(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا جریررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم دن کے ابتدائی حصہ میں دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضرِخدمت تھے کہ ایک برہنہ قوم حاضرہوئی، انہوں نے صرف اُون کی دھاری دار چادریں (یعنی ان چادروں کو سر کی جگہ سے کاٹ کر بطورِ لباس اوڑھا ہو ا تھا) یا پھر عبائیں پہن رکھی تھیں، وہ سب کے سب بنی مضر سے تھے اور انہوں نے گلے میں تلواریں لٹکا رکھی تھیں، ان کی فاقہ زدہ حالت دیکھ کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا چہرۂ اقدس متغیر ہو گیا، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنے دولت کدہ میں تشریف لے گئے، پھر جب باہرتشریف لائے تو حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا، انہوں نے اذان دی اور اقامت پڑھی، پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے نماز پڑھائی اور خطبہ ارشادفرماتے ہوئے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَالۡاَرْحَامَ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیۡکُمْ رَقِیۡبًا ﴿1﴾
ترجمۂ کنز الایمان: اے لوگواپنے رب سے ڈروجس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مردو عورت پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھوبے شک اللہ ہروقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔(پ4، النسآء:1)
اورسورہ حشرکی یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ لْتَنۡظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۚ
ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرواورہرجان دیکھے کہ کل کے لئے کیا آگے بھیجا۔(پ28، الحشر:18)
پھر ارشاد فرمایا :''کوئی دینار، درہم، لباس اور گندم اور کھجوروں کے صاع میں سے صدقہ دے۔'' یہاں تک کہ فرمایا: ''اگرچہ ایک کھجور ہی صدقہ کرے۔'' تو ایک انصاری ایک تھیلا لے کر حاضر ہوا، اس کا ہاتھ اسے اٹھا نہیں پا رہا تھا بلکہ وہ اسے اٹھانے سے عاجز تھا، پھر لوگ لگاتار آنے لگے یہاں تک کہ میں نے لباس اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے اور دیکھا کہ سرکارِ والا تَبار،بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا چہرۂ مبارک ایسے چمک اٹھا جیسے تیل لگا دیا گیا ہو( یعنی جیسے چاندی پر سونے کا پانی چڑھا دیا گیا ہو یہ دونوں خوشی اورسرورکی شدت کی طرف اشارہ ہیں) پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ کم نہ ہوگا، جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا اس پر اس طریقہ کو رائج کرنے اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔''
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ،باب الحث علی الصدقۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۳۵۱،ص۸۳۸)
(2)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''جس نے اچھا طریقہ جاری کیا، پھر وہ رائج ہو گیا تو اس کے لئے اس کا اپنا اجر اور اس طریقے کی پیروی کرنے والوں کا اجربھی ہے، نیز ان کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی، اور جس نے برا طریقہ جاری کیا پھر وہ رائج ہو گیا تو اس پر اپنا گناہ توہے ہی(ساتھ ہی ساتھ ) اس طریقے کی پیروی کرنے والوں کا گناہ بھی ملے گا، نیز ان پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہو گی۔''
(مجمع الزوائد، کتاب العلم، باب فیمن سن خیراً۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۷۷۰،ج۱،ص۴۰۹)
(3)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے اچھا طریقہ جاری کیا اس کی زندگی اور موت کے بعدجب تک اس طریقے پر عمل کیا جاتا رہے گا اسے اس کا ثواب ملتا رہے گا، اور جس نے برا طریقہ جاری کیا جب تک اسے چھوڑ نہ دیا جائے اسے اس کا گناہ ملتا رہے گا، اور جو جہاد کرتے ہوئے مرے گا قیامت کے دن اٹھنے تک اسے مجاہد کا ثواب ملتا رہے گا۔''
(المعجم الکبیر،الحدیث: ۱۸۴،ج۲۲،۷۴)
(4)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے میرے (وصال ظاہری کے)بعد میری کسی مٹی ہوئی سنت کو زندہ کیا تو اسے اس سنت پر عمل کرنے والوں کی مثل ثواب ملے گا اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی، اور جس نے گمراہی والی بدعت ایجاد کی جس سے اللہ عزوجل اور اس کا رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم راضی نہیں تو اسے اس پر عمل کرنے والوں جتنا گناہ ملے گا اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔''
(جامع الترمذی، ابواب العلم، باب ماجاء فی الاخذبالسنۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۶۷۷،ص۱۹۲۱)
(5)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے کسی شے کی طرف دعوت دی اسے قیامت کے دن اس کی دی ہوئی دعوت کے ساتھ اتنی دیرکھڑاکیاجائے گاجتنی دیر اس نے وہ دعوت دی ہو گی اگرچہ ایک شخص نے ایک ہی شخص کودعوت دی ہو۔''
(سنن ابن ماجہ ، ابواب السنۃ ، باب من سنۃ سنۃ حسنۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۰۸،ص۲۴۹۰)
(6)۔۔۔۔۔۔حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''یہ بھلائی کے کام (آخرت کے) خزانے ہیں اور ان خزانوں کی کچھ کنجیاں بھی ہیں، لہٰذا خوشخبری ہے اس بندے کے لئے جسے اللہ عزوجل اچھائی وبھلائی کی کنجی اور برائی و شر کا تالا بنا دے اورہلاکت ہے اس بندے کے لئے جسے اللہ عزوجل نے برائی کی کنجی اور بھلائی کا تالا بنا دیا ہو۔''
(المرجع السابق،باب من کان مفتاحاًللخیر،الحدیث: ۲۳۸،ص۲۴۹۲)
تنبیہ:
اس گناہ کو ان احادیثِ مبارکہ میں بیان کردہ سخت وعید کی بناء پر کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے اور وہ وعید گناہوں کا
دُگنا ہونا ہے۔ جو کہ عذاب کے اضافے کا سبب ہے، یہ اضافہ اتنا زیادہ ہو گا کہ حساب اسے شمار میں لانے سے عا جز ہو گا۔
سوال:اگر وہ رائج کردہ معصیت کبیرہ ہو تو بھی اسے کبیرہ گناہ کہنا درست نہیں، اور اگر کبیرہ نہ ہو تو اسے کبیرہ گناہ کہنا اِشکال میں ڈالتا ہے۔
جواب:اسے کبیرہ گنا ہ پر محمول کرنا زیادہ مناسب ہے، اگرچہ میں نے کسی کواس بات کی صراحت کرتے ہوئے نہیں پایا کہ اگر اس نے صغیرہ گناہ رائج کیا تو اس کے کبیرہ ہونے میں کوئی اِشکال نہیں کیونکہ جب اس نے غیر کے لئے اس گناہ کو رائج کیا اور پھر اس میں اس کی پیروی بھی کی گئی تو یہ زیادہ برا ہو گیا اور اس کی سزا بھی دُگنی ہو گئی، اس بناء پر وہ کبیرہ گناہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گیا کیونکہ کبیرہ کا گناہ تو اس سے فارغ ہونے پر ختم ہو جاتا ہے لیکن اس طرح رائج کردہ گناہ ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ ان دونوں صورتوں میں بہت فرق ہے، پھر میں نے بہت سے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کو دیکھا کہ انہوں نے دین میں نئی بات کا اضافہ کرنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا اور اس صحیح حدیثِ پاک سے استدلال کیا کہ
(7)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''جس نے (دین میں) کوئی نئی بات ایجاد کی اللہ عزوجل اس پر لعنت فرمائے۔''
ابن قیم ۱؎ سے منقول ہے :''یہ لعنت اسی ایجاد شدہ بات کے مختلف ہونے سے مختلف ہو جاتی ہے، جب وہ بات بڑی ہو تو گناہ بھی بڑا ہو جائے گا۔''
سیدناامام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں یہ حدیث،''جس نے گمراہی کی دعوت دی یا برا طریقہ رائج کیا '' بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔ اور اس میں ہماری بیان کردہ تفصیل کی تصریح موجود ہے۔
۱ ؎:ابن قیم ابن تیمیہ کا شاگر د خاص تھا،ان دونوں کے بارے میں امام حافظ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب فتاوی حدیثیہ میں فرماتے ہیں: ''ابن تیمیہ اور اس کے شاگر دا بن قیم جوزیہ وغیرہ کی کتابوں میں جوکچھ خرافات ہیں ان سے خودکوبچا کررکھناکیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنالیااور اللہ عزوجل نے جان کر ان کوگمراہیت میں چھوڑ دیا اور ان کے کانوں اور دل پرمُہر لگادی اور ان کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیاتو اللہ عزوجل کے سواکون ہے جوان کو ہدایت دے اور(افسوس)کیسے ان بے دینوں نے اللہ عزوجل کی حدود سے تجاوز کیا اوربدعتوں میں اضافہ کیا اور شریعت و حقیقت کی دیوار میں سوراخ کردیا۔ اوریہ سمجھ بیٹھے کہ ہم اپنے رب(عزوجل) کی طرف سے ہدایت پر ہیں جبکہ وہ ایسے نہیں ہیں بلکہ وہ توشدید گمراہی وگھٹیاعادات سے متصف ہیں اورانتہائی سخت سزاوخسارے کے مستحق ہیں اورانہوں نے جھوٹ و بہتان کی اِنتہاکردی ، اللہ عزوجل ان کے پیروکاروں کوذلیل ورسواکرے اور ان جیسوں کے وجودسے زمین کوپاک کرے ۔''(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(فتاوٰی الحدیثیہ ،ص ا۲۷)
......................)
0 Comments: