لڑکی پیدا ہونے سے رنج کرنا کفّار کا طریقہ ہے۔ جس کے متعلق قراٰنِ کریم فرماتا ہے :
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ۵۸﴾
(ترجمہ کنزالایمان)اورجب ان میں کسی کوبیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تودن بھراس کامنہ کالارہتاہے اوروہ غصہ کھاتاہے۔(پ14،النحل58)
بلکہ حق یہ ہے کہ جس عورت کے پہلے لڑکی پیداہو وہ رب تعالیٰ کے فضل سے خوش نصیب ہے کیوں کہ حضور سیِّدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دولت خانہ میں اوّل دختر ہی پیدا ہوئی تو گویا رب تعالیٰ نے سنّتِ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم عطا فرمادی۔
جو ان لڑکیوں کا گانا بجانا حرام ہے کیوں کہ عورت کی آواز کا بھی نامحرموں سے پردہ ہونا ضروری ہے۔ اگر عورت نَماز پڑھ رہی ہو اور کوئی آگے سے گزرنا چاہے تو یہ عورت سبحان اللہ عزوجل !کہہ کر اس کی اطِّلاع نہ دے بلکہ تالی سے خبر دے جب آواز کی اس قدر پردہ داری ہے تو یہ مروّجہ گانے اور باجے کا کیا پوچھنا۔
فرزند کی پیدائش کی خوشی میں نوافل پڑھنا اور صدقہ خیرات کرنا کارِ ثواب ہے مگر برادری کے ڈر، ناک کٹنے کے خوف سے مٹھا ئی تقسیم کرنا بالکل بے فائدہ ہے اور اگر سُودی قرضہ لے کر یہ کام کئے تو آخرت کا گناہ بھی ہے۔ اس لئے اس رسم کو بند کرنا چاہے۔
ڈوم میراثی لوگو ں کو دینا ہر گز جائز نہیں کیوں کہ ان کی ہمدردی کرنا دراصل ان کو گناہ پر دلیر کرنا ہے۔ اگر ان موقعوں پر ان کو کچھ نہ ملے تو یہ تما م لوگ ان حرام پیشوں کو چھوڑ کر حلال کمائی حاصِل کریں گے مجھے تعجّب ہوتا ہے کہ یہ قومیں یعنی زنانے خنثٰی(یعنی ہیجڑے)ڈوم میراثی، رنڈیاں صرف مسلمان قوم ہی میں ہیں۔ عیسائی، یہودی، ہندو،سکھ اور پارسی قوموں میں یہ لوگ نہیں۔اس کی کیا وجہ ہے ؟ وجہ صر ف یہ ہے کہ مسلمانوں میں خرافات رسمیں زِیاد ہ ہیں،اور ان لوگوں کی انہی رسموں کی وجہ سے پرورش ہوتی ہے اور دیگر قوموں میں نہ یہ رسمیں ہیں نہ اس قسم کے لوگ اور یقینا ایسی پیشہ ور قومیں مسلم قو م کی پیشانی پر بدنُما داغ ہیں، خدا کرے یہ لوگ حلال روزی کماکر گزارہ کریں۔
بہن، بہنوئی یا دیگر اہلِ قرابت کی خدمت کرنا بے شک کارِ ثواب ہے مگر جب کہ اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوش کرنے کیلئے کی جائے اگر دنیا کے نام و نمود اوردکھلاوے کیلئے یہ خدمتیں ہوں تو بالکل بے کار ہے۔ دکھلاوے کی نماز بھی بے فائدہ ہوتی ہے اور اس موقع پر کسی کی نیّت رضائے الٰہی عزوجل نہیں ہوتی، محض رسم کی پابندی اور دکھلاوے کیلئے سب کچھ ہوتا ہے ورنہ کیا ضَرورت ہے کہ چھوچھک کے آگے باجا بھی ہودنیا کو بھی جمع کیا جائے، پھر مالدار آدمی اس خرچ کو برداشت کرلیتا ہے مگر غریب مسلمان ان رسموں کو پورا کرنے کیلئے یا تو سودی قرض لیتا ہے یا گھر رہن کرتا ہے لہٰذا ان تمام مصارف کو بند کرنا نہایت ضَروری ہے۔ ہزارہا موقعوں پر اپنی لڑکیوں اور بہنوں کو اس لئے دو کہ یہ رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا حکم ہے۔مگر ان رسموں کو مٹادو، زکام روکو تاکہ بخار جائے۔ آج یہ حالت ہے کہ اگر بچّہ پیدا ہونے پر دلہن کے میکے سے یہ رسمیں پوری نہ کی جائیں تو ساس و نند کے طعنوں سے لڑکی کی زندگی وبال ہوجاتی ہے اور ادھر خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے اگر یہ رسمیں مٹ جائیں تو ان لڑائیوں کا دروازہ ہی بند ہوجائے۔
0 Comments: