علم و عمل اور اِخلاصِ نیت
یوں ہی اِس بات کی بھی کوشش کرنا کہ کسی قسم کی عبادت
و ریاضت میں اسی وقت مشغول ہونا جب تمہیں اس کا وافر اور قطعی علم ہو جائے،کیوں کہ
تمہارے سامنے ایسے اہل زہد و تصوف کی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں جنھوں نے علم کے بغیر
عبادت شروع کر دی اور انجام کار راہِ راست سے بھٹک گئے۔
خوبصورت کپڑوں میں خود کو مزین رکھا کرو،وہ تمہیں دنیا
داروں کے آگے جھکنے سے روکے رکھیں گے، یوں ہی زاہدوں کے درمیان مشہور نہ ہونے دیں گے۔
یوں ہی ہمہ وقت اپنی نگاہوں، اپنی باتوں اور اپنے قدموں
کا محاسبہ کرتے رہنا،کیوں کہ ان کی بابت تم سے مواخذہ ہونا ہے،اور تم جتنا اپنے
علم سے فائدہ اُٹھاؤ گے وہ اتنا ہی تمہارے سامعین کے لیے نفع رساں ہو گا،ورنہ جب
واعظ و خطیب اپنے علم پر خود عمل پیرا نہیں ہوتاتواس کی پند و نصیحت لوگوں کے دلوں
سے ایسے ہی پھسل جاتی ہے جس طرح پانی چٹان سے بہ آسانیپھسل جاتا ہے۔
لہٰذا جب بھی وعظ کہنا ہو اِخلاصِ نیت کے ساتھ کہنا۔حتی
کہ چلنا پھرنا کھانا پینا بھی خلوصِ نیت کے ساتھ کرنا،(کیوں کہ نیت کا اَجر بے پایاں
ہے)۔پھر جب تم سلف صالحین کے اخلاق و کردار کا مطالعہ شروع کر دو گے تو معاملات کی
گرہیں اَز خود تم پر منکشف ہونا شروع ہو جائیں گی۔
(اپنے لختِ جگر کے لیے
مصنف ابن جوزی
مترجم علامہ محمدافروز القادری چریاکوٹی
0 Comments: