(1)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''جس نے رضا ئے الٰہی عزوجل کے لئے حاصل کیا جانے والا علم دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے سیکھاوہ قیامت کے دن جنت کی خوشبوتک نہ پا سکے گا۔''
(سنن ابی داؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللہ، الحدیث:۳۶۶۴،ص۱۴۹۴)
ریاکاری کے بیان میں امام مسلم وغیرہ سے ایک حدیثِ پاک روایت کی گئی ہے جس میں یہ تھا:
(2)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''ایک شخص ساری زندگی علم سیکھتا اور سکھاتا رہا اور قرآن پڑھتارہا، جب اسے قیامت کے دن اللہ عزوجل کی بارگاہ میں لایا جائے گا تواللہ عزوجل اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا، جب وہ بندہ ان نعمتوں کا اعتراف کر لے گا تب اللہ عزوجل اس سے پوچھے گا:''تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کیا؟'' تو وہ عرض کریگا''میں تیرے لئے علم سیکھتا اورسکھاتا اور قرآن پڑھتا رہا۔'' تو اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا''تو جھوٹ بولتا ہے بلکہ تو نے علم تو اس لئے حاصل کیا تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اورقرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔'' پھرا س کے بارے میں جہنم کا حکم ديا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔''
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ ، باب من قاتل للریاء والسمعۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۴۹۲۳،ص۱۰۱۸)
(3)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے علماء سے مقابلہ کرنے بیوقوفوں سے جھگڑنے یا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے علم حاصل کیا اللہ عزوجل اسے جہنم میں ڈال دے گا۔
(جامع الترمذی،ابواب العلم،باب فیمن یطلب بعلمہ الدنیا، الحدیث: ۲۶۵۴،ص۱۹۱۹)
(4)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے بیوقوفوں کے ساتھ جھگڑنے، علماء پر فخر کرنے یا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے علم حاصل کیا، وہ جہنمی ہے۔''
(سنن ابن ماجہ،ابواب السنۃ، باب الانتفاع بالعلم۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۵۳،ص۲۴۹۳)
(5)۔۔۔۔۔۔سرکارِ مدینہ،راحتِ قلب وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے علماء کے سامنے فخر کرنے، جاہلوں سے جھگڑنے یا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے علم حاصل کیا اللہ عزوجل اسے جہنم میں داخل کرے گا۔''
(سنن ابن ماجہ،ابواب الطھارۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۶۰،ص۲۴۹۳،یماری بدلہ''یجاری'')
(6)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''علماء کے سامنے فخرکرنے بیوقوفوں سے جھگڑنے اورمجلس آراستہ کرنے کے لئے علم نہ سیکھوکیونکہ جوایسا کرے گا تو (اس کے لئے )آگ ہی آگ ہے۔''
(المرجع السابق،الحدیث:۲۵۴،لاتحبروابدلہ''تخیروا'')
(7)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے اللہ عزوجل کے علاوہ کسی کے لئے علم سیکھا یا اُس علم سے اللہ عزوجل کے علاوہ کسی کی رضاکا ارادہ کيا تو وہ اپناٹھکانا جہنم میں بنا لے۔''
(جامع الترمذی،ابواب العلم،باب فیمن یطلب بعلمہ الدنیا، الحدیث: ۲۶۵۵،ص۱۹۱۹)
(8)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''عنقریب میری اُمت کے کچھ لوگ دین میں تفقہ حاصل کریں گے اورقرآن پڑھیں گے اورکہیں گے :''ہم اُمراء کے پاس جاتے ہیں تا کہ ان سے ان کی دنیا پائیں اورہم اپنے دین کواُن سے جدا رکھتے ہیں۔'' لیکن ایسا نہ ہوگا بلکہ جس طرح کسی کانٹے دار درخت سے کانٹے ہی حاصل ہوتے ہیں اسی طرح وہ ان کے قریب سے گناہ ہی چن سکیں گے۔''
(سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ،باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ،الحدیث:۲۵۵،ص۲۴۹۳)
محمدبن صباح فرماتے ہیں:''سوائے گناہوں کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔''
(9)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے لوگوں کے دلوں کواپنے جال میں پھانسنے کے لئے عمدہ گفتگوسیکھی، اللہ عزوجل قیامت کے دن نہ اس کی فرض عبادت قبول فرمائے گا اور نہ ہی نفل۔''
(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب ماجاء فی التشدق فی الکلام، الحدیث:۵۰۰۶،ص۱۵۸۹)
(10)۔۔۔۔۔۔ مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا؟ جب تم پر ایک ایسی آزمائش آئے گی جس میں شیر خوار بچے بڑے ہو جائیں گے ، جوان بوڑھے ہو جائیں گے اور لوگ ایک سنت کو اپنائیں گے، اگر کسی دن اس میں سے کچھ چھوڑ دیا گیا تو کہا جا ئے گا سنت ترک کر دی گئی۔'' صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:''ایسا کب ہو گا؟'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''جب تمہاری آرزوئیں کم ہو جائیں گی اور امرأ زیادہ ہو جائیں گے، تمہارے فقہاء کم اور قاری زیادہ ہو جائیں گے، علمِ دین غیراللہ کے لئے سیکھا جائے گا اور آخرت کے عمل سے دنیا کو طلب کیا جائے گا۔''
(المصنف لعبدالرزاق،باب الفتن، الحدیث: ۲۰۹۰۸،ج۱۰،ص۳۰۸،لغیراللہ بدلہ''لغیرالدین'')
(11)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے بھی آئندہ آنے والے ایک فتنے کا تذکرہ کیا تو حضرت سیدنا عمرفاروق ِاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ''اے علی! ایسا کب ہو گا؟'' تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا :''دین کو چھوڑ کر دوسرے علوم میں مہارت حاصل کی جائے گی ، علم کو عمل کے علاوہ کسی اورمقصد کے لئے حاصل کیا جائے گا اور آخرت کے عمل سے دنیا طلب کی جائے گی۔''
(المرجع السابق، الحدیث: ۲۰۹۰۹،ص۳۰۹)
تنبیہ:
اس گناہ کو کبیرہ گناہوں میں شمار کرنے کی وجہ بعض متاخرین علمائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، شاید انہوں نے اس میں وارد ہونے والی سخت وعید کو دیکھتے ہوئے اسے ریاکاری سے علیحدہ کبیرہ گناہ شمار کیا اور ان احادیث کی طرف نظر نہ کی جو ریا کاری اور دنیا کمانے کے لئے علم حاصل کرنے کی مذمت کے بیان میں وارد ہوئیں لہٰذا ان دونوں میں عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہے۔
0 Comments: