۶۱۴ء میں روم اور فارس کے دونوں بادشاہوں میں ایک جنگ ِعظیم شروع ہوئی چھبیس ہزاریہودیوں نے بادشاہ فارس کے لشکرمیں شامل ہوکرساٹھ ہزارعیسائیوں کا قتل عام کیا یہاں تک کہ ۶۱۶ میں بادشاہ فارس کی فتح ہوگئی اور بادشاہ روم کا لشکر بالکل ہی مغلوب ہوگیا اور رومی سلطنت کے پرزے پرزے اڑگئے۔ بادشاہ روم اہل کتاب اور مذہباً عیسائی تھا اور بادشاہ فارس مجوسی مذہب کا پابند اور آتش پرست تھا۔ اس لیے بادشاہ روم کی شکست سے مسلمانوں کو رنج و غم ہوا اورکفار کو انتہائی شادمانی و مسرت ہوئی۔ چنانچہ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا اور کہنے لگے کہ تم اور نصاریٰ اہل کتاب ہو اور ہم اور اہل فارس بے کتاب ہیں جس طرح ہمارے بھائی تمہارے بھائیوں پر فتح یاب ہو کر غالب آ گئے اسی طرح ہم بھی ایک دن تم لوگوں پر غالب آجائیں گے۔ کفار کے ان طعنوں سے مسلمانوں کو اور زیادہ رنج و صدمہ ہوا۔
اس وقت رومیوں کی یہ افسوسناک حالت تھی کہ وہ اپنے مشرقی مقبوضات کا ایک ایک چپہ کھو چکے تھے۔ خزانہ خالی تھا۔ فوج منتشر تھی ملک میں بغاوتوں کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ شہنشاہ روم بالکل نالائق تھا۔ ان حالات میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بادشاہ روم بادشاہ فارس پر غالب ہو سکتا تھا مگر ایسے وقت میں نبی صادق نے قرآن کی زبان سے کفار مکہ کو یہ پیش گوئی سنائی کہ
الٓـمّٓ ﴿۱﴾ۚغُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ﴿۲﴾فِیۡۤ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوۡنَ ۙ﴿۳﴾فِی بِضْعِ سِنِیۡنَ ۬ؕ
(1)
رومی مغلوب ہوئے پاس کی زمین میں اوروہ اپنی مغلوبی کے بعدعنقریب غالب ہوں گے چندبرسوں میں۔(روم)
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ صرف نو سال کے بعد خاص ''صلح حدیبیہ'' کے دن بادشاہ روم کا لشکر اہل فارس پر غالب آ گیا اور مخبر صادق کی یہ خبر غیب عالم وجود میں آگئی۔
0 Comments: