شوہر کو کیسا ہونا چاہئے؟
1۔ شوہر کو چاہئے کہ وہ حسنِ اَخلاق ، نرم مِزاجی ، رحمدلی کے ساتھ اپنی بیوی سے پیش آئے۔ اُسے تکلیف نہ پہنچائے ، گالی نہ دے ، حیا سے عاری ، اَخلاق سے گرے ہوئے بازاری الفاظ نہ بولے ، مسکراتے چہرے سے ملاقات کرے ، خُوشحالی اور تنگدستی ہر حالت میں اس سے میٹھی اور عُمدہ گفتگو کرے ، بیوی کو احساس دلائے کہ میرے دل میں تمہارا بلند مقام ہے۔
2۔ شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی پر ظُلم و زِیادَتی نہ کرے ، اس کے حُقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ برتے بلکہ عدل و انصاف قائم رکھے۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان کے درمیان بھی عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے ، کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہونے سے گُریز کرے ، رسولِ کریم ، رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے کسی ایک کی طرف اُس کا میلان زیادہ ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کا ایک پہلو مفلوج ہوگا۔ (1)خود ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی تعلیمِ اُمّت کیلئے اپنی ازواجِ مطہرات میں عدل و انصاف کا خُوب خیال فرماتے چنانچہ اُمُّ المومنین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : رسولُ الله صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے ہاں قیام کی تقسیم کے معاملے میں ہم میں سے کسی کو کسی پر فضیلت و ترجیح نہیں دیتے تھے۔ (2)
3۔ شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کے راز کو اپنے سینے میں چُھپائے رکھے نیزاس کی امیدوں ، دُکھوں اور اچھی بُری باتوں یا عادتوں کو بِلامَصْلِحت کسی پر ظاہر نہ کرے ، اس کے حسنِ ظاہر اور حسنِ باطن کو غیروں بالخصوص مَردوں پر ظاہر نہ کرے ، خاص طور پر صحبت کے وقت کے راز تو اشارتاًبھی بیان نہ کرے۔ یہ سخت نا جائز و حرام اور حیا سے عاری کام ہے ، حدیثِ مُبارَکہ میں ہے : اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن بَدترین شخص وہ ہوگا جو اپنی عورت کے قریب جائے اور عورت اس کے پاس جائے پھر وہ شخص اس کا راز ظاہر کردے۔ (3)
4۔ شوہر کو چاہئے کہ گھریلو کاموں میں بیوی سے ہونے والی غلطیوں سے درگُزر کرے اور گالی گلوچ کرنے ، مارنے پیٹنے اور جِھڑکنے کے بجائے پیار سے سمجھائے كيونكہ عورت عموماً نرم دل ہوتی ہے اور محبت چاہتی ہے لہٰذا نرمی و پیار سے سمجھانے سے بات اُس کی سمجھ میں آجائے گی۔ اس کے بَر خِلاف اگر شوہر بیوی کی غلطیوں کی تاک اور عیبوں کی تلاش میں رہے گا تو لڑائی جھگڑا ہوتا رہے گا اور شیطان خُوشی مناتا رہے گا کیونکہ وہ یہی تو چاہتا ہے کہ میاں بیوی میں فساد برپا ہوجائے اور ان کی زندگی اجیرن بن جائے۔
5۔ شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کی دینداری ، حسنِ اَخلاق اور اعلیٰ فضائل و خصائل پر نظر رکھے ، صرف اس کے ظاہر کو نہ دیکھے ، باطن پر بھی توجّہ دے۔ ظاہری حسن دھوکہ ہوتا ہے اور باطنی حسن قیمتی ہوتا ہے جو ہمیشہ قائم رہتا ہے۔
6۔ شوہر کو چاہئے کہ وہ خود بھی نماز روزے کی پابندی اور دیگر نیک کام کرے اور اپنی بیوی کو بھی نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے ، سنَّتوں پر عمل کرنے اور عبادات بجالانے کی ترغیب دیتا رہے ، دین کے ضروری مسائل سیکھنے میں اُس کی مدد کرے ، قرآنِ پاک کی تلاوت اور مختلف کاموں سے پہلے کی مسنون دعائیں پڑھنے کی تلقین کرے ، اسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں صدقہ و خیرات کی ترغیب دلائے تاکہ دل سے مال کی محبت نکلےاور آخرت بہتر ہو ، غرض یہ کہ بال بچوں کی اصلاح کی کوشش جاری رکھنی چاہئےاللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ(پ۲۸ ، التحریم : ۶)
تَرْجَمَۂ کنز الایمان : اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔
7۔ شوہر کو چاہئے کہ اپنی بیوی کی خُوشنودی کی خاطر ظاہری باطنی صفائی کا خیال رکھے داڑھی مونچھ اور سر کے بالوں کا مناسب بندوبست رکھے ، تیل کنگھی کا اِہْتِمام کرے ، اندرونی بالوں کی مناسب وقت پر صفائی کرے ، صاف ستھرا لباس زیبِ تن کیا کرے اور شریعت کی حد میں رہتے ہوئے ہر اعتبار سے زینت اختیار کرے۔ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : بلاشُبہ میں اپنی بیوی کے لئے زینت اختیار کرتا ہوں جس طرح وہ میرے لئے بناؤ سنگھار کرتی ہے اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں وہ تمام حُقُوق اچھی طرح حاصل کروں جو میرے اُس پر ہیں اوروہ بھی اپنے حُقُوق حاصل کرے جو اس کے مجھ پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَلَـھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾(اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا اُن پر ہے شرع کے مُوافق)اورآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ بیویوں کے ساتھ اچھی صحبت اور بہترسُلوک خاوندوں پر اسی طرح لازم ہے جس طرح بیویوں پر ہر اُس (جائز) کام میں خاوندوں کی اطاعت واجب ہے جس کا وہ اُنہیں حکم دیں ۔ (1)
8۔ جب بیوی کسی تکلیف ، دُکھ درد اور مشکل میں ہو یا بیمار ہوجائے تو شوہر کو چاہئے کہ
اُس کا ساتھ دے ، اُس کے ساتھ حقیقی ہمدردی کرے ، بیماری میں بیوی کی کیفیت کے مطابق اُسے گھریلو کام کاج میں مُناسب رِعایت دے اور اُس کا ہاتھ بھی بٹائے ، اُس کی پریشانی دور کرنے اور علاج مُعالجہ کروانے کی طرف خُصُوصی توجّہ دے ، اس معاملے میں سُستی و بے پروائی ، بخل و کنجوسی یا بیزاری کا مُظاہَرہ کرنا باہمی محبت اور گھریلو ماحول پر منفی اثرات مُرتّب کرتا ہے۔
9۔ شوہر کو چاہئے کہ اگر بیوی کبھی کسی بات پر روٹھ جائے تو خود بھی خَفا ہوجانے کے بجائے اُسے مَنانے کی کوشش کرے اور یہ باتیں پیشِ نظر رکھے کہ جب میں خود روٹھتا ہوں تو وہ بھی مجھے مَناتی اور میرے ناز نخرے اُٹھاتی ہے ، آج اگر وہ ناراض ہوگئی تو کیا ہوا ، وہ بھی تو آخر انسان ہے ، اُسے بھی تو کسی بات پر غُصّہ آسکتا ہے ، میں اُسے پیار محبت سے مَنا لوں گا تو کونسی قیامت آجائے گی وغیرہ وغیرہ۔ یاد رکھئے ! بیوی کے روٹھ جانے پر اُسے اہمیَّت نہ دینا اور ناراض چھوڑ دینا بے مُروّتی کی بات ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مرد کو اگر عورت پر فضیلت عطا فرمائی ہے تو عورت کو بھی کئی اعتبار سے عظمتیں عطا کی ہیں ۔
________________________________
1 - ترمذی ، کتاب النکاح ، باب ماجاء فی التسویة بین الضرائر ، ۲ / ۳۷۵ ، حدیث : ۱۱۴۴
2 - ابو داؤد کتاب النکاح ، باب فی القسم بين النساء ، ۲ / ۳۵۳ ، حدیث : ۲۱۳۵
3 - مسلم ، کتاب النکاح ، باب تـحریم افشاء سر الـمرأة ، ص ۵۷۹ ، حدیث : ۳۵۴۲
1 - تفسیرقرطبی ، پ ۲ ، البقرة ، تحت الاية : ۲۲۸ ، ۲ / ۹۶
0 Comments: