نام ونسب :
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نام نامی اسم گرامی احمد بن محمدبن محمد بن علی بن حجر الھيتمی السعدی الانصاری الشافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی ہے،قبيلہ سعدکی نسبت سے سعدی کہلاتے ہيں،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کنيت ابوالعباس اورشيخ الاسلام اور شہاب الدین کے لقب سے ملقب ہيں،اپنے زمانے کے عظیم صوفی،محدِّث اورفَقيہ ہیں۔
ولادت باسعادت :
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت ماہِ رجب المرجب ۹۰۹ ہجری مغربی مصرمیں ابوالھيتم نامی محلہ ميں ہوئی،اسی نسبت سے آپ کو ہیتمی کہا جاتاہے۔بچپن ميں ہی باپ کا سايہ سر سے اُٹھ گیا پس آپ کی کفالت کی ذمہ داری امام شمس الدين بن ابی الحمائل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اورامام شمس الدین الشناوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لےلی۔
تعلیم :
اِمام شمس الدین الشناوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کولے کر محلہ ابوالھیتم سے احمدالبدوی نامی مقام کی طرف منتقل ہو گئے،جہاں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابتدائی علوم حاصل کئے اور بچپن ميں ہی حفظِ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوگئے ۹۲۴ہجری ميں وہ آپ کوجامع الازھرلے گئے وہاں آپ نے مصر کے نامورعلماء سے علمی فيض حاصل کيا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خلوص دل سے علم حاصل کیااور کثيرعلوم ميں مہارتِ تامہ حاصل کی مثلاًتفسیر،حدیث، علم ِکلام،فقہ، فرائض، حساب،نحو،صرف، معانی،بیان، منطق اور تصوف وغيرہ۔
اساتذہ کرام :
جن نابغۂ روزگار ہستيوں سے آپ نے علمی استفادہ کےاان کے نام درج ذیل ہیں :
(۱)شيخ الاسلام قاضی زکريا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۲)شیخ عبدالحق سنباطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۳)شیخ شمس مشہدی علیہ رحمۃ اللہ القوی(۴)شیخ شمس سمہودی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۵)شیخ الامین غمری تلمیذابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۶)شیخ شہاب رملی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۷)شیخ ابوالحسن بِکْرِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۸)شیخ شمس لقانی ضيروطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۹)شیخ شہاب بن نجارحنبلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۱۰)شیخ رئيس الاطباء شھاب بن صائغ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۱۱)شیخ طبلاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۱۲)امام جلا ل الدین سيوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
تلامذہ:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بے شمار طلباء نے استفادہ کيا اورآپ سے علم حاصل کرنے کی نسبت سے علماء ايک دوسرے پر فخر کرتے ہيں جبکہ صرف شيخ برھان بن الاحدب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بالمشافہ علم حاصل کيا۔
سفرِحج :
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۹۳۳ہجری کے اختتام پرمکہ مکرّمہ تشريف لے گئے اور فريضہ حج کی ادائيگی کے بعد ايک سال وہیں قيام فرمايا پھر ۹۳۷ہجری کے آخر ميں اپنی اولاد کے ساتھ دوبارہ حج کياتيسری بار ۹۴۰ہجری ميں حج کیااور مکہ مکرّمہ ميں ہی قیام پذیر ہوگئے اور وہیں درس وتدريس ،افتاء اور تصنيف وتاليف کی مصروفیت ميں مشغول رہے۔
تبحرِعلمی:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت متبحرعالم اورحافظ الحديث تھے،آپ کو بارگاہ ايزدی سے قوی حافظے کی لازوال دولت عطا کی گئی تھی،آپ کے محفوظات ميں سے''المنھاج الفرعی''ہے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جلالت علمی کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ بيس سال سے کم عمرميں ہی آپ کے مشائخ نے مسندافتاء وتدريس آپ کوعطافرمادی،آپ دنیاسے بے رغبت،برائی سے منع کرنے والے اورنیکی کی دعوت عام کرنے والے اوراہل تصوف کے بہت معتقدتھے چنانچہ آپ نے صوفياء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے منکرین ابن تیمیہ اور ابن قيم وغيرہ کا بڑے شدومدکے ساتھ رَدواِبطال کيا۔
تصانيف :
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کئی يادگارتصانيف چھوڑيں ،جن کے نام يہ ہيں :
(۱)شرح مختصرالروض(۲)شرح مختصرابی الحسن البکری(۳)تحفۃ المحتاج شرح المنھاج(۴)فتح الجوادشرح الارشادوھوصغير(۵)الامدادشرح الارشادوھوکبير(۶)تحذير الثقات عن اکل الکفتۃوالقات(۷)کف الرعاع عن محرمات اللہووالسماع(ھامش الزواجر)(۸)الاعلام بقواطع الاسلام(۹)الزواجر عن اقتراف الکبائر(۱۰)الفتاوٰی الفقہيۃ(۱۱)الفتاوٰی الھيتمیۃ:اربع مجلدات(۱۲)درالغمامۃ فی الزروالطيلسان والعمامۃ(۱۳)الجوھرالمنظم فی زيارۃ قبرالنبی المعظّم(۱۴)شرح المشکوٰۃ(۱۵)جزء فی العمامۃ النبويۃ(۱۶)الاربعون حديثاً فی العدل(۱۷)الاربعون فی الجہاد(۱۸)فتح المبین فی شرح الاربعين النوویۃ(۱۹)الايضاح شرح احادیث النکاح(۲۰)الصواعق المحرقۃ فی الردعلی اہل البدع والضلال والزندقۃ(۲۱)تطھيرالجنان واللسان عن الخطوروالتفوہ بثلب سيدنامعاویۃ بن ابی سفيان(۲۲)الفتاوٰی الحديثیۃ(۲۳)معدن اليواقيت الملتمعۃفی مناقب الائمۃ الأربعۃ(۲۴)الخيرات الحسان فی مناقب ابی حنيفۃ النعمان(۲۵)المولد النبوی(۲۶)شرح الھمزیۃ البوصيریۃ(۲۷)المنھج القویم فی مسائل التعلیم علی الفیۃ عبد اللہ بافضل شرح علی قطعۃ من الفيۃبن مالک(۲۸)اتحاف اہل الاسلام بخصوصيات الصيام(۲۹)اتمام النعمۃ الکبرٰی علی العالم بمولد سيدولد آدم(۳۰)تحريرالکلام فی القيام عند ذکرمولدسيد الانام(۳۱) ارشاد اہل الغنی والانافۃ(۳۲)فیماجاء فی الصدقۃ والضيافۃ(۳۳)اسعاف الأبرار شرح مشکوٰۃ الأنوارفی الحدیث:أربع مجلدات(۳۴)اسنٰی المطالب فی صلۃ الأقارب(۳۵)اشرف الوسائل الی فہم المسائل(۳۶)تحرير المقال فی آداب واحکام وفوائد يحتاج الیہامؤدبوالاطفال(۳۷)تحفۃ الزوارالی قبر النبی المختار:أربع مجلدات(۳۸)تطھیر العيبۃ عن دنس الغيبۃ (۳۹)تلخيص الأحرٰی فی حکم الطلاق المعلق بالابرار(۴۰)تنبیہ الاخيارعلی معضلات وقعت فی کتاب الوظائف واذکارالاذکار(۴۱)الدر المنضود فی الصلوٰۃ علی صاحب اللواء المعقود(۴۲)الدر المنظوم فی تسلیۃالھموم(۴۳)زوائد سنن ابن ماجہ(۴۴)فتح الاِلہ بشرح المشکوٰۃ(۴۵)الفضائل الکاملۃ لذوی الولایۃ العادلۃ(۴۶)القول الجلی فی خفض المعتلی(۴۷)قرۃ العین فی ان التبرع لا يبطلہ الدین(۴۸)جزء ماورد فی المھدی(۴۹)القول المختصر فی علامات المھدی المنتطر(۵۰)مبلغ الأرب فی فضل العرب(۵۱)المناھل العذبۃ فی اصلاح ماوھی من الکعبۃ(۵۲)المنح المکيۃ فی شرح الھمزیۃ(۵۳)النحب الجليلۃ فی الخطب الجزیلۃ(۵۴)نصيحۃ الملوک(۵۵)الايعاب فی شرح العباب(۵۶)شرح عین العلم
ان کے علاوہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کئی رسائل اور حواشی لکھے،آپ کی تاليفات اپنے موضوع کے اعتبار سے کافی و وافی ہيں۔
وصال پُر ملال :
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ چونسٹھ سال آسمانِ علم وفن کے اُفق پردرخشندہ ستارہ بن کر چمکتے رہے بالآخررجب المرجب ۹۷۳ یا۴ ۷ ۹ھجری مکۂ مکرّمہ ميں اس دنيائے فانی سے رخصت ہو کر خالق حقيقی سے جاملے اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوجنت المُعلٰی ميں طبری مقبرہ ميں دفن کیاگیا۔ظاہری طورپرتوآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پردہ فرماگئے مگرسينکڑوں سال گزرجانے کے باوجودآپ کا نام زندہ وتابندہ ہے۔مگرحقیقت یہ ہے کہ
ہَرْگِزْنَہ مِيْرَدْآنکِہ دِلَشْ زِندَہ شُدْبَعِشْق
يعنی جن کے دل عشقِ حقيقی کی لذت سے زندہ ہوں وہ کبھی نہيں مرتے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..ا ور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ علیہ وسلم)
(ماخوذازفتاوی حدیثیہ،حاشیہ الفوائد البھیۃ،)
0 Comments: