حضرت آدم اور حضرت حواء علیہما السلام نہایت ہی آرام اور چین کے ساتھ جنت میں رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا کہ جنت کا جو پھل بھی چاہو بے روک ٹوک سیر ہو کر تم دونوں کھا سکتے ہو۔ مگر صرف ایک درخت کا پھل کھانے کی ممانعت تھی کہ اس کے قریب مت جانا۔ وہ درخت گیہوں تھا یا انگور وغیرہ تھا۔ چنانچہ دونوں اس درخت سے مدت دراز تک بچتے رہے۔ لیکن ان دونوں کا دشمن ابلیس برابر تاک میں لگا رہا۔ آخر اس نے ایک دن اپنا وسوسہ ڈال ہی دیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں اور اللہ تعالیٰ نے جس درخت سے تم دونوں کو منع کردیا ہے وہ ''شجرۃ الخلد ''ہے یعنی جو اس درخت کا پھل کھائے گا، وہ کبھی جنت سے نہیں نکالا جائے گا۔ پہلے حضرت حوا علیہا السلام اس شیطانی وسوسہ کا شکار ہو گئیں اور انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اس پر راضی کرلیا اور وہ ناگہاں غیر ارادی طور پر اس درخت کا پھل کھا گئے۔
آپ نے اپنے اجتہاد سے یہ سمجھ لیا کہ لَاتَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ (پ۱،البقرۃ:۳۵) کی نہی تنزیہی ہے اور واقعی ہرگز ہرگز نہی تحریمی نہیں تھی۔ ورنہ حضرت آدم علیہ السلام نبی ہوتے ہوئے ہرگز ہرگز اس درخت کا پھل نہ کھاتے کیونکہ نبی تو ہر گناہ سے معصوم ہوتا ہے بہرحال حضرت آدم علیہ السلام سے اس سلسلے میں اجتہادی خطا سرزد ہو گئی اور اجتہادی خطا معصیت نہیں ہوتی۔
(تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۹۴،پ۱،البقرۃ:۳۶)
لیکن حضرت آدم علیہ السلام چونکہ دربارِ الٰہی میں بہت مقرب اور بڑے بڑے درجات پر فائز تھے اس لئے اس اجتہادی خطا پر بھی مورد ِ عتاب ہو گئے۔ فوراً ہی بہشتی لباس دونوں کے بدن سے گر پڑے اور یہ دونوں جنت کے پتوں سے اپنا ستر چھپانے لگے، اور خداوند قدوس کا حکم ہو گیاکہ تم دونوں جنت سے زمین پر اتر پڑو۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے دو خاص باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک تو یہ کہ تمہاری اولاد میں بعض، بعض کا دشمن ہو گا کہ ہمیشہ آپس میں انسانوں کی دشمنی چلتی رہے گی۔ دوسری یہ کہ عمر بھر تم دونوں کو زمین میں ٹھہرنا ہے پھر اس کے بعد ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس واقعہ کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ:
فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَقُلْنَا اہۡبِطُوۡا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ وَلَکُمْ فِی الۡاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿36﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔(پ1،البقرۃ:36)
اس ارشاد ربانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہ جو انسانوں میں مختلف وجوہات کی بناء پر عداوتیں اور دشمنیاں چل رہی ہیں یہ کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ لاکھ کوشش کرو کہ دنیا میں لوگوں کے درمیان عداوت اور دشمنی کا خاتمہ ہوجائے مگر چونکہ یہ حکم خداوندی کے باعث ہے اس لئے یہ عداوتیں کبھی ہرگز ختم نہ ہوں گی۔ کبھی ایک ملک دوسرے ملک کا دشمن ہو گا، کبھی مزدور اور سرمایہ دار میں دشمنی رہے گی، کبھی امیر و غریب کی عداوت زور پکڑے گی، کبھی مذہبی و لسانی دشمنی رنگ لائے گی، کبھی تہذیب و تمدن کے باہمی ٹکراؤ کی دشمنی ابھرے گی، کبھی ایمان داروں اور بے ایمانوں کی عداوت رنگ دکھائے گی۔
الغرض دنیا میں انسانوں کی آپس میں عداوت و دشمنی کا بازار ہمیشہ گرم ہی رہے گا اس لئے لوگوں کو اس سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ اس عداوت اور دشمنی کو ختم کرنے کی تدبیروں پر غوروخوض کر کے پریشان ہونے سے کوئی فائدہ ہے۔
کیونکہ جس طرح اندھیرے اور اجالے کی دشمنی، آگ اور پانی کی دشمنی، گرمی اور سردی کی دشمنی کبھی ختم نہیں ہوسکتی، ٹھیک اسی طرح انسانوں میں آپس کی دشمنی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کے زمین پر آنے سے پہلے ہی یہ فرما دیا کہ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ یعنی ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن ہو گا تو یہ عداوت و دشمنی خلقی اور فطری ہے جو حکم ِ الٰہی اور اس کی مشیت سے ہے تو پھر بھلا کون ہے جو اس عداوت کا دنیا سے خاتمہ کراسکتا ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: