منگنی کرنی ہی ہو تو سادَگی سے کیجئے!
مُفَسِّرِ شہیر ، حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : بہتر تو یہ ہے کہ منگنی کی رَسْم بالکل ختم کردی جائے اِس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور سوائے نقصان کے اِس سے کوئی فائدہ نہیں غالباً ہم نے یہ رَسمیں ہندوؤں سے سیکھی ہیں عربی اور فارسی زبانوں میں اس کا کوئی نام بھی نہیں ۔ اس کے جتنے نام ملتے ہیں سب ہندی زبان کے ہیں ۔ اور اگر اس کا کرنا ضروری ہی ہوتو اس طرح کرو کہ پہلے لڑکے والے کے یہاں اس کے قرابت دار جمع ہوں اور وہ ان کی خاطر تواضُع صرف چائے سے کرے جس کے ساتھ کوئی مٹھائی نہ ہو۔ پھر یہ لوگ لڑکی والوں کے یہاں جائیں تو وہ بھی ان کی تواضُع صرف چائے سے کرے۔ لڑکے والے اپنے ساتھ دُلہن کیلئے ایک سوتی دوپٹہ اور ایک سونے کی نَتْھ (نَتْھنی) لائیں جو پیش کردیں ۔ دُلہن والوں کی طرف سے لڑکے کو ایک سُوتی رومال ایک چاندی کی انگوٹھی ، ایک نگینہ والی پیش کردی جائے جس کا وزن سَوا چار ماشے سے زیادہ نہ ہو ، لو یہ منگنی ہوگئی ۔ اگر دوسرے شہر سے منگنی کرنیوالے آئے ہیں تو ان میں سات آدمی سے زیادہ نہ آئیں اور دُلہن والے مہمانی کے لحاظ سے ان کو کھانا کھلادیں مگر اِس کھانے میں دوسرے محلّہ والوں کی عام دعوت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ پھر اِس کے بعد لڑکے والے جب بھی آئیں تو اُن پر مٹھائی اور کپڑوں کے جوڑوں وغیرہ کی کوئی پابندی نہ ہو۔ اگر اپنی خُوشی سے ایسے ہی بچّوں کیلئے تھوڑی سی مٹھائی لائیں تو اُس کو محلّہ میں تقسیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دو محبت بڑھے گی۔ (1) مگر اس ہدیہ کو ٹیکس نہ بنالو کہ وہ بے چارے اِس کے بغیرآہی نہ سکیں ۔ تاریخ کا مُقرَّر کرنا بھی اسی سادَگی سے ہونا ضروری ہے کہ اگر اسی شہر سے لوگ آرہے ہیں تو ان کی تواضُع صرف چائے سے ہو اور اگر دوسرے شہر سے آرہے ہیں تو پانچ آدمی سے زیادہ نہ ہوں ۔ جن کی تواضُع کھانے سے کی جائے اور تاریخ مُقرَّر کرنے والے سَن رسِیدہ بُزرگ لوگ ہوں ۔ (1)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
________________________________
1 - شعب الایـمان ، باب فی مقاربة وموادة اهـل الدين ، ۶ / ۴۷۹ ، حـدیث : ۸۹۷۶
1 - اسلامی زندگی ، ص ۴۰ بتغیر قلیل
0 Comments: