فارس اور روم کی دونوں سلطنتوں میں جنگ چھڑی ہوئی تھی اور چونکہ اہل فارس مجوسی تھے۔ اس لئے عرب کے مشرکین اُن کا غلبہ پسند کرتے تھے اور رومی چونکہ اہل کتاب تھے اس لئے مسلمانوں کو ان کا فتح یاب ہونا اچھا لگتا تھا۔ خسرو پرویز بادشاہ ِ فارس اور قیصر روم دونوں بادشاہوں کی فوجیں سرزمینِ شام کے قریب معرکہ آرا ہوئیں اور گھمسان کی جنگ کے بعد اہل فارس غالب ہوئے ۔مسلمانوں کو یہ خبر بڑی گراں گزری اور کفارِ مکہ اس خبر سے مسرور ہو کر مسلمانوں سے کہنے لگے کہ تم بھی اہل کتاب اور رومی نصاریٰ بھی اہل کتاب ،اور اہلِ فارس بھی آتش پرست اور ہم بھی بت پرست، ہمارے بھائی تمہارے بھائیوں پر غالب ہو گئے۔ اگر ہماری تمہاری جنگ ہوئی تو اسی طرح ہم بھی تم پر غالب ہوں گے۔ اس موقع پر قرآنِ مجید کی یہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں غیب کی خبر دی گئی ہے:۔
الٓـمّٓ ﴿1﴾ۚغُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ﴿2﴾فِیۡۤ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوۡنَ ۙ﴿3﴾فِی بِضْعِ سِنِیۡنَ ۬ؕ
ترجمہ کنزالایمان:۔رومی مغلوب ہوئے پاس کی زمین میں اور اپنی مغلوبی کے بعد عنقریب غالب ہوں گے چند برس میں۔(پ21،الروم:1۔4)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات کو سن کر کفارِ مکہ میں یہ اعلان کرا دیا کہ خدا کی قسم رومی اہل فارس پر غلبہ پاجائیں گے۔ لہٰذا اے اہل مکہ! تم اس وقت کے نتیجہ جنگ سے خوشی نہ مناؤ۔ چونکہ بظاہر رومیوں کے فتح یاب ہونے کے اسباب دور دور تک نظر نہ آتے تھے اس لئے ''ابی بن خلف'' آپ کے بالمقابل کھڑا ہو گیا اور آپ کے اور اُس کے درمیان سو سو اونٹ کی شرط لگ گئی کہ اگر نو سال کے اندر رومی غالب نہ آئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک سو اونٹ دیں گے اور اگر رومی غالب آجائیں تو ابی بن خلف ایک سو اونٹ دے گا۔ اُس وقت تک جوا اسلام میں حرام نہیں ہوا تھا۔ خدا کی شان کہ سات ہی برس میں قرآن کی اس غیبی خبر کی صداقت کا ظہور ہو گیا اور خالص صلح حدیبیہ کے دن ۶ ھ میں رومی اہل فارس پر غالب ہو گئے اور رومیوں نے ''مدائن''میں گھوڑے باندھے اور عراق میں ''رومیہ'' نامی شہر بسایا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شرط کے سو اونٹ ابی بن خلف کی اولاد سے وصول کرلئے کیونکہ وہ اس درمیان میں مرچکا تھا۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ شرط کے اونٹوں کو جو انہوں نے ابی بن خلف کی اولاد سے وصول کئے ہیں سب صدقہ کردیں! اور اپنی ذات پر کچھ بھی صرف نہ کریں۔
(مدارک التنزیل،ج۳،ص۴۵۸،پ۲۱، الروم: ۳)
درسِ ہدایت:۔فارس و روم کی جنگ میں رومی اس درجہ شکست کھا چکے تھے کہ ان کی عسکری طاقت ہی فنا ہو گئی تھی اور بظاہر اُن کے فتح یاب ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ مگر سات ہی برس میں رومیوں کو ایسی فتح حاصل ہو گئی کہ کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ غیبی خبر آپ کی صحتِ نبوت اور قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کی روشن دلیل ہے۔ سبحان اللہ! سچ ہے۔
ہزار فلسفیوں کی چناں چنیں بدلی! خدا کی بات بدلنی نہ تھی نہیں بدلی
0 Comments: