کہ کل کی طرح ہوا مشکبار آج بھی ہے
جو آپ کے ہیں ہمیں ان سے پیار آج بھی ہے
جو غیر ہے وہ مخالف شمار آج بھی ہے
حیاتِ حضرتِ مقبو ل پُر سخاوت تھی
طلب کے واسطے ان کا دیار آج بھی ہے
غریب سب درِ مقبول کے سوالی ہیں
سخاوتیں وہ کرم کی بہار آج بھی ہے
انہیں کے نام کا بجتاہے ہر طرف ڈنکا
کہ بچّہ بچّہ ہر اک جاںنثارآج بھی ہے
شرابِ دیں پلائی تھی خواب میں شہ نے
فداؔ کو عشقِ نبی کا خما رآج بھی ہے
محترم دوستو
دوبارہ ضرورتشریف لائیے
0 Comments: