ہم نے ان سطور کوخلافِ دُستور اس لئے مقدم کردیا تا کہ یہ اللہ عزوجل کی مشیئت سے نافرمانیوں اور گناہوں کی ان حدود میں داخل ہونے سے روکنے کا ذریعہ بن جائیں جوہلاکت وبربادی اور سلامتی کے گھر یعنی جنت سے دور کردینے والی اور دنیا اورآخرت میں ہلاکت، ذلت ورسوائی اور تباہی وبربادی کوواجب کرنے والی ہیں۔
(اللہ عزوجل تمہیں اورمجھے اپنی اطاعت کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہمیں اپنی رضاکی وسعتوں تک پہنچائے،آمین)
اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو اپنی ربوبیت کے اسرار سکھا کر اپنی نافرمانی سے ڈرایا اورنافرمانی کو اپنے قہر وجبروت اور وحدانیت پر حملہ قرار دیا۔ چنانچہ،
(۱) اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :
فَلَمَّاۤ اٰسَفُوۡنَا انۡتَقَمْنَا مِنْہُمْ
ترجمۂ کنزالایمان: پھرجب انہوں نے وہ کیا جس پر ہمارا غضب ان پر آیا۔(پ 25،الزخرف:55)
(2) فَلَمَّا عَتَوْا عَنۡ مَّا نُہُوۡا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ ﴿166﴾
ترجمۂ کنزالایمان: پھر جب انہوں نے ممانعت کے حکم سے سرکشی کی ہم نے ان سے فرمایا ہوجاؤ بندر دھتکارے ہوئے ۔(پ 9،الاعراف :166)
(3) وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوۡا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہۡرِہَا مِنۡ دَآبَّۃٍ
ترجمۂ کنزالایمان: اور اگر اللہ لوگوں کواُن کے کئے پر پکڑتا تو زمین کی پیٹھ پرکوئی چلنے والا نہ چھوڑتا۔(پ 22،فاطر :45)
(4) وَمَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الْمُؤْمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَسَآءَتْ مَصِیۡرًا ﴿115﴾٪
ترجمۂ کنزالایمان :اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑدیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بر ی جگہ پلٹنے کی( پ 5،النسآء : 115)
(5) مَنۡ یَّعْمَلْ سُوۡٓءًا یُّجْزَ بِہٖ ۙ وَلَا یَجِدْ لَہٗ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا ﴿123﴾
ترجمۂ کنزالایمان :جو برائی کریگا اس کا بدلہ پائے گا اور اللہ کے سوا نہ کوئی اپنا حمایتی پائے گا نہ مدد گار۔*(پ 5، النسآء : 123)
اس ضمن میں اور بھی بہت سی آیات پیش کی جا سکتی ہیں (مگر انہی کو کافی سمجھتے ہوئے اب اس ضمن میں مروی احادیث مبارکہ پیش کی جائيں گی)۔
(47)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''اللہ عزوجل نے کچھ فرائض مقرر کئے ہیں لہٰذا تم انہیں ہرگز ضائع نہ کرو، کچھ حدیں قائم کی ہیں تم ہرگزان سے نہ گزرو، کچھ چیزیں حرام کی ہیں انہیں ہرگز ہلکا نہ جانو اور اس نے تم پر رحمت فرماتے ہوئے دانستہ کچھ چیزوں سے سکوت فرمایاہے لہٰذا ان کی جستجونہ کرو۔''
(سنن الدارقطنی، کتاب الرضاع، الحدیث:۴۳۵۰،ج۴،ص۲۱۷)
(48)۔۔۔۔۔۔ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ ''اللہ عزوجل غیور ہے اور مؤمن بھی غیرت مند ہے جبکہ اللہ عزوجل کی غیرت اس بات پر ہے کہ بندۂ مؤمن اس کے حرام کردہ عمل ميں پڑے۔''
(صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، باب غیرۃ اللہ تعالیٰ ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۶۹۹۵،ص۱۱۵۶)
(49)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''اللہ عزوجل سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں اسی لئے اس نے پوشیدہ اور ظاہر بدکاریوں کو حرام کردیا ہے اور اس سے بڑھ کر اپنی تعریف کو پسند کرنے والابھی کوئی نہیں۔''
(المرجع السابق،الحدیث۶۹۹۳)
(50)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''مؤمن جب گناہ کرتاہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتاہے پھر اگر وہ توبہ کرے اوربخشش چاہے تو اس کا دل صاف ہوجاتاہے اوراگر توبہ نہ کرے تو وہ نکتہ پھیلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل کو گھیر لیتاہے۔'' (سنن ابن ماجہ ،ابواب الزہد،باب ذکر الذنوب،الحدیث :۴۲۴۴،ص۲۷۳۴)
یعنی وہ سیاہ نکتہ پورے دل کو ڈھانپ لیتا ہے اور یہ وہی زنگ ہے جسے اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں اس طرح ذکر فرمایا ہے:
کَلَّا بَلْ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ ﴿14﴾
ترجمۂ کنزالا یمان :کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے ان کی کمائیوں نے۔(پ30،المطففین: 14)
(51)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلِین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت سیدنا معا ذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کی طرف بھیجتے وقت ارشاد فرمایا:''مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا کیونکہ اس کے اور اللہ عزوجل کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔''
(صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ ، باب اخذ الصدقۃ من الاغنیاء ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۱۴۹۶،ص۱۱۸)
(52)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیدنا انس بن مالک کی والدہ حضرت سیدتنا اُم سُلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عرض کی :''یارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! مجھے کچھ وصیت فرمائیے۔'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' گناہوں سے ہجرت کر لو (یعنی انہیں چھوڑ دو) کیونکہ یہ سب سے افضل ہجرت ہے، فرائض کی پابندی کرتی رہو کیونکہ یہ سب سے افضل جہاد ہے اور اللہ عزوجل کا کثرت سے ذکر کرتی رہو کیونکہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کوئی بندہ ذکر سے زیادہ پسندیدہ شے لے کر حاضر نہیں ہوسکتا ۔''
(المعجم الکبیر،الحدیث:۳۱۳،ج۵،ص۱۲۹،''لایأتی العبد'' بدلہ''لا تأتی اللہ'')
(53)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیِّدُ المبلِّغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے عرض کی :''یارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کون سی ہجرت (یعنی ہجرت والے) افضل ہیں؟'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''جو گناہوں سے ہجرت کرتے ہیں۔''
(صحیح ابن حبّان ،کتاب البر والصلۃ،باب ذکر الاستحباب للمرء۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۶۲،جٍ۱،ص۲۸۷)
اور بھی بہت سی احادیث اس معنی پر دلالت کرتی ہیں ،چنانچہ حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا :''کیا بنی اسرائیل نے اپنا دین چھوڑ دیاتھا کہ جس کی وجہ سے انہیں مختلف قسم کے دردناک عذابوں میں مبتلا کردیا گیا مثلاً ان کی صورتیں بگاڑ کر انہیں بندر یا خنزیر بنادیا گیا اوراپنے آپ کوقتل کرنے کا حکم دیا گیا؟'' تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ''نہیں! بلکہ جب انہیں کسی چیز کا حکم دیا جاتا تو وہ اسے چھوڑدیتے تھے اور جب کسی کام سے روکا جاتا تو انجام کی پرواہ کئے بغیر اسے کر گزرتے تھے یہاں تک کہ وہ اپنے دین سے اس طرح نکل گئے جیسے آدمی اپنی قمیص سے نکل جاتاہے۔''
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ارشاد فرماتے ہیں:''اے گناہ گار! تُو گناہ کے انجامِ بد سے کیوں بے خوف ہے؟ حالانکہ گناہ کی طلب میں رہنا گناہ کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے، تیرا دائیں ،بائیں جانب کے فرشتوں سے حیانہ کرنا اور گناہ پرقائم رہنا بھی بہت بڑا گناہ ہے یعنی توبہ کئے بغیر تیرا گناہ پر قائم رہنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے، تیرا گناہ کرلینے پر خوش ہونا اور قہقہہ لگانا اس سے بھی بڑا گناہ ہے حالانکہ تُو نہیں جانتا کہ اللہ عزوجل تیرے ساتھ کیا سلوک فرمانے والا ہے، اور تیرا گناہ میں ناکامی پر غمگین ہونا اس سے بھی بڑاگناہ ہے، گناہ کرتے ہوئے تیز ہوا سے دروازے کا پردہ اٹھ جائے توتُو ڈر جاتاہے مگر اللہ عزوجل کی اس نظر سے نہیں ڈرتا جو وہ تجھ پر رکھتا ہے تیرا یہ عمل اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔
افسوس ہے تجھ پر کیا تُو جانتا ہے کہ حضرت سیدنا ایوب علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃو السلام کی وہ لغزش کیاتھی جس کے سبب اللہ عزوجل نے انہیں جسمانی مصیبت اور مال چلے جانے کی آفت میں مبتلا فرما دیا تھا ؟ان کی لغزش تو بس یہی تھی کہ ایک مسکین نے آپ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃو السلام سے ایک ظالم کے خلاف اس کا ظلم دور کرنے کے لئے مدد مانگی تھی تو آپ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃو السلام نے اس کی مدد نہ کی اور نہ ہی اس ظالم کو ظلم سے منع کیا تو اللہ عزوجل نے آپ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃو السلام کو آزمائش میں مبتلا کردیا۔''
0 Comments: