حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کی طرف تشریف لے گئے تو حضرت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں گھٹنوں تک پانی تھا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی اونٹنی پرسوارتھے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اونٹنی سے اترے اور اپنے موزے اتا رکراپنے کندھے پررکھ لئے، پھر اونٹنی کی لگام تھام کرپانی میں داخل ہو گئے تو حضرت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی :''اے امیرالمؤمنین! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کام کررہے ہیں مجھے یہ پسند نہیں کہ یہاں کے باشندے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نظر اٹھا کر دیکھیں۔'' تو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا :''افسوس!اے ابوعبیدہ! اگریہ بات تمہارے علاوہ کوئی اور کہتا تو میں اسے اُمت محمدی علی صاحبھاالصلوٰ ۃ والسلام کے لئے عبرت بنا دیتا، ہم ایک بے سرو سامان قوم تھے، پھر اللہ عزوجل نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی، جب بھی ہم اللہ عزوجل کی عطا کردہ عزت کے علاوہ سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ عزوجل ہمیں رسوا کردے گا۔''
(120)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو تنگدستی نہ ہوتے ہوئے تواضع اختیار کرے اورجائز طریقہ سے حاصل کیا ہوا مال راہِ خدا عزوجل میں خرچ کرے اور محتاج ومسکین پررحم کرے اور اہل علم وفقہ سے میل جول رکھے۔''
(المعجم الکبیر، الحدیث:۴۶۱۶،ج۵،ص۷۲)
(121)۔۔۔۔۔۔مروی ہے کہ ''مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مقام قبا میں ہمارے ساتھ تھے جبکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم روزے سے تھے، افطارکے وقت ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت میں دودھ کا ایک برتن لے کر حاضر ہوئے جس میں ہم نے کچھ شہد بھی ملا دیا تھا، جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے اٹھا کر چکھا اور اس کی مٹھاس پائی تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دریافت فرمایا :''یہ کیا ہے؟'' ہم نے عرض کی :''یارسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ہم نے اس میں کچھ شہدملا دیا ہے۔'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے وہ برتن رکھ دیا اور ارشادفرمایا :''میں اسے حرام قرار نہیں دیتا مگرجو اللہ عزوجل کے لئے تواضع اختیارکرے تو اللہ عزوجل اسے رفعت عطا فرماتا ہے، جو تکبرکرے اللہ عزوجل اسے رسوا کر دیتا ہے، جو میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ عزوجل اسے غنی فرما دیتا ہے، جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ عزوجل اسے تنگدست کر دیتا ہے اور جو کثرت سے اللہ عزوجل کا ذکرکرتا ہے اللہ عزوجل اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔''
(اتحاف السادۃ المتقین ،کتاب الذم الکبر،ج۱۰،ص۲۵۳)
(122)۔۔۔۔۔۔اس حدیث پاک کوبزارنے بھی روایت کیا ہے مگراُس میں نہ تو مقام قبا کا ذکرہے نہ یہ الفا ظ ہیں کہ''جو اللہ عزوجل کا کثرت سے ذکرکرتاہے اللہ عزوجل اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔''
(123)۔۔۔۔۔۔اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی حدیثِ مبارکہ کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ ''حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک برتن پیش کیا گیا جس میں دودھ اور شہد تھا۔'' اس کے آگے یہ الفاظ ہیں: ''میں اس کو حرام نہیں جانتا۔'' مزید آگے الفاظ یہ ہیں :''جو کثرت سے موت کا ذکر کرتا ہے اللہ عزوجل اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔''
(اتحاف السادۃ المتقین ،کتاب ذم الکبر،ج۱۰،ص۲۵۳)
(124)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم چند صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ کسی جگہ کھانا تناول فرمارہے تھے کہ دروازے پر ایک ایسا سائل آیا جو ایک موذی وناپسندیدہ مرض میں مبتلا تھا لیکن پھر بھی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے اندرآنے کی اجازت مرحمت فرما دی، جب وہ اندر آیا توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے اپنے زانو مبارک کے ساتھ ملا کر بٹھا لیا اور اس سے ارشاد فرمایا :''کھاؤ۔'' تو قریش کے ایک شخص کو یہ بات ناگوار گزری اوراس نے نفرت کا اظہار کیا، پس وہ شخص اس وقت تک نہ مرا جب تک خود اسی موذی مرض میں مبتلا نہ ہو گیا۔''
(المرجع السابق، ص۲۵۴)
شیخ الاسلام زین عراقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس حدیث کی اصل نہیں ملی البتہ بعض ایسی روایات ملتی ہیں جن میں نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے کوڑھ میں مبتلا شخص کے ساتھ کھانا کھانے کا ذکرہے۔
(125)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباذنِ پروردگارعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جب اللہ عزوجل کسی بندے کو اسلام کی ہدایت دے، اس کی صورت بھی اچھی بنائے، اسے ایسی جگہ رکھے جو اسے عیب دارنہ کرے اورساتھ ہی اسے تواضع بھی عطا فرمادے تو وہ اللہ عزوجل کا مخلص دوست ہی ہو سکتا ہے۔'' (المرجع السابق، ص۲۵۶)
(126)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''چار چیزیں اللہ عزوجل اپنے محبوب بندہ ہی کو عطا فرماتا ہے: (۱)خاموشی اور یہی عبادت کی ابتداء ہے (۲)توکل (۳)تواضع (۴)اور دنیا سے بے رغبتی۔''
(المرجع السابق۲۵۶)
(127)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''چار چیزیں ایسی ہیں کہ جن تک پہنچنا عجیب ہے: (۱)خاموشی اور یہی عبادت ابتداء ہے (۲)تواضع(۳)ذکراللہ عزوجل اور (۴)کم چلنا۔
(المعجم الکبیر،الحدیث:۷۴۱،ج۱،ص۲۵۶)
(128)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کھانا تناول فرما رہے تھے:'' چیچک کے مرض میں مبتلا ایک حبشی شخص حاضرِ خدمت ہوا جس کی کھال مرض کی وجہ سے چِھل چکی تھی، وہ جس شخص کے قریب جا کر بیٹھتا وہ شخص وہاں سے اٹھ جاتا تو رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے اسے اپنے قریب بٹھا لیا۔ ''
(اتحاف السادۃ المتقین ،کتاب الذم الکبر،ج۱۰،ص۲۵۷)
(129)۔۔۔۔۔۔حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے استفسار فرمایا!کیا
بات ہے کہ میں تم میں عبادت کی مٹھاس نہیں پاتا؟''تو انہوں نے عرض کی :''عبادت کی مٹھاس کیا ہوتی ہے ؟'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''تواضع۔''
(المرجع السابق، ص۲۵۸)
(130)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ،، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''جب تم میری اُمت کے عاجزی کرنے والے لوگوں سے ملو تو تم بھی ان کے لئے تواضع کرو اور جب تکبرکرنے والوں سے ملو تو ان کے ساتھ تکبرسے پیش آؤ کیونکہ اسی میں ان کی ذلت اورحقارت ہے۔'' (المرجع السابق۲۵۸)
0 Comments: