کبیرہ نمبر5: دھوکا دینا
کبیرہ نمبر6: نفاق
کبیرہ نمبر7: ظلم کرنا
کبیرہ نمبر8: تکبرکی بناء پرمخلوق کو حقیرجاننا اور اس سے منہ پھیرنا
کبیرہ نمبر9: بے فائدہ کاموں میں غوروخوض کرنا
کبیرہ نمبر10: طمع(لالچ)
کبیرہ نمبر11: تنگدستی کا خوف
کبیرہ نمبر12: تقدیر پر ناراض ہونا
کبیرہ نمبر13: مال داروں پر نظر کرنا اور مال کی وجہ سے ان کی تعظیم کرنا
کبیرہ نمبر14: تنگد ستی کی بناء پرفقراء کا مذاق اڑانا
کبیرہ نمبر15: حرص
کبیرہ نمبر16: دنیاوی کاموں میں مقابلہ بازی کرنا اور اس پر فخر کرنا
کبیرہ نمبر17: مخلوق کی خاطر حرام ذرائع سے زیب وزینت حاصل کرنا
کبیرہ نمبر18: فریب کاری
کبیرہ نمبر19: ناکردہ عمل پرتعریف کاخواہاں ہونا
کبیرہ نمبر20: اپنے عیوب بُھلا کرلوگوں کے عیوب کی جستجومیں رہنا
کبیرہ نمبر21: نعمت کو فراموش کر دینا
کبیرہ نمبر22: دینِ اسلام کے خلاف کسی کی طرف داری کرنا
کبیرہ نمبر23: شکر ادا نہ کرنا
کبیرہ نمبر24: تقدیر پر راضی نہ رہنا
کبیرہ نمبر25: انسان کا حقوق اللہ عزوجل اور فرض احکام کو ہلکا جاننا
کبیرہ نمبر26: اللہ عزوجل کے بند وں کا مذاق اڑانا،ان کودھتکارنا اورحقیرجاننا
کبیرہ نمبر27: حق سے منہ پھیرنا اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا
کبیرہ نمبر28: مکراور دھوکا دہی سے کام لینا
کبیرہ نمبر29: دنیاوی زندگی کو مطمع نظر بنا لینا
کبیرہ نمبر30ـ: حق بات سے عناد رکھنا
کبیرہ نمبر31: مسلمان سے بدگمانی رکھنا
کبیرہ نمبر32: حق کوقبول نہ کرنا اس وجہ سے کہ وہ خواہش نفسانی کےخلاف ہو یا پھر نا پسند یدہ اورمبغوض شخص سے ظاہر ہو
کبیرہ نمبر33: بندے کا گناہ پر خوش ہونا
کبیرہ نمبر34: گناہ پر اصرار کرنا
کبیرہ نمبر35: نیکی پرتعریف کا خواہاں ہونا
کبیرہ نمبر36: دنیاوی زندگی پرراضی اور مطمئن رہنا
کبیرہ نمبر37: اللہ عزوجل اور آخرت کو بھلادینا
کبیرہ نمبر38: نفس کے لئے غصہ کرنا اور اس کی با طل ذرائع سے مدد کرنا
بعض متأخرین ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے پانچ سے لے کراڑتيس(38)تک مندرجہ بالا تمام گناہوں کے باہم ایک دوسرے میں کثیر تداخل کے باوجود علیحدہ علیحدہ کبیرہ گناہ ہونے کی تصریح فرمائی ہے، یہ ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فقہ ومعرفت، علم وعمل، ہدایتِ سالکین اور تربیتِ مریدین، ظاہری کرامات اور بیشماراعلیٰ احوال واخلاق کے جامع تھے، چنانچہ اس بحث کی ابتدا میں فرماتے ہیں کہ جہاں تک باطنی کبائر کا تعلق ہے تو مکلف پران باطنی کبائرکی معرفت حاصل کرنا واجب ہے تا کہ وہ ان کو زائل کرنے کی کوشش کر سکے، کیونکہ جس کے دل میں ان میں سے ایک بھی مرض ہو گا وہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں قلبِ سلیم لے کر حاضر نہ ہو سکے گا۔اَلْعَیَاذُبِاللہِ۔
ان باطنی امراض میں مَعَاذَ اللہ کفر، نفاق، تکبر، فخر، غرور، حسد، خیانت، کینہ پروری، ظلم کرنا اور غیراللہ کے لئے ناراض ہونا یا غیراللہ کے لئے غصہ کرنا، ریاکاری یا شہرت کے لئے عمل کرنا، ملاوٹ کرنا، بددیانتی، بخل، اور حق سے منہ پھیرنا وغیرہ شامل ہیں۔پھراس کے بعدفرماتے ہیں :''ان جیسے گناہوں پربندے کی مذمت کرنا اس کے زنا، چوری، شراب نوشی اور ان جیسے دیگربدنی کبیرہ گناہوں پر مذمت کئے جانے سے بھی عظیم ہے کیونکہ اس کافساد زیادہ اور نتیجہ برا اور دائمی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان جیسے کبیرہ گناہوں کا اثر حالت اور کیفیت بن کر دل میں راسخ ہو جاتا ہے جبکہ دیگربدنی گناہوں کے اثرات جلد زائل ہو جاتے ہیں مثلاًکبھی توبہ واستغفارکے ذریعے تو کبھی گناہ مٹا دینے والی نیکی کے ذریعے زائل ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات کوئی مصیبت وپریشانی ان گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔
(1)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ،، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''بے شک جسم میں خون کا ایک لوتھڑا ہے، جب یہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جائے گا اور جب یہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جائے گا، سن لو! وہ دل ہے۔''
(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فصل من استبرألدینہ،الحدیث:۵۲،ص۶)
(2)۔۔۔۔۔۔دل سارے اعضاء کا بادشاہ ہے اور دیگراعضاء اس کے لشکراور تابع ہیں، جب بادشاہ بگڑ جائے تو سارا لشکربگڑ جاتا ہے، جیسا کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا :''دل بادشاہ ہے جبکہ دیگر اعضاء اس کے لشکر ہیں، جب بادشاہ اچھا ہو تو فوج بھی اچھی ہوتی ہے اور جب بادشاہ ہی خبیث ہو جائے تو فوج بھی خبیث ہو جاتی ہے۔''
لہٰذاجسے ان امراض سے محفوظ دل عطا کیا گیا ہو اسے چاہے کہ اللہ عزوجل کا شکر ادا کرے اور جو اپنے دل میں ان میں سے کوئی مرض پائے اس پر اس بیماری کے زائل ہو جانے تک اس کا علاج کرنا واجب ہے، اگروہ اس کاعلاج نہ کریگاتو گناہ گار ہو گا اور ان امراض کی موجودگی میں بندہ اسی صورت میں گناہ گارہوتاہے جب کہ وہ کسی گناہ کی نیت اور ارادہ اپنے دل میں کرے، محض دل میں خیال آنے یاسبقتِ لسانی سے زبان سے نکل جانے سے گناہ گار نہیں ہوتا۔
ان تمام گناہوں کو کبیرہ کہنافقط اہلِ تصوف ومعرفت کے طریقہ کے مطابق ہے اور امام ِفقیہ انہی بزرگوں میں سے ہیں اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے اہل مذہب علمائے شافعیہ کے خلاف کلام کيا البتہ ان گناہوں میں بعض مُتَّفَقْ علیہ کبیرہ گناہ بھی ہیں جیسے حسد، کینہ، ریاکاری، شہرت کے لئے عمل کرنا، تکبر اور خودپسندی وغیرہ جن کا ذکر ہو چکا ہے، اسی طرح اور بہت سے گناہ ایسے ہیں جنہیں کبیرہ کہاجاسکتاہے اور یہ آپ عنقریب جان لیں گے جب ہم ان کے بارے میں سخت وعیدپردلالت کرنے والی احادیث بیان کریں گے۔
اصطلاحی معنی کے اعتبارسے ظلم فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ ِ صغیرہ ہے کبیرہ نہیں جیساکہ فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کی تصریح کی ہے، اسی طرح بعض گناہوں کی تفصیل اپنے مقام پرآئے گی جیسے ترک زکوٰۃ کے بیان میں بخل اور لالچ کی اور غیبت کے بیان میں بدگمانی کی تفصیل ذکر کی جائے گی۔
ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے اس بات کہ''دنیا پر خوش ہونا حرام ہے۔'' کی تصریح کرنے والوں میں حضرت سیدناامام بغوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی شامل ہیں، شاید سیدناامام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے انہی سے یہ قول لیا اور اس پر یہ اضافہ کر دیا کہ یہ کبیرہ گناہ ہے کیونکہ یہ ایسی برائیوں کا پیش خیمہ ہے جس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ دنیاپرخوش ہونے کی حرمت کا محل اسی صورت میں ہے کہ جب یہ تکبرو فخراور ہم عصرلوگوں کی تحقیر وغیرہ جیسی خرابیوں اور برائیوں پرمشتمل ہو جبکہ اپنی عزت قائم رکھنے، اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو لوگوں کے مال کی محتاجی سے بچانے کے لئے ہو یامحتاجوں کی مددکے لئے ہو تو یہ خوشی محمود ہے، جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے :
قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوۡنَ ﴿58﴾
ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔(پ11، یونس:58)
دوسری بات یہ ہے کہ ان تمام گناہوں کی بنیادبداخلاقی اور دل کی خرابی پرہے لہٰذاہم اپنے اس باب کی ابتدا ان احادیث سے کرتے ہیں جو ان امراض یاان کے متعلقات کی مذمت میں واردہوئیں۔
0 Comments: