حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستی کے معاملہ میں پہلے تو اپنی قوم سے مناظرہ کر کے حق کو ظاہر کردیا۔ مگر لوگوں نے حق کو قبول نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ کل ہماری عید کا دن ہے اور ہمارا ایک بہت بڑا میلہ لگے گا، وہاں آپ چل کر دیکھیں کہ ہمارے دین میں کیا لطف اور کیسی بہار ہے۔
اس قوم کا یہ دستور تھا کہ سالانہ ان لوگوں کا ایک میلہ لگتا تھا۔ لوگ ایک جنگل میں جمع ہوتے اور دن بھر لہو و لعب میں مشغول رہ کر شام کو بت خانہ میں جا کر بتوں کی پوجا کرتے اور بتوں کے چڑھاوے، مٹھائیوں اور کھانوں کو پرشاد کے طور پر کھاتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام قوم کی دعوت پر تھوڑی دور تو میلہ کی طرف چلے لیکن پھر اپنی بیماری کا عذر کر کے واپس چلے آئے اور قوم کے لوگ میلہ میں چلے گئے۔ پھر جو میلہ میں نہیں گئے آپ نے اُن لوگوں سے صاف صاف کہہ دیا۔
وَتَاللہِ لَاَکِیۡدَنَّ اَصْنَامَکُمۡ بَعْدَ اَنۡ تُوَلُّوۡا مُدْبِرِیۡنَ ﴿57﴾ (پ17،الانبیاء:57)
ترجمہ کنزالایمان:۔اور مجھے اللہ کی قسم ہے میں تمہارے بتوں کا برا چاہوں گا بعد اس کے کہ تم پھر جاؤ پیٹھ دے کر۔
چنانچہ اس کے بعد آپ ایک کلہاڑی لے کر بت خانہ میں تشریف لے گئے اور دیکھا کہ اس میں چھوٹے بڑے بہت سے بت ہیں اور دروازہ کے سامنے ایک بہت بڑا بت ہے۔ ان جھوٹے معبودوں کو دیکھ کر توحید ِ الٰہی کے جذبہ سے آپ جلال میں آگئے اور کلہاڑی سے مار مار کر بتوں کو چکنا چور کر ڈالا اور سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور کلہاڑی اُس کے کندھے پر رکھ کر آپ بت خانہ سے باہر چلے آئے۔ قوم کے لوگ جب میلہ سے واپس آ کر بت پوجنے اور پرشاد کھانے کے لئے بت خانہ میں گُھسے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اُن کے دیوتا ٹوٹے پھوٹے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک دم سب بوکھلا گئے اور شور مچا کر چلانے لگے۔
مَنۡ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَاۤ اِنَّہٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿59﴾ (پ17،الانبیاء:59)
ترجمہ کنزالایمان:۔ کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا بیشک وہ ظالم ہے۔
تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نے ایک جوان کو جس کا نام ''ابراہیم''ہے اس کی زبان سے ان بتوں کو برا بھلا کہتے ہوئے سنا ہے۔ قوم نے کہا کہ اس جوان کو لوگوں کے سامنے لاؤ۔ شاید لوگ گواہی دیں کہ اُس نے بتوں کو توڑا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بلائے گئے۔ تو قوم کے لوگوں نے پوچھا کہ اے ابراہیم!کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارے اس بڑے بت نے کیا ہو گا کیونکہ کلہاڑی اس کے کاندھے پر ہے۔ آخر تم لوگ اپنے ان ٹوٹے پھوٹے خداؤں ہی سے کیوں نہیں پوچھتے کہ کس نے تمہیں توڑا ہے؟ اگر یہ بت بول سکتے ہوں تو ان ہی سے پوچھ لو۔ وہ خود بتا دیں کہ کس نے انہیں توڑا ہے۔ قوم نے سرجھکا کر کہا کہ اے ابراہیم! ہم ان خداؤں سے کیا اور کیسے پوچھیں؟ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ بت بول نہیں سکتے۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جلال میں تڑپ کر فرمایا:۔ قَالَ اَفَتَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُکُمْ شَیْـًٔا وَّلَا یَضُرُّکُمْ ﴿ؕ66﴾اُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوۡنَ ﴿67﴾ (پ 17،الانبیاء:66۔67)
ترجمہ کنزالایمان:۔ کہاتو کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے اور نہ نقصان پہنچائے۔ تف ہے تم پر اور ان بتوں پر جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔
آپ کی اس حق گوئی کا نعرہ سن کر قوم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ شور مچایا اور چلا چلا کر بت پرستوں کو بلایا۔
حَرِّقُوۡہُ وَ انۡصُرُوۡۤا اٰلِہَتَکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ فٰعِلِیۡنَ ﴿68﴾ (پ17،الانبیاء:68)
ترجمہ کنزالایمان:۔ان کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کرنا ہے۔
چنانچہ ظالموں نے اتنا لمبا چوڑا آگ کا الاؤ جلایا کہ اس آگ کے شعلے اتنے بلند ہو رہے تھے کہ اس کے اوپر سے کوئی پرندہ بھی اُڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔ پھر آپ کو ننگے بدن کر کے ان ظلم و ستم کے مجسموں نے ایک گوپھن کے ذریعے اس آگ میں پھینک دیا اور اپنے اس خیال میں مگن تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جل کر راکھ ہو گئے ہوں گے، مگر احکم الحاکمین کا فرمان اس آگ کے لئے یہ صادر ہو گیا کہ
قُلْنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ69﴾ (پ17،الانبیاء :69)
ترجمہ کنزالایمان:۔ ہم نے فرمایا اے آگ ہوجا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر۔
چنانچہ نتیجہ یہ ہوا جس کو قرآن نے اپنے قاہرانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ
وَاَرَادُوۡا بِہٖ کَیۡدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَخْسَرِیۡنَ ﴿ۚ70﴾ (پ17،الانبیاء:70)
ترجمہ کنزالایمان:۔اور انہوں نے اس کا برا چاہا تو ہم نے انہیں سب سے بڑھ کر زیاں کار کردیا۔
آگ بجھ گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام زندہ اور سلامت رہ کر نکل آئے اور ظالم لوگ کف ِ افسوس مل کر رہ گئے۔
0 Comments: