نکاح کا شَرْعی حکم
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یاد رکھئے!!اگر شہوت اس حد تک بڑھ جائے کہ نَفْس پر قابو پانا مشکل ہوجائے اور اِرتکابِ گُناہ کا غالب گمان ہو تو شادی کرنا واجب اور یقین ہو تو شادی کرنا فرض ہوجاتا ہے جبکہ نان نفقہ اور ادائیگیِ مہر اور دیگر حُقوق کی ادائیگی کی استطاعت ہو جیساکہ حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد اَمجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا بہت زیادہ غلبہ ہو نہ عنّین (نامرد) ہو اورمَہر و نفقہ پر قدرت بھی ہو تو نکاح سُنّتِ مؤکدہ ہے کہ نکاح نہ کرنے پر اڑا رہنا گناہ ہے اور اگر حرام سے بچنا یا اتباعِ سُنّت و تعمیلِ حکم یا اولاد حاصل ہونامقصودہے تو ثواب بھی پائے گا اور اگر محض لذّت یا قضائے شہوت منظور ہو تو ثواب نہیں ۔ شَہْوت کا (اگر اس قدر) غَلَبہ ہے کہ نکاح نہ کرے تو مَعَاذَ اللہ اندیشۂ زنا ہے اور مہر ونفقہ کی قدرت رکھتا ہو تو نکاح واجب۔ يوہيں جبکہ اجنبی عورت کی طرف نگاہ اُٹھنے سے روک نہیں سکتا یا مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہاتھ سے کام لینا پڑے گا تونکاح واجب ہے (اور اگر صرف اندیشہ نہیں بلکہ)یہ یقین ہو کہ نکاح نہ کرنے میں زنا واقع ہو جائے گا تو فرض ہے کہ نکاح کرے۔ اگر یہ اندیشہ ہے کہ نکاح کریگا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کر سکے گا تومکروہ ہے اور ان باتوں کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام مگر نکاح بہرحال ہو جائے گا۔ (1)
________________________________
1 - بہارِ شریعت ، حصہ۷ ، ۲ / ۵
0 Comments: