حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس بے سروسامانی کے ساتھ ہجرت فرمائی تھی اور صحابہ کرام جس کسمپرسی اور بے کسی کے عالم میں کچھ حبشہ، کچھ مدینہ چلے گئے تھے۔ ان حالات کے پیش نظر بھلا کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ آ سکتا تھا کہ یہ بے سروسامان اور غریب الدیار مسلمانوں کا قافلہ ایک دن مدینہ سے اتنا طاقتور ہو کر نکلے گا کہ وہ کفار قریش کی ناقابل تسخیر عسکری طاقت کو تہس نہس کر ڈالے گا جس سے کافروں کی عظمت و شوکت کا چراغ گل ہو جائے گااور مسلمانوں کی جان کے دشمن مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہلاک و برباد ہو جائیں گے۔ لیکن خداوند علام الغیوب کامحبوب دانائے غیوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہجرت سے ایک سال پہلے ہی قرآن پڑھ پڑھ کر ا س خبر غیب کا اعلان کر رہا تھا کہ
ہَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوۡنَ خِلٰفَکَ اِلَّاقَلِیۡلًا ﴿۷۶﴾
(1)
اگر وہ تم کو سرزمین مکہ سے گھبرا چکے تاکہ تم کو اس سے نکال دیں تو وہ اہل مکہ تمہارے بعد بہت ہی کم مدت تک باقی رہیں گے۔(بنی اسرائیل)
چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور ایک ہی سال کے بعد غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح مبین نے کفار قریش کے سرداروں کا خاتمہ کر دیا اور کفار مکہ کی لشکری طاقت کی جڑ کٹ گئی اور ان کی شان و شوکت کا جنازہ نکل گیا۔
0 Comments: