حضور شیخ الاسلام اور انداز ِ خطابت
محمد نعیم برکاتی بن محمد سالار کپٹہال ،ہبلی،کرناٹک
خطیب ایسے کہ جس کی کوئی مثال نہیں
خطا بت ایسی کہ اک اک بیان خوشبو دے
آستا نئہ عالیہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ علم و عر فان ،طریقت اور ادب و تہذیب کا ہمیشہ مرکز رہا ہے ۔کیونکہ اس خاندان کچھوچھہ مقدسہ کا تعلق سلطان التا ر کین حضرت سید مخدوم اشرف جہا نگیر سمنانی علیہ الرحمہ سے ہے ، یہ خاندان گویا ولایت کی کان ہے جس کے افق سے ہمیشہ نسلاً بعد نسلٍ ولایت کے آفتاب طلوع ہوتے رہے ۔
چنانچہ صاحب کتاب ــ ـــــــــــــــــــ ’’مراۃ الاسرار‘‘حضرت شیخ عبدالرحمن چشتی علیہ الرحمہ (مُتو فی ۱۰۹۴)تحریر فرماتے ہیں ۔
ایک دن آپ (حضرت شیخ مخدوم اشرف سمنا نی علیہ الرحمہ )خوش وقت تھے اور ایک مرید کے حق میں بخشش و نوازش فر ما رہے تھے جب آپ کی نظر میر سید عبدالرازق(نور العین) پر پڑی تو فرمایا کہ میں نے اپنے آپ کو مکمل تجھ پر نثار کیا اور تجھ سے کوئی چیز دریغ نہیں کی اور تمہاری اولاد کے حق میں حق تعا لیٰ سے یہ درخواست کی ہے کہ ہمیشہ مقبول و مسعود رہیں ،اور تمہاری اولاد میں سے ہر طبقہ میں ایک رجال غیب اور مجذوب ہوگا اور وہ ایسا شخص ہوگا جس کے اندر میری حالت اُترآئے گی (مراۃ الاسرار صفحہ ۷۸۔ ۱۱۷۷)
حضور شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی الجیلانی قبلہ مدظلہ النورانی بھی اِنہیں (حضرت میر سید عبدالرازق نور العین علیہ الرحمہ) کی اولاد میں سے ہیں ۔اسی آستا نئہ عالیہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے تعلق سے نواسئہ حضور محدث اعظم ہند حضرت سید محمد قاسم اشرف قبلہ مد ظلہ العالی فرماتے ہیں:
ــ آستا نئہ عالیہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ ہندوستان کے قدیم ترین روحانی دینی اور تعلیمی مراکز میںسے ایک ہے ۔صدیوں سے علماء نوازی ،غر با پر وری اور دین و سنیت کی اشاعت اس خانقاہ کی پہچان رہی ہے ۔ یہاں کے مشائخ نے جہاں عوام کی دستگیری اور روحانی تسکین کا سامان کیا ہے وہیں علم و فضل سے بھی ان کا گہرا رشتہ رہاہے ۔آج بھی یہ آستانہ علمی، فکری، روحانی ،دینی و دنیاوی وسائل سے مالا مال ہے،اس کے شہزادگان و مشائخ کی ایک بڑی تعداد ہے جن میں ہر شخص اپنی صلاحیت ولیاقت کے لحاظ سے خدمت دین اور فلاح انسانیت کے کام میں مصروف ہے ۔اس وقت آستانے کی بڑی علمی شخصیت حضرت شیخ الاسلام سید مدنی میاں صاحب قبلہ کی زیر سر پرستی مُلکی اور بین الاقوامی سطح پر ’’محدث اعظم مشن‘‘ نہایت بڑے پیمانے پر کام کر رہا ہے جس کے تحت ہندوستان اور دیگر ممالک کے مختلف شہروں میں طلبہ و طا لبات کے لئے بہت سے جونیر اور ہائر سکینڈ ری اسکول، کالجز ،ITکا لج، اشا عتی ادارے ،دینی مد ارس ،تنظیمی ،تحریکی اور اشاعتی ادارے چل رہے ہیں ۔حضرت شیخ اسلام نے پچھلے سال کئی سالوں سے علمی و تحقیقی کام کے لئے خود کو وقف کررکھا ہے( ماہنامہ جام نور دہلی ، شمار ہ مئی ۲۰۱۰ 42 صفحہ)
جہاں تک حضرت کا انداز خطابت کا بیان ہے ایسا مقرر میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا،آج سے تقریباً تیس سال پہلے کی بات ہے میرے عزیز و بردار طریقت خلیفئہ حضور شیخ الاسلام مولانا قاضی سید شمس الدین صاحب قبلہ اکثر اپنی تقریر کے بعد مجھے پو چھتے کہ میری تقریرآپ کو کیسی لگی؟ تو میں جواب میں کہتا کہ حضور شیخ الاسلام کی تقریر کا انداز اپنا ئیے ،اس پر وہ یہی کہتے کہ’’ ارے یار ‘‘وہ تو اُنہیں پلایاگیا علم ہے جو اُنہیں ان کے والد مکرم حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ سے وراثت میں ملا ہے ۔
حضور شیخ الاسلام کی اسی شان خطا بت کے تحت نبیرہ ء رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری (علیہ الرحمہ) و مد یر ما ہنامہ جام نور دہلی ،علامہ خوشتر نورانی (علیگ)رقمطرازہیں ۔
ـسلطان التارکین حضرت شیخ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ اور سادات کچھوچھہ مقدسہ کا علمی ،دینی ،اور روحانی فیضان صدیوں سے سر زمین ہند اور اس کے اطراف و اکناف کی دنیا پر موسلا دھار بارش کی طرح برستا رہا ہے ۔آج اس خانقاہ کی شخصیات مختلف میدان عمل کے سر براہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔خصوصا ً حضور شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی الجیلانی قدس سرہ علمیت اور خطابت کے استعارے کے طور پر جانے جاتے ہیں(ما ہنامہ جام نور دہلی شمارہ مئی ۲۰۱۰ء صفحہ 40)
حضرت اگر کسی موضوع پر گفتگو کرتے تو اس قدر گہرائی میں چلے جاتے کہ سننے والا یہی سوچتا کہ یہ تو کسی کتاب میں تلاشنے سے ملنے والا علم نہیں بلکہ بعطائے ربی (روحانی) علم ہے جو اُنہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا اس کی ایک دو مثال پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں
ایک تقریر کے دوران یوں ارشاد فرمایا ۔
ٍحدیث مبارکہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا (اول ما خلق اللّٰہ القلم )یعنی اللہ جل شانہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ(انما خلق اللہ اللّوح )یعنی بے شک اللہ نے لوح کو پیدا فرمایا ،پھر تیسری جگہ ارشاد فرمایا (انما خلق اللہ العرش )یعنی بے شک اللہ نے عرش کوپہلے پیدا فرمایا ۔مگر ہمارے رسول ﷺ نے تو ارشاد فرمادیا کہ( اول ما خلق اللہ نوری )یعنی اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا گویا چار چیزوں کی پیدا ئش سب سے اول ہوئی ۔
لیکن یہاں پر ایک سوال ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ سب سے پہلے کس چیز کی تخلیق ہوئی قلم پہلے پیدا ہو ایا لوح ؟ عرش پہلے پیدا ہوا یا نور محمد ﷺ ؟ الغرض صحیح کیا ہے ؟ میں سوچ میں پڑ گیا کہ معمہ کس طرح سمجھا جائے ؟پھر حضرت نے اس کا جواب یوں ارشاد فرمایا کہ چاروں صحیح ہیں ۔وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ ہمارے رسول ﷺ قلم بھی ہیں اور لوح بھی ،عرش بھی ہیں اور نور بھی گویا عرش بھی آپ ﷺہیں اور لوح بھی آپ ﷺ ہیں ۔قلم بھی آپ ﷺہیں اور نور بھی آپ ﷺ ہیں ۔
پس دوسرا سوال ذہن میں یہ اُبھرتا ہے کہ قلم جب آپ ﷺ ہی ہیں تو وہ کس طرح؟ اورلوح بھی آپ ﷺ ہی ہیں تو وہ کیسے ؟ عرش جب آپ ﷺ ہیں تو وہ کس طرح ؟ اور نور بھی آپ ﷺہیںتو وہ کیسے؟ ان چار سوالوں کے جوابات اگر معلوم کرنا ہوتو حضرت کی تقریروں کو سننا پڑیگا ،کیونکہ حضرت جب بیان کرنا شروع کرتے یو ںایک ہی چیز پر گھنٹوں بیان کرتے ،صرف ایک ہی لفظ پر گھنٹوں تقریر کرتے میں نے خود حضرت کو قرآن کریم کے صرف ایک ہی لفظ پر گھنٹوں تقریر کرتے دیکھا ہے ۔جیسے لفظ 1:جائوک 2:ویز کیھم 3: نور،وغیرہ ۔
مزید تفصیل کے لئے اور مذکورہ بالا چاروں سوالوں کے جوابات کو ،ملاحظہ کرنے کے لئے میری تحریر کردہ کتاب ’’معا رف اسم محمد ﷺکا ‘‘مطالعہ کریں ،جس کا رسم اجراء خود حضور شیخ الاسلام نے اپنے دست مبارک سے فرما یا ۔
اسی طرح ایک اور جگہ مورخہ۶ ۲ذی لقعدہ ،۱۴۲۱ھ ،بمطابق۲۰ فروری ،۲۰۰۱ء کو بمقام آستانئہ عالیہ درگاہ ہاشم پیر علیہ الرحمہ بیجاپور میں عرس چہلم حضرت سید شاہ عبداللہ حُسینی علیہ الرحمہ (سجادہ نشین درگاہ حضرت سیدہاشم پیرعلیہ الرحمہ )کے موقع پر حضور شیخ الاسلام نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے ایک شعرکی تشریح اس قدر بہترین اور دلکش انداز میں بیان فرمائی کہ اسٹیج پر بیٹھے علماء تک عش عش کر گئے اور یہ لفاظی نہیں بلکہ حقیقت ہے چنا نچہ ملاحظہ ہو۔
ایک آسمان تووہ ہے جیسے آپ سمائے دنیا کہتے ہیں ،یہاں سے جونظر آرہا ہے یہ آسمان مگر دوستو صوفیا کی نظر کچھ اور ہے ان کی نظر میں ایک اورآسمان ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آسمان اور ہے وہ بھی سمائے دنیا ہے اور اس کو بھی خدانے ستاروں سے آراستہ کردیا ہے اور وہ ستارے بھی شیا طین پر رجم کر رہ ہے ہیں،اوراس معنی کی طرف امام احمد رضا کا ایک شعر جواس مفہوم کی طرف ذہن کو لے جاتا ہے ۔
رضا یہ نعت نبی ﷺ نے بلند یاں بخشیں
لقب زمین فلک کا ہو ا سما ئے فلک!
(حدائق بخش)
ذرا سا آپ دیکھیں اور سوچیں زمین فلک ،سمائے فلک ،لقب زمین فلک کا ہوا،سمائے فلک ،اور دیکھئے یہ زمین جواس آسمان کے نیچے ہے یہ تو زمین فلک (یعنی فلک کی زمین یا آسمان کی زمین ) جو اس آسما ن کے نیچے ہے ۔تو یہ اس آسمان کی زمین ہے نا؟ تویہ زمین اُسی آسمان کی آسمان بن جائے ،یہ زمین اس آسمان کی طرف اشارہ کرکے یہ کہے کہ وہ آسمان ،اور آسمان اس زمین کی طرف اشارہ کرکے یہ کہے کہ یہ آسمان ،اور کچھ ستاروں پر نظر زمین کی ہے ،آسمان نے کہا کہ یہ آسمان ۔
تو زمین جو آسمان کی آسمان ہے یہ زمین خوداس آسمان کا فلک ٹھہری،اور یہ آسما ن اس زمین کا فلک ٹھہرا (تو پتہ یہ چلا ) وہ آسمان اس زمین کا فلک ،اور یہ زمین اُس آسمان کا فلک ،اور واقعی دوستو! یہ فلک (زمین)توایسا فلک ہے کہ وہ فلک (آسمان) بھی اس پرناز کرتا ہے ۔
آپ خودکہیں گے کہ عرش معلی تو بہت اونچی چیز ہے نا ؟۔۔۔۔۔عرش معلی! ۔۔۔۔۔۔کبھی عرش سے پوچھو کہ خود اُس کا عرش کیا ہے ؟۔۔۔۔۔حضرت شیخ با یزید بسطامی عالم روحانیت کی سیر کرتے ہوئے مراقبہ کی دنیا سے گزر رتے ہو ئے پہنچتے ہیں(عرش کی طرف )۔روحانی دنیا کی سیر کرتے ہوئے عرش کی طر ف پہنچے ۔عرش کے قریب جب پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیںعرش کوکہ سر گرداں ہے۔عرش کو سر گرداںدیکھتے ہیں ،جیسے کسی کی تلاش میں ہے ۔اور عرش سے پو چھتے ہیں کہ اے عرش! توتو خدا کی تجلی گاہ ہے ،تیرے لئے تو ــ’’ثم استوٰی علی العرش ‘‘(پارہ نمبر ۱۱سورئہ یونس آیت نمبر ۳)کے الفاظ ہیں ،توخدا کی خاص جلوہ گاہ ہے ،تجھے کس کی تلاش ہے ؟۔۔۔۔ کہا : با یزید !۔۔۔تم سے تو یہ کہا جاتا ہے کہ میں عرش پر ہوں (لیکن) مجھ سے یہ کہا جاتا ہے میں ’’دل ‘‘مومن کا ہوں ۔میں دل مومن ہوں ۔۔۔۔۔توتو میری تلاش میں ،میں تیری تلاش میں !اللّٰھم صل وسلم علی سید نا ومولانامحمد وعلی آل سیدناومولانا محمد کماتحب وتر ضٰی بان تصلی علیہ
میں حضرت شیخ بایزید بسطامی ہی کا ایک اور واقعہ سنادوں! ۔۔۔۔۔۔ایک صاحب کو شوق ہوگیا، کہ خواب انہوں نے دیکھا ۔خواب کیا دیکھاتھا ؟۔۔۔۔۔ ـ’’میں عرش الٰہی کو سر پہ لے جارہا ہو ں‘‘۔بڑا عجیب خواب تھا سوچا چلو بسطام شہر میں حضرت شیخ بایزید بسطامی سے( اس خواب کی ) تعبیر پو چھیں ۔جب وہاں پہنچے تو پتہ چلاکہ حضرت کا وصال ہو گیا ہے ،کہا کہ چلواچھا ہوا ،کم سے کم کاندھا تو دے لیں گے اور نماز پڑھ لیں گے ۔یہ بات تو ہے تو خواب کی تعبیر نہیں مل سکی ۔اب اس کے بعد ہجوم اتنا ! کہ کاندھا دینا بھی مشکل ! مگر کیسے ؟۔۔۔۔۔کوشش کرتے کرتے جنازے کے نیچے گھس گئے ۔ اب اُسی کے اندر ذرا سا تھوڑی سی عافیت جو محسوس کی تو چلتے چلتے سوچتے ’حضور !میں آیا تھا ایک خواب کی تعبیرپوچھنے ‘کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ’’میں عرش الٰہی کو لے کے چل رہا ہو ں‘‘۔۔۔۔۔اندر سے آواز آئی :’’یہی تیرے خواب کی تعبیر ہے ‘‘۔۔۔۔۔۔قلب المؤمن عرش اللہ ۔۔۔۔۔مومن کا قلب ،عرش الٰہی ہے ۔۔۔۔۔مومن کا قلب ،عرش الٰہی ہے ۔تو دوستو! کچھ ہی دنوں پہلے تم نے زمین کے انداز عرش الٰہی کواتارا ہے (یعنی حضرت شاہ سید عبد اللہ حسینی علیہ الرحمہ ۔جن کا اس روزعرس چہلم منایا گیا)۔اللّٰھم صل وسلم علی سید نا ومولانامحمد وعلی آل سیدناومولانا محمد کماتحب وتر ضٰی بان تصلی علیہ
مومن کا دل جو ہے ،وہ عرش الٰہی ہے ۔اب عرش تو اپنے عرش کی تلاش میں ہے ۔۔۔۔۔ہم اس عرش کی تلاش میں ہیں وہ اپنے عرش کی تلاش میں ہے ۔۔۔۔۔۔زمین اُسے آسمان کہہ رہی ہے ۔آسمان ، اسے (زمین کو )آسمان کہہ رہا ہے ۔
رضا یہ نعت نبی ﷺ نے بلند یاں بخشیں
لقب زمین فلک کا ہوا سما ئے فلک!
تو یہ زمین جو ہے ، یہ بھی ستاروں کی جگہ ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ستاروں کے رہنے کی جگہ ہے ۔تو قرآن یہ کہنا چا ہتا ہے کہ ہم نے اس فرش زمین کو ستاروں سے مزین کردیا ہے اور ان ستاروں کو شیا طین کے لئے رجم بنادیا ہے (وجعلنھا رجوماً للشطین ۔پارہ نمبر ۲۹،سوئہ ملک آیت نمبر ۵)ان ستا روں کو شیا طین کے لئے ہم نے رجم بنا دیا ہے۔ یہ ستارے کون ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ان ستاروں کو نہیں سمجھتے تم ؟۔۔۔۔۔ اصحابی کا لنجوم(حدیث۔ مشکوۃ شریف باب مناقب الصحابہ،الفصل الثالث) ۔۔۔۔۔یہ میرے سارے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ۔۔۔۔۔۔ العلما ء نجوم الارض ،یہ علماء جو ہیں ،یہ زمین کے ستارے ہیں ۔علماء اُمتی کا النجوم بھا یخر ف البحر والبر ۔۔۔۔۔۔۔۔علمائے امت جو ہیں ،تویہ ستاروں کی طرح ہیں۔جن سے ہدایت حا صل کی جا تی ہے بحروبر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان سے ہدایت حاصل کی جارہی ہے ۔تو یہ زمین کے ستارے !۔۔۔۔۔۔۔۔یہ زمین کے ستارے !۔۔۔۔ ذرا سا آپ خیا ل کریں ، فلااقسم بمواقع النجوم (پارہ نمبر ۲۷،سورئہ واقعہ آیت نمبر ۷۵)۔۔۔۔۔۔۔۔میں قسم یاد فرماتا ہوں ستاروں کے رہنے کی جگہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں قسم یاد فرماتا ہوں ستاروں کے رہنے کی جگہ کی!۔۔۔۔یہ اولیائے کرام کے مزارات جو ہیں ،یہ ستاروں کے رہنے کی جگہ ہیں(تفسیر روح البیان )۔ فلااقسم بمواقع النجوم!۔۔۔۔۔۔۔۔میں ان کے رہنے کی جگہوں کی قسم یاد فرماتا ہوں ۔الخ
وما علینا الاا لبلاغ المبین ۔
آپ ایک ہی وقت منقولات پر کامل دسترس رکھتے ہیں ۔علم منطق و فلسفہ اور ہر چیز کے اسرار و رموز بیان کرنے میں آپ کو کافی مہارت حاصل تھی صرف یہی نہیں آپ ایک بین الاقوامی سطح کے خطیب اورتفقہ فی الدین میں منفرد، مسند ر شد و ہدایت کے پیکر و زینت اور معتبر ادیب و شاعر بھی ہیں ،جس وقت آپ نے تبلیغ اسلام و خدمت مسلک حقہ کی غرض سے دنیا ئے خطابت میں قدم رکھا تو فن خطابت کو چار چاند لگاتے ہوئے جلد ہی اپنے کو صف اول کے خطیبوں میںشما ر کروا لیا ۔تبلیغی مساعی میں خطابت اور سفر کی مصرو فیات کے ساتھ ساتھ جب جب ضرورت پیش آئی اور موقع ملا آپ نوک قلم سے بھی دین متین اور مسلک حقہ کی خدمت کا مو قع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور نہایت ہی انداز میں معاملات کو سلجھا کر مسا ئل کا شرعی حل ،علماء امت اور عوام اہلسنت کے سامنے پیش کیا ۔چنانچہ غزالی دوراں حضرت علامہ شاہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ نے آپ کی تصنیف لطیف "ویڈیو اور ٹی وی کا شرعی استعمال" کے سلسلے میں آپ کو رئیس المحققین کے خطاب سے نوازا۔
برطانیہ کے علاوہ امریکہ اور کینیڈا ایک وسیع و عریض بر اعظم پر مشتمل ہے ،جہاں کام کرنے کیلئے علحٰدہ سے ایک عمر خضر درکار ہے ۔حضور شیخ الاسلام نے ۱۹۹۰ء سے یہاں کا دورہ شروع کیا اور بڑے بڑے شہروںمیں جاکر اپنی خطابت کا لوہا منواتے ہوئے یہاں بھی سنیت کا گلشن آباد کرنے کیلئے تخم ریزی کردی اوراسی فیضان نظر سے جس سے آپ کو خدمت لوح وقلم کا شعور ملا اپنے خلفا ءکو سیراب کردیا جو انشا ءاللہ ایک دن یہاں ایک نئی دنیا بسا دینگے۔ گلوبل اسلامک مشن نیویارک یو۔ایس۔اے کے زیر اہتمام حضور شیخ الاسلام کی تحریر کردہ تفسیر قرآن سید التفا سیرا المعروف تفسیر اشرفی کی اشاعت مسا عئی جمیلہ کی ایک کڑی ہے ۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ حضور شیخ الاسلام نے نہ صرف جانشینی کا حق ادا کر دیا بلکہ جا نشین کہتے کسے ہیں اس کا عملی کردار پیش کر دکھایا ۔
شیخ الاسلام کا صرف دل ہی نہیں بلکہ ان کی لیا قت وخطابت بھی عشق مصطفی ﷺسے مستنیر ہے ۔ان کا دماغ عظمت رسالت کاا سیر ہے اور ان کی زبان بابرکت رسول کریم ﷺ کی ثنا خواں ہے ۔ ان کی ایک ہی خواہش ایک ہی تمنا اور ایک ہی تڑپ ہے کہ ملت کا ہر فرد ہر وقت عشق محمد ﷺ اور ہمہ وقت جمال محمدی ﷺکو اپناآئیڈیل بنالے ،کیونکہ حقیقت محمدی ﷺسے قریب ہونا تمام حقیقتوں سے قریب ہونا ہے اور یہی اصل کامیابی ہے ۔
حضور شیخ الاسلام نے اپنی منفرد شان خطابت کے حوالے سے جب دیار غیر، برطانیہ کی سر زمین پر قدم رکھا تواس کی برکت سے سر زمین برطانیہ روشن ستارے کی طرح اُفق پر جگمگانے لگی۔ بقول فیض احمد فیض۔
سنسان راہیں خلق سے آباد ہوگئی
ویراں میکدوں کا نصیب سنور گیا
ایسا اس لئے ہواکہ دیگر خطباءو مقررین کے برعکس اختلافی مسائل حضور شیخ الاسلام کا نقطئہ نظر خا صا متوازن لب ولہجہ ،متین و سنجیدہ اور انداز سلجھا ہوا تھا ۔اس اعتبار سے حضور شیخ الاسلام ایشیا ئی خطابت کا وہ فکر ہیں جس نے اپنی پر کشش و معجز نما خطابت سے حلقئہ اسلام سے وابستہ افراد کو پختہ اور ناوابستہ کو پیوستہ کرنے کا کام کیا ۔
حضرت کا انداز بیان صرف دینی ہی نہیں بلکہ سا ئنٹیفک طرز استدلال کی جھلک بھی آپ کی خطابت میں نمایا ں طور پر نظر آتی ہے ۔جس نے آپ کے ان خطبات کو بہت ہی بلند اور معیار اعلیٰ پر پہنچا دیا ہے ۔ان سائنٹیفک استدلالات اور سائنسی طرز تفہیم نے یہ ثابت کردیا کہ عقائد اہلسنت نقلی اور سماعی نہیں ہے کہ ہمارے اسلا ف نے فرما دیا تو اسے آنکھ بند کرکے بلاچوں و چرا قبول کر لینا ہی چاہئے۔ بلکہ یہ عقا ئد و احکام صرف دینی واسلامی ہی نہیں بلکہ عقلی اور سائنسی بھی ہیں جو موجودہ ذہن و فکر کو جھنجوڑتے ہیں، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو سائنس سے منافی ہو۔ایک پڑھا لکھا اور جانب دار دانشور سطح کا انسان اگر ان خطبات کو پڑھ لے گا یا سنے گا تواس کاایمان و عقائد اس قدر پختہ ہو جائے گا کہ بد مذہبیت کو وہ اپنے قریب بھی آنے نہ دیگا ۔
حضور شیخ الاسلام حالات کے اعتبار سے اپنے تقاریر کے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں ۔ حضرت کے پاس خوبصورت الفاظ کاایک وسیع تر ذخیرہ ہے۔ جس سے دوران تقریر محسوس ہوتا ہے کہ واقعی ہر لفظ اس مقام کے لائق ہے ۔الفاظ کی مرصع کاری ان کے یہاں عام ہے ۔علمی وادبی زبان ان کی خطابت کا نمایا ں پہلو ہے اور ان کے دائرہ خطابت میں صوتی آہنگ کا بھی ایک منفرد مقام ہے ان کے لہجے کہیںپر زور ہیں، تو کہیں پر دھیمے، کہیں گرجدار، تو کہیں سبک رو ،غرض جیسی گفتگو ویسا صوتی آہنگ ،جیسا عنوان ویسا لہجہ ،جیسا موضوع ویسا انداز، علمی موضوعات کیلئے الگ تکلم،اصلاحی موضوعات کیلئے ایک الگ رنگ اور اصلاحی موضوعات کیلئے الگ آہنگ ۔دوران خطابت جہاں کہیں علمی گفتگو ہو اسے آسان زبان میں ڈھالنا جیسے ایک عام شخص بھی سمجھ سکے یہ انہی کا حصہ ہے ۔تشبیہات و استعارات کی زبان میں عمدہ مثا لیں دے کر سمجھانے میں انہیں کافی مہا رت ہے کہ عدم ابلاغ خطابت کا بہت بڑا نقص ہے ، کیونکہ جب سننے والے کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ سامنے والا کیا کہہ رہا ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کاوہ خطاب اس کے لئے بے سود ہوگا اس سلسلے میں حضرت کا ابلاغ عام موثر ترین ہے ،جو سامعین کے دلوں میں خود بخود راہ بناتا چلا جاتا ہے۔
آپ کی شخصیت عنصر تخلیقیت کا مظہرا تم ہے ۔ایک پرانی بات کو نئے انداز میں پیش کرنا اور اس کیلئے نئے نئے انداز وطریقے وضع کرنا وہ اچھی طرح جانتے ہیں تاکہ سامعین اس گفتگو کی تہہ تک پہنچ جائیں ،فالتو عنوانات کو موضوع سخن بنانا لفاظی بکنا ،ان کی شخصیت وذہن کے منا فی ہے.
ایک اچھے خطیب کی شناخت یہ ہے کہ جو بھی وہ پیش کرے ،مستنددلائل سے پیش کرے جس کی صحت پر کوئی کلام نہ ہو ،وہ غیر معیاری باتوں کو اپنے تقریر میں نہ لاتا ہو ،اس کے علاوہ تحقیقی و تخریجی مزاج اس مقرر کے اندر پایا جاتا ہو ،جو خود اُمہات الکتب تک دسترس رکھتا ہو یہ ساری باتیں حضرت میں موجود ہیں ۔مزاج تحقیق و تخریج آپ کے پاس دلائل و براہین کا انبار آپ کے پاس ہے ۔مستند وا قعات و علمی نکات کا بحر نا پیدکنار آپ کے پاس ہے۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مقرر جذ بات کی رومیں ایسی سطح پر آجاتا ہے جہاں وہ اپنی خطابت کی سطح سے گر جاتا ہے ،جب جذبات بے قابو ہوں تو اس وقت خطیب کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ حضور شیخ الاسلام کی خطابت میں مبتذل ،نا شائستہ اور غیر شستہ جملے ہر گز نہیں ملیں گے ۔رد ابطال ورد وہابیہ میں بھی وہ ذرہ برابر ابتذال و رکاکت کی گہرائی میں نہیں جا پڑتےبلکہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ بد مذہبوں کا رد بلیغ فرماتے ہیں ،گویا آپ کی خطابت ، حکمت و موعظت حسنہ کا گنجنئہ گرا نما یہ ہے۔
حضرت سیدتنا عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے۔ــ’’کلموا لناس علیٰ قدر عقولھم ‘‘ یعنی لوگوں سے ان کے عقل و فہم کے مطابق بات کرو۔حضور شیخ الاسلام کے سارے خطا بات کا مطالعہ کرکے آپ دیکھ لیں کہ جملہ خطبات’’کلموا لناس علیٰ قدر عقولھم ‘‘کی بہترین تفسیر ہے، احترام نفسیات آپ کی خطابت کا اہم جز ہے ۔
آج کا یہ دور سا ئنٹیفک دور ہے، اس زمانے میں ایسی کوئی بات بھی قبول کرنے میں تامل ہوتا ہے ،جو غیر علمی و غیر معقول او ر سا ئنٹیفک نظریہ کے خلاف ہو ۔حضور شیخ الاسلام کے سامعین اچھی طرح جا نتے ہیں کہ ان کی خطابت اس طرح کے سا ئنٹیفک طرز استدلال سے لبالب ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے خطابات اپنوں اور غیروں میں یکسا ں مقبول ہیں ۔
الغرض یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے حضور شیخ الاسلام ا پنی دیگر نمایاں ترین خوبیوں اور بہترین خصوصیات کے ساتھ ایک اہم ترین خطیب کی حیثیت سے بھی سامنے آئے ہیں۔
بڑے خوش نصیب ہیں وہ حضرات جن کی شخصیت میں اللہ جل شانہ نے خطابت کی خوبیاں جمع کردی ہیں ،اور ان سے بھی زیادہ سعادت مند ہیںوہ حضرات جو علم و فکر کے کوہ ہمالیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم ترین خطیب بھی ہیں ۔حضور شیخ ا لاسلام کا تعلق دوسرے زمرے سے ہے ،کوئی ضروری نہیں کہ جو عالم دین ہو ،شیخ طریقت ہو ،استاد ہو، مصنف ہو،وہ ایک اچھا خطیب ہو ،مگر خانقاہ اشرفیہ کے بزرگوں کا یہ بے پناہ فیض و کرم ہے حضور شیخ الاسلام پر ،کہ ان کی شخصیت میں یہ ساری صفات موجود ہیں صحیح معنوں میں قیادت وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے اندر خوبیوں کے ساتھ ساتھ خطابت کا ملکہ بھی ہو ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قیادت خطابت کی کنیز ہے ۔عوام الناس کو جتنی جلدی آسان اور بہترین طریقے سے خطابت کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور ان کےاذہان و افکار کو موڑ ا جاسکتا ہے ۔وہ صرف خطابت کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ ایسا خطیب ہمیں میسر آیا جوان ساری صفحات و خوبیوں کا جامع ہے ۔دعا ہے کہ اللہ جل شانہ حضر ت کا سایہ جملہ اہلسنت پر دراز سے درازتر فرمائے ، اوران کی قلمی ،فکری و عملی نقوش کو ہمارے لئے مشعل راہ بنائے اور ہماری اس سعی کو قبول فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الکریم افضل الصلوۃ والتسلیم ۔
آخر میں میری ایک التماس یہ ہے کہ حضرت کی زیادہ تقاریر جو کیسٹ اور سی ڈیز ( CDS)کی شکل میں جہاں موجود ہوں انہیں اکٹھا کرکے اسے صفحہ قرطاس پہ لایا جائے ،اور ایک اچھی خاصی کتابی شکل دی جائے میں سمجھتا ہو ں یہ عموماً عوام الناس اور خصوصاً علماء کرام کیلئے ایک بہترین اور نایاب سرما یہ ہوگا اور آنے والی نسلوں کیلئے بھی ایک یاد گار علمی ذ خیرہ ہوگا ۔
0 Comments: