زوجہ سے اچھے برتاؤ اور اسکی دینی تربیت سے مُتَعَلّق شوہر کیلئے مدنی پھول
بیوی پر بے جا سختی مت کیجئے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِزْدِواجی بندھن (یعنی رشتہ)جتنا اہم ہے اُتنا ہی نازک بھی ہے کیونکہ ایک دوسرے کی خِلافِ مِزاج باتیں برداشت نہ کرنے ، درگزر سے کام نہ لینے اور ایک دوسرے کی اچھائیوں کو نظر انداز کرکے صرف کمزوریوں پر نظر رکھنے سے دل میں نفرتیں جنم لیتی ہیں اور گھر ٹوٹنے کے اِمکانات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ بسا اوقات شوہر کے مِزاج میں کچھ ایسی سختی ہوتی ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی بات پر چیخ و پکار رہتی ہے ، مثلاً سالن میں نمک مرچ کم یا زیادہ ہوجائے ، لذّت میں کچھ کمی رہ جائے ، کھانا دیر سے مِلا ، پانی کھارا ہونے یا کوئی پکّا داغ لگ جانے کی وجہ سے لباس اچھی طرح نہ دُھلا ، بجلی نہ ہونے یا دیر سے آنے کی وجہ سے کپڑے بروقت استری نہ ہوئے ، شوہر نے پانی منگوایا اور بیوی سے لانے میں دیر ہوگئی یا برف نہ ہونے کی وجہ سے گرم پانی پیش کیا گیا یا مِزاج کے مطابق ٹھنڈا نہ تھا ، گھر کی صفائی میں کچھ کوتاہی ہوگئی یا ساس اور نَنْدوں نے جُھوٹی سچی شکایت لگا دی یا اسی قسم کی کوئی چھوٹی موٹی بات ہوگئی تو شوہر آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور چیخ چیخ کر گھر سر پہ اُٹھا لیتا ہے بلکہ بعض لوگ تو انتہا درجے کا سخت رَوَیّہ اختیار کرجاتے ہیں ، یاد رکھئے!قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو تکلیف دینے والوں کی مَذمّت بیان کی گئی ہے ۔ جیساکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ ۲۲ ، الاحزاب : ۵۸)
تَرْجَمَۂ کنز الایمان : اور جو ایمان والے مَردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گُناہ اپنے سر لیا۔
تفسیر صراطُ الجنان میں اس آیتِ مُبارَکہ کے تحت ہے : یاد رہے کہ اس کا شانِ نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم تمام مسلمان مَردوں اور عورتوں کو عام ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جولوگ ایمان والے مَردوں اور عورتوں کے ساتھ ایسا سُلوک کرتے ہیں جس سے انہیں اَذِیّت پہنچے حالانکہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کِیا ہوتا جس کی وجہ سے انہیں اَذِیّت دی جائے توان لوگوں نے بہتان اور کھلے گُناہ کا بوجھ اُٹھالیا اور خود کو بہتان کی سزا اور کھلے گُناہ کے عذاب کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔ (1)
حدیثِ پاک میں بھی بیوی یا کسی بھی مسلمان کو تکلیف دینے سے منع کیا گیا ہے چنانچہ رسولِ کریم ، رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو تکلیف دی۔ (2)ایک اور حدیثِ پاک میں ہے : تم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دن کے آخر میں اُس سے حاجت پوری کرے گا۔ (3)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!افسوس ہے ان لوگوں پر جو اپنی بیویوں کو ظُلماً مارتے ہیں ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جب دل چاہتا ہے بے دریغ پیٹتے ہیں ، بیوی قدموں میں گر کر مُعافی مانگتی رہ جاتی ہے مگر انہیں ذرا رحم نہیں آتا۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک تو صِنْفِ نازُک پر ظُلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور پھر اسے مردانگی اوربہادری سمجھا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے قہر وغضب سے ڈرنا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ اگر بیوی نے قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں اپنے اوپر کئے گئے ظُلم و سِتم کے خِلاف فریاد کردی تو کیا بنے گا؟لہٰذا ابھی وقت ہے توبہ کرلیں ، اگر ظُلم کیا ہے تو مُعافی مانگ کر اُسے راضی کرلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بروزِ قیامت سخت مشکل میں پھنس جائیں کیونکہ اُس روز ظالم کو اپنے ظُلم کا انجام بھگتنا پڑے گا ۔
________________________________
1 - تفسیرصراط الجنان ، پ۲۲ ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : ۵۸ ، ۸ / ۸۸
2 - معجم صغیر ، جزء : ۱ ، ص ۱۶۹ ، حدیث : ۴۶۹
3 - بـخاری ، کتاب النکاح ، باب مایکرہ من ضرب النساء ، ۳ / ۴۶۵ ، حدیث : ۵۲۰۴
0 Comments: