰ / ۲۱۲ ، حدیث : ۴۸۷
3 - وقار الفتاویٰ ، ۳ / ۱۳۴
0 Comments: