میں نے باطنی گناہوں کواس لئے مقدم کیا ہے کہ یہ ظاہری گناہوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اور ان کا مرتکب گناہگاروں میں سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر ہوتاہے۔ انہیں مقدم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک تو ان کا وقوع عام ہے اور دوسرا ان کا ارتکاب کرنا بھی بہت آسان ہے، بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ انسا ن انہیں برا جانتے ہوئے چھوڑدے، لہٰذا کبیرہ گناہوں کی اس قسم کو مقدم کرنا مناسب معلوم ہوا اور ان کا خلاصہ تحریر کرنے میں غورو فکر کرنا اچھا لگا۔
بعض ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :''دلوں کے کبیرہ گناہ، اعضاء کے گناہوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب فسق اورظلم کا باعث بنتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نیکیوں کو بھی کھا جاتے ہیں اور سخت عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔''
بعض ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے باطنی کبیرہ گناہوں کو ذکر کرنے اوران کی تعداد ساٹھ (60) بیان کرنے کے بعد فرمایا : ''ان کبیرہ گناہوں کی مذمت ان کے بڑے فساد، برے نتائج اور ہمیشہ رہنے والے اثرات کی وجہ سے زنا، چوری، قتل، اور شراب نوشی سے بھی زیادہ ہے، ان کے اثرات اس حیثیت سے باقی رہتے ہیں کہ وہ اس شخص کے حال اور اس کے دل کی ہیئت میں پختہ ہو جاتے ہیں، جبکہ اعضاء سے متعلق گناہوں کے اثرات توبہ واستغفار، گناہوں کو مٹانے والی نیکیوں اور مصائب سے جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ ﴿114﴾
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کو۔(پ 12، ھود: 114)
0 Comments: