تجارت بہترین پیشہ ہے
(تالیف: محمداسماعیل تاجر،ہانگل)
حضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’’تجارت کرو کہ اس میں رزق کے دس حصوں میں سے نوحصے رکھے گئے ہیں‘‘
’’مولوی‘‘دہلی 1360ھج میں لکھاہے کہ’’ عہداموی ،عباسی میں پوری دنیا کی تجارت کے مالک عرب ہی تھے‘‘۔یعنی مسلمان ،جاپان اورجاواسے لے کر ناروے اور سویڈن تک ان کے مال لدے ہوئے جہازپہنچتے تھے۔دنیا کے ہرحصہ میں ان کی تجارتی کوٹھیاں قائم تھیں۔مسلمان اورتجارت دومترادف الفاظ بن گئے تھے۔ایک دفعہ بغدادمیں کسی شخص کے متعلق گفتگوہورہی تھی۔ایک صاحب نے دوران گفتگو میں اس کانام سن کر حیرت سے کہا’’ وہ مسلمان ہے اورتجارت نہیں کرتا؟‘‘حضرت فاروق کی تویہ حالت تھی کہ آپ عربوں کوزراعت سے بالعموم روکتے تھے اورحکم جاری کردیا تھاکہ جوعرب ،عجم،مصرشام وغیرہ میں جابسے ہیں وہ زراعت نہ کریں اور یہ کام وہیں کے لوگ کے لئے چھوڑدیں۔حضرت عمرفاروق کاارادہ یہ تھاکہ مسلمان ارشادنبویﷺ پہ چل کر کثیررزق حلال پیداکریں تاکہ دنیوی ودینی ترقی حاصل ہوجائے۔حضرت عبدالرحمان بن عوفپہلے پہل کچھ گھی اورپنیر لے کرپھیری کی تجارت شروع کی تھی آگے چل کرآپ کواس قدرترقی ہوئی کہ مرتے وقت لاکھوں روپیہ کی جائیدادچھوڑمرے۔حضرت خواجہ حسن بصری جواہرات کے تاجرتھے۔آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ حضرت امام اعظم کس درجہ کے تاجرتھے۔
یہاں پران بزرگانِ دین کے قصے بیان کرنے کی غرض صرف یہ تھی کہ جس خدانے ان کوبنی نوع انسان کی اصلاح کے لئے بھیجاتھا وہ یہ نہیں چاہتاتھاکہ جس کی اصلاح کرے اس کامعاوضہ اسے کےسامنے ہاتھ پھیلاکرلے لیں۔ بلکہ وہ وحدہ‘ لاشریک تعلیم دیتاہے کہ ہرایک انسان کواپنی روزی کمانے کی طاقت عطاکی گئ ہے اپنے پیٹ کے واسطے وہ کسی دوسرے انسان کوتکلیف نہ دے۔ مگرافسوس اللہ اور رسول ﷺکی تاکیدکے باوجودمسلمانوں ہی میں ایسے لوگ نکلے ۔جنہوں نے اسلام کوبٹالگایا۔ اسلام چاہتاہے کہ مسلمان کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاکرذلیل وخوارنہ ہو۔جس قدراللہ اوررسول ﷺنے بھیک مانگنے کوحرام کیا شایدہی اس سے بھی زیادہ مسلمانوں کے ایک طبقہ نے بھیک مانگنے کوحلال کرنے کی کوشش کی۔
خود نبی کریمﷺاورآپکا تمام خاندان تجارت پیشہ تھا۔ آپ پہلے تجارتی نمائندہ کاکام کرتے تھے۔جب ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے (جوارضِ مکہ کی ملکۂ تجارتھیں)عقدہوگیا توپھر حضورﷺنے مالکانہ تجارت شروع کردی ۔حضورﷺ شام اوربحرین تک تجارتی سفرکرتے تھے۔حضورﷺ فرماتے ہیں۔ ’’تمہارے بیع وشریٰ حلال ہے اورسودحرام ہے‘‘پھرفرمایا ’’دلیرتاجر کماتا ہے اوربزدل تاجرکھوتاہے‘‘اورپھرارشادفرمایا’’امانتداراوردیانتدار تاجر قیامت کے روز جب اٹھے گا تواس کاچہرہ ماہِ شب چہاردہم کی طرح چمکتاہوگا‘‘خودحضرت عمرفاروق جیسے جلیل القدرصحابی فرمایاکرتے تھے ’’مجھے اس جگہ سے زیادہ کوئی محبوب جگہ نہیں جہاں میں اپنے اہل وعیال کے لئے بیع وشریٰ میں مصروف رہوں اوروہیں موت آجائے‘‘ حضرت عمرفاروق چھوٹے پیمانہ پرتجارت شروع کرکے اتنی ترقی پائی کہ ایران تک اس کی شاخیں قائم ہوگئیں۔
یہودیوں کودیکھئےکہ ایک زمانہ میں ان کی سلطنت دنیا کے بڑے حصہ میں پھیلی ہوئی تھی۔اس کے بعد تین ہزاربرس کازمانہ ہوچکا ہے۔ان کے ہاتھوں سے سلطنت نکل گئی تھی۔اوران پربڑے بڑےحملے ہوئے۔بڑی بڑی تباہیاں آئیں۔نہ کہیں گھررہانہ وطن۔جس ملک میںرہے ۔لٹتے رہے،نکالے گئے،قتل ہوئے،جرمنی اورآسٹریامیں بُری طرح خارج کئے گئے۔مگرچونکہ ان کے ہاتھ میں تجارت رہی۔کاروبری قوم تھی۔اس لئے کسی زمانہ میں بھی ان کومحتاجی کا سامنا نہ ہوا۔ہمیشہ اورہرزمانہ میں خوشحال رہے۔بلکہ دولتمندسمجھے جاتے رہے اورآج بھی وہ دنیاکی متمول قوم کئے جاتے ہیں اورسب سے بڑا کام جوانہوںنے کیاوہ یہ کہ نئے سے سلطنت حاصل کیا۔یہ سب کچھ جو ملاتجارت ہی کی بدولت ہے۔
انگریزوں کے حالات کامطالعہ کیجئے تجارت کرتے ہندوستان آئے۔اواس کے فرمانروا بن گئے۔صدیاںحکومت کرتے رہے۔یہاں تک کہ پاؤں ہاتھ پڑکردے دلاکرواپس بھیجے گئے۔ دنیا کے ہرچھوٹے بڑے کاروباران کے ہاتھوں میں ہیں۔دنیاوالوں کی حالت آج بھی ایسی ہےکہ وہ دیں توکھائیں وہ نہ دیں توبھوکے مریں۔ تجارت اپنے ہاتھ میں رکھ کر آج بھی دنیاپرحکومت کررہے ہیں۔ ہندوستان کودیکھئےآزادی حاصل کرچکاہے۔پھربھی وہ مؤدبانہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرفریادہےکہ پٹرول دیجئے ورنہ موٹربندپڑیں گے۔مٹی کاتیل دیجئے ورنہ گھرمیں اندھیراپڑجائے گا۔لپٹن چائے دیجئے ورنہ طلبِ چائے حیران وپریشان کردے گی۔کپڑادیجئے ورنہ ننگوٹی پہ رہنا پڑے گا۔بسکٹ دیجئے ورنہ بچے شوروغل مچائیں گے۔ضروریات زندگی کے لئے جتنے چیزیں اللہ نے پیداکیاہے۔ان تمام پرانگریزوں کا قبضہ یاکنٹرول ہوچکاہے۔ہندوستان جیسے زبردست ملک انگریزوں کی مدد کے زندگی کاٹ نہیں سکتے۔توخیال کیجئے کہ انگریزوں کی تجارت کاکیا حال ہوگا؟
ہندوؤں کی باقاعدہ سلطنت پرسوں بنی ہے مگر اپنی تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے عہدمیں بھی دولتمندرہے۔ اس کے بعد انگریزوں کے زمانے میں بھی دولتمندہی رہے۔اورآج بھی وہ دولتمندرہنے کاحق رکھتے ہیں کیوں کہ باقاعدہ تجارت کررہے ہیں ۔آپ پارسی قوم کودیکھئے حاکم تو نہیں ہیںتعدادبھی تھوڑی ہے۔لیکن تجارت کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے امیرانہ زندگی بسرکررہے ہیں۔اورہرقسم کے عیش انہیں حاصل ہیں۔
پیغبراسلام کااعلان’’ تجارت میں رزق کے دس حصوں میں سے نوحصے رکھے گئے ہیں‘‘ بالکل صحیح ہے حضور ﷺاس چیزکوسمجھتے تھے ۔ خدائے قدوس نے انہیں سب کچھ بتادیاہے۔اس لئے انہوں نے مسلمانو ں کے لئے بہترین پیشہ تجارت ہی قراردیا اوراسی کی ترغیب دی۔
تجارت میں سب سے بڑاشرف یہ ہے کہ اس میں نسبتاً بہت کم محنت ہوتی ہے اورمزدوری بھی زیادہ ملتی ہے۔ساتھ ہی ساتھ
عقل بھی بڑھتی ہے کیونکہ ہرقوم اور ہرطرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتاہے اس لئے تمام انسانی خصائل واطوارکی تربیت ہوتی رہتی ہے۔تمام نیک عادتیں جمع ہوتی چلی جاتی ہیں۔ایک تاجرکواپنی تجارت کے کامیاب بنانے کے لئے خوش اخلاقی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اگرتاجر خوش اخلاق نہیں تواس کی تجارت ہرگزخاطرخواہ ترقی نہیں کرے گی۔بدعقلی توکاروبار کی تباہی کاباعث بن جائے گی۔اس لئے تاجرخوش اخلاقی اختیارکرنے پرمجبورہے۔اسی زمانے میں مسلمانوں کی تجارتی ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حسن اخلاق سے کام نہیں لیتے۔تجارتی کامیابی کے لئے تاجرجتناشیریں زبان اورخوش اخلاق بنتا ہے ۔لوگ اتنے ہی زیادہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
دوسری چیزدیانت ہے۔بددیانت تاجرکے پاس کوئی نہیں جاتااس لئے تجارت کی بدولت انسان میں خوش اخلاقی اوردیانتداری کے جوہرپیداہوتے ہیں ۔تیسری چیزکفایت شعاری ہے۔جب تک تاجر کفایت شعاراورآمدنی کاحساب کتاب برابر کرکے نفع میں خرچ نہیں کرتاتب تک تجارتی اصول کوپہنچ ہی نہیں سکتاکیونکہ فضول خرچ تاجر اپنے بھنڈول ہی کی صفائی کردے گا۔آج ہندوستان میں مسلمانوں سے زیادہ کوئی قوم فضول خرچ نہیں ۔پوری قوم غریب ہے، بے علم ہے، بے روزگار ہے،آمدنیاں محدودہیں ۔پھربھی ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا کمال سمجھتے ہیں۔فضول خرچی کی تعریف اللہ جل شانہٗ نے یوں کی ہے۔’’ بے جا اوربے محل خرچ نہ کروکہ جوایساکرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں ‘‘دوسری جگہ ارشاد ہوتاہے’’جولوگ اپناروپیہ لوگوں کودکھانے اور نمود ونمائش کے لئے خرچ کرتے ہیں شیطان ن کاساتھی ہوجاتاہے یہ ساتھی کتنا بُراساتھی ہے‘‘ فضول خرچ تاجر نہ باقاعدہ آمدنی کاحساب رکھتاہے نہ خرچ کا۔اس لئے بہت جلد تباہ ہوجاتاہے کفایت شعاربننے کے لئے ضرورحساب کتاب رکھناپڑتاہے۔جس تاجرنے باقاعدہ حساب کتاب رکھااورکفایت شعاری سے کام لیا یقیناًوہ ایک دن متمول اور قابل قدر آدمی بن جائے گا۔
چوتھی چیز تاجر کوعاقبت اندیشی سے کام لیناہوگا۔اگراس سے کام نہ لیاتونفع نہ ہوگا۔مسلمان جوبڑے بڑے علاقے ،بڑے بڑے خزانے جوبربادکردئے۔اسی غفلت کی وجہ تھی کہ کبھی سوچانہیں کہ آگےچل کرکیاہوگا۔قرضوں پرقرضے لیتے گئے۔یہاں تک کہ سب کچھ کھوبیٹھے ،تاجرصرف بھروسہ پرکام کرتاہے۔دیکھئے کچھ مال خریدتاہے پھررقم اداکرتاہے مال اسی کے پاس چھوڑآتاہےجیسا اس تاجر نے کسی دوسرے تاجرپربھروسہ کرکے اپنامال اسی کی منڈی میں چھوڑ آیااس پربھروسہ پرکہ وہ ضرور اس کے دکان پہونچادے گا۔ویسا ہی تاجراللہ پربھروسہ کرتاہےکہ ضروراللہ اس کواس کی تجارت میں فائدہ دے گا۔اوریقیناً فائدہ ہوجاتاہے۔یہ تمام باتیں تاجر میں ہمت اورصبر پیداکرتی ہیں اور یہ کتنی اچھی باتیں ہیں۔تاجرزبان کاپکااور وعدہ کی پابندی کرنے والاہوتاہے۔جس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ تجارت خودبہترین اخلاق کامعلم ہے۔
0 Comments: