مجموعہ کلام حضرت شیخ الا سلام علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کچھوچھوی
معروضی مطالعہ
ڈاکٹر عقیل ہاشمی
(سابق پروفیسرو صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیور سٹی‘ حیدرآباد)
ادب اور شاعری کا بنیادی کام ان اعلیٰ لطیف و نازک نیز باریک نکات کا ابلاغ ہے جن سے گذر کر شاعر اپنی ذات اور کائنات کے حسین پہلوؤں سے آشنا ہو تا ہے اور خود شاعری زندگی کے مشکل سے مشکل مفاہیم کی شرح کرتی نظر آتی ہے یہی اس کا حسن ہے۔ اب ہمارے درمیان ایسے شعرا کی کسی قدر کمی محسوس ہوتی ہے جو شاعری کی اعلیٰ اقدار سے کما حقہ آگاہ و باخبر ہوں ۔یہ صحیح ہے کہ بیشتر شعراء شعوری لحاظ سے شاعری کو سنوارنے‘ نکھارنے‘ شائستہ‘ شگفتہ اور اسے با معنی ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں یہ دراصل ادب و شعر کو انسانی وجود سے ہم آہنگ کرنے‘ صداقتوں سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن شاعری کی ایک جہت زندگی کے امکانات کی بشارت بھی دیتی ہے اور ایسی شاعری اپنی وسعت و معنویت سے صدا بہار‘ دل گداز اور با وقار ہوجاتی ہے اس میں زندگی کی سر بلندی‘ عشق‘ خود آگہی‘ درد مندی اور انسانیت کا نصب العین دکھائی دیتا ہے یوں بھی شاعری تمام تر انسانی زندگی کا حسی ادراک ہے وہ آدمی کو روشن حقیقتوں ‘ لطافتوں اوررنگینیوں سے قریب کردیتی ہے ۔ گویا شعرو ادب سے آشنائی تفریح و تفنن سے زیادہ زندگی کی قدروں اور اس کی سچائی سے دوچار کرتی ہے۔
اس میں خود شاعر کا کمال اس کی تخلیقی صلاحیت‘ وسیع مطالعہ ‘ افہام و تفہیم کا ملکہ ‘سنجیدگی سبھی کچھ شامل ہوگی جس سے یقیناََ انسانی مسرتوں تک رسائی‘ آسودگی بلکہ مقصدیت عیاں ہوجائے گی ۔ اسے آپ اتفاق ہی کہیے کہ عرصہ بعد میرے مطالعہ میں ایسا ہی ایک مجموعہ کلام آیا جو محبتوں کا ترجمان‘ عشق و محبت کا گہرا شعور رکھتا ہے۔ میری مراد’’ تجلیات سخن‘‘ سے ہے جس کے شاعر ذی مرتبت ہیں حضرت مولانا سید محمد مدنی اشرفی جیلانی اخترؔ کچھوچھوی۔ جن کی شخصیت بر صغیر ہند و پاک ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر قابل احترام‘ باعث تزک و احتشام ہے ۔ حضرت ممدوح ان عظیم روایات کے علم بردار ہیں جو ایمان و ایقان کے لئے تابناک و ضیا بار ہیں۔ ان کا شاعری سے ربط وتعلق وہبی ہے اس میں صد امتیاز و افتخار مضمر ہے کیوں کہ خانوادئہ اشرفیہ کے افراد کا تبحر علمی خود اس کی پہچان ہے اور اس میں بھی حضرت اخترؔ کچھوچھوی انفرادیت کے حامل‘ آپ بیک وقت عالم دین‘ مفسر قرآن‘ شیخ طریقت خطیب‘ فقیہ‘ صوفی صاحب طرز ادیب اور شاعر ہیں۔
’’تجلیات سخن‘‘ کا سنہ اشاعت ا گسٹ ۲۰۰۴ء ہے اور پورے سات برسوں بعد یہ مجموعہ میرے دوست جناب مولانامحمد فرحت علی صدیقی اشرفی صاحب کے وساطت سے ہمدست ہوا اور موصوف ہی کی خواہش پر اپنے طالبانہ تاثرات رقم کر رہا ہوں‘ کہنے دیجئے یہ انتخاب شعری ملے یوں تو دو تین ماہ ہوئے لیکن اپنی مسلسل علالت کے باعث اول مطالعہ ‘ دوم اس پر ’’تحریر ‘‘کے لئے یکسوئی حاصل نہ ہو سکی مگر گزشتہ دنوں صدیقی صاحب نے ایسی کچھ اپنائیت سے توجہ دلائی کہ یکبارگی ’’تجلیات سخن ‘‘سے استفادہ پر جی للچانے لگا اور بس یہ جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں وہ یقیناً حضرت ممدوح کا فیضان ہی ٹہرا‘ فا الحمد للہ۔
تجلیات سخن دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ’’ باران رحمت‘‘ کے زیر عنوان حمد نعت و منقبت کے علا وہ چند منظومات پر محیط ہے اور دوسرا حصہ ’’پارہ دل ‘‘ کے تحت غزلیات کے ساتھ ساتھ نظمیں قطعات‘ سہرا اور ایک منظوم خط ملتا ہے۔ ’’باران رحمت‘‘ کے سلسلے میں مولانا کے برادر مولانا حسن مثنی انور کا بصیرت افروز مضمون ذکر و تعارف‘ جذبہ صداقت کو منور کرتا ہے اور پارئہ دل پر ڈاکٹرسید امین اشرف کی سیر حاصل گفتگو متاثر کرتی ہے جہاں تک نعتیہ کلام کا معاملہ ہے اس بارے میں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے سرکار کونین کی ذات قدسی صفات سے اظہار محبت و عقیدت‘ مدح و ثنا کی بات ہے وہ مداح و ممدوح کے درمیان ربط و تعلق کا عروج ہے ویسے بھی عرفا کا قول ہے کہ محبت و مودت میں تین عوامل کام کرتے ہیں۔ جمال ‘ کمال اور نوال یہ تینوں سے وابستگی ہی عین ِایمان و ایقان سے جدا نہیں۔ چنانچہ ’’باران ِرحمت ‘‘کے سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے حضرت حسن مثنی انور نے کس قدر سچی بات کہی ‘ حسان بن ثابت کا یہ ارشاد گرامی کہ:۔
’’ اپنے حسن کلام سے خدا کے محبوب کو زینت مت دو بلکہ محبوب خدا کے جمال سے اپنے کلام کو سنوارو‘‘ آج بھی نعتیہ شاعری کے ضابطہ فن کی شرط اول ہے علاوہ ازیں نزول قرآن کے تسلسل نے اگر ایک جانب رب ذوالجلال کی الہیت و الوہیت کو بے نقاب کیا ہے تو دوسری جانب محبوب کردگار کی سیرت و شخصیت کے ایسے نادر و نایاب پہلو اجا گر کئے جس کی مثال گذشتہ کسی صحف آسمانی میں نہیں ملتی۔‘‘ (ص۸)
گویا نعتیہ کلام کا اختصاص عشق رسول سے عبارت ہے اس کے ذریعہ شاعری اپنے جذبات و احساسات کو قابل اعتناء و التفات بنا سکتا ہے۔ کیوں نہ ہو ذات رسالت مآب کے سیرت و کردار کے بارے میں کلام اللہ شہادت دیتا ہے ورفعنالک ذکرک‘ یسین و طہ ‘ سراج امنیرا‘ رحمۃ للعالمین اور کئی ایک القابات اور تو اور خدا وند قدوس نے آپ کے ادب و احترام کی لازمی شرطیں بھی مقرر کردیں‘ کہا گیا کہ رسول کی آواز پر آواز اونچی مت کرو‘ آپ کو اس طرح نہ پکارو جس طرح آپس میں پکارتے ہو یہ اور ایسے کئی مقامات سے آگہی نعتیہ کلام کے لئے ضروری ہے۔ بزرگان ملت نے اسی جذبہ محبت و مودت کے لئے ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھا ہے۔ ؎
گر بخواہی معرفت و قرب ذات کردگار
با خدا دیوانہ با ش و با محمد ہوشیار
حضرت اختر ؔکچھوچھوی کے کلام کا با لاستیعاب مطالعہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ عشق رسول کی منزلیں ربط و نسبت کی مضبوطی‘ فکری پاکیزگی اور ارتفاع ہی سے روشن ہوتی ہیں۔ اس میں اعتقاد کی پختگی‘ شریعت کی پابندی ‘ عارفانہ بصیرت ‘ دینی شعور کے ساتھ ساتھ تخلیقی ذہن کی کار فرمائی واضح ہو گی نعتیہ شاعری میں سرکار دوعالم کی بے مثال حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں کی پیش کشی کو قابل عظمت و عزیمت بنا تی ہے تو اس طرز شاعری میں خصوصیت سے جدت ادا‘ ناز ک خیالی‘ مضمون آفرینی سے زیادہ حقائق کی روشنی‘ لطافت‘ والہانہ جذبہ ایثار و خلوص بلکہ موضوع کی مناسبت سے سرور کونین کی سیرت نگاری کااظہار ہوگا۔ حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے ’’باران رحمت‘‘ میں رحمۃ للعالمین کے معجزات و صفات کا مرقع پیش کیا ہے۔ فنی لحاظ سے آپ نے مختلف اصناف شاعری کا بہترین استعمال کیا لیکن زیادہ تر غزل کی ہیئت ہی میں اپنا کلام رقم کیا ہے جب کہ مربع‘ مخمس‘ مسدس اور قطعہ کی صورتیں یکجا کی ہیں۔ طرزنگارش نہایت سادہ‘ قابل فہم متاثر کن نیز اساسی طور پر وارفتگی کو مکمل سپردگی کے ہمراہ ماہرانہ انداز میں ظاہر کیا ہے خیالات کی نکاسی کے ساتھ ساتھ دل کی محویت نگاری کو رفعتوں سے ہم کنار کرتی ہے۔یہی نہیں بلکہ حضرت ممدوح نے اپنے کلام بلاغت نظام میں عقائد کی درستگی عشق رسول سے وابستگی کے پہلو بہ پہلو دشمنان دین و ایمان اور گستاخان رسول کی بھی تنبیہ کرتے ہیں نعتوں میں الفاظ کی دروبست استعارات اور تلمیحات کے ذریعہ اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ کائنات کی اصل ہی عشق رسول‘ نسبت رسول کی استواری‘ مظبوطی ہے مزید اکثر اشعار میں مناجاتی اسلوب یا استغاثہ کا انداز صاف پڑھا جاسکتا ہے یہی نہیں نعت گوئی کے سلسلے میں قرآن اور احادیث مبارکہ کی وسعتوں سے واقفیت اخترؔ کچھوچھوی صاحب کا خاصہ ہے نعت کے موـضوعات میں مضمون آفرینی کے بجائے حضرت نے ہمیشہ سرکار کائنات کی عظمتوں کو حقیقی آگاہی سے پیش کیا ہے اس ضمن میں قرآن کی آیات کا جس حسن سلیقہ سے استعمال کیا ہے وہ دیدنی ہوگا چند اشعار دیکھئے:۔
اس روئے والضحیٰ کی صفا کچھ نہ پوچھئے
آئینہ جمال خدا کچھ نہ پو چھئے
آبتاؤں تجھ کو میں ارشاد او ادنیٰ کا راز
ان کے ذکر قرب میں لازم ہے کامل احتیاط
مہر نبوت چرخ پہ چمکا کون و مکاں میں ہوگیا چرچا
جاء الحق و زہق الباطل ان الباطل کان زہوقا
چاہتا ہے گر رہے دونوں جہاں میں سرخ رو
پی شراب لن تنالوا البرا حتیٰ تنفقوا
لاترفعوا کہیں تو کہیںلا تقدموا
قرآن دے رہا ہے اصول احترام کےآ
نعت کے ساتھ مناقب کے سلسلے میں سیدنا علی کرم اللہ وجہ‘ حضرت امام حسین‘ حضرت خواجہ خواجگان سید اشرف جہاں گیر سمنانی و دیگر بزرگوں کے علاوہ اعلیٰ حضرت فاضل ِبریلوی کے شعر کی تضمین ‘نماز عشق‘ ماہ رمضان‘ وانتم الا علون ان کنتم مو منین‘ اور سلام ببارگاہ خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم سے جذباتی اور وجدانی کیفیت لا زوال عظمت کی حامل ہوجاتی ہے۔ حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے اپنے کلام میں بڑے ارفع حکیمانہ تلازمات کا استعمال کیا ہے ان کا سحر طراز آہنگ نغماتی سرور کے ساتھ روحانی قدروں سے واقفیت دلاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ حضرت ممدوح نے شواہد کی فطری عقدہ کشا ئی کی ہے اور سارے جذبات کو عقل و دانش کے دائروں سے نکال کر حق تعالیٰ کے فضل و انعام سے مربوط کردیا ہے۔ ؎
خدائے برتر و بالا ہمیں پتہ کیا ہے
ترے حبیب مکرم کا مرتبہ کیا ہے
سمجھ لو عہد رسالت کے جانثاروں سے
کمال صدق و صفا رشتہ وفا کیا ہے
کیوں نہ ہو حضرت نے اپنی نعتوں میں شاعری سے زیادہ عقیدے کی پختگی عشق رسول سے وابستگی کا شعار دکھایا ہے۔ ؎
دھوکے اپنے نطق کو مدحِ نبی کے ا ٓب سے
اپنی ہر ہر بات اے اخترؔ حکیمانہ بنا
رحمت والے پیارے نبی پر پڑھتے رہو دن رات درود
آؤ لوگو ! اپنے اوپر رحمت کی برسات کریں
خرد نے کی لاکھ سعی پیہم نہ مل سکا جادئہ تمنا
خود آئی منزل پکارتے ہم چلے جو دیوانہ وار ساقی
بد نصیبو ! شہنشاہ کونین سے صاحب قربت قاب قوسین سے
تم نے کی دشمنی ہم نے کی دوستی کیا تمہیں مل گیا کیا ہمارا گیا
میں تو بس ان کی نگاہِ لطف کا مشتاق ہوں
غم نہیں گر ساری دنیا بے وفا ہوجائے گی
اس طرح ’’باران ِرحمت‘‘ فی الواقعی فکری ارتفاع ‘اسلوب بیان کے ساتھ ساتھ عشق رسول کا مرقع ہے بحیثیت ایک فطری شاعر حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے نعتیہ مضامین کی ایک جگمگاتی کہکشاں سجائی ہے جس کی دلکشی ‘ ایمانی سر بلندی‘ ایقانی سر فرازی سے جدا نہیں یوں ’’تجلیات سخن‘‘کا دوسرا حصہ ’’پارئہ دل‘‘ یقیناً بہاریہ شاعری کا حسین و جمیل شہکار نظر آتا ہے۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں پارئہ دل کی کلام پر ڈاکٹر سید امین اشرفؔ نے مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی ہے ایک مقام پر کہتے ہیں۔ ؎
’’حضرت اخترؔ نے جملہ اساتذئہ سخن کے لب و لہجہ کو اپنی جذباتی اور مفکرانہ شخصیت میں اس طرح جذب کرلیا ہے کہ ان متعدد اور متضاد آوازوں کی آمیزش سے ایک ایسی نئی شعری فضا تیار ہوئی ہے جس میں انفرادی شان پائی جاتی ہے اور بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ یہ لہجہ حضرت اخترؔ کچھوچھوی کا اپنا لہجہ ہے۔‘‘(ص۱۴۳)
اس اقتباس میں سید امین اشرفؔ نے شاعرانہ لہجہ کی بات کہی‘ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہوگی کہ شاعری میں جس چیز کو لہجہ کہا جاتا ہے وہ ہماری گفتگو کا لہجہ نہیں ہوتا بلکہ جب کوئی شاعر اپنی شخصیت اور انفرادیت کے ساتھ ایک مخصوص طرزِ اظہار کا پابند یا پھر اس کا عادی ہو تو کہا جائے گا اس نے اپنا لہجہ بنا لیا ہے ۔گویا لفظیات کے ہمراہ اس کے خیالات ‘جذبات و احساسات کی عکاسی ‘ اپنی آواز کا رنگ و آہنگ ہی شاعرانہ لہجہ ہوگا ویسے بھی اصطلاحی معنوں میں اسلوب و لہجہ ایک ہی ہوگا تاہم لہجہ کا استعمال شاعری کے لئے اور اسلوب نثر کے واسطے مختص ہے پھر بھی یہ دونوں لفظ شاعری کے لئے گوارا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ کم و بیش ہر شاعر کا اپنا ایک لہجہ یا اسلوب ہوتا ہے اور وہ اس کی پہچان بھی۔ کہا جاتا ہے کہ شعر کہنا نثر کے مقابل آسان ہے مگر اچھا شعر کہنا دشوار ہے اس لئے ہمارے درمیان شعراء کی کثرت ہوتے ہوئے بھی رحجان ساز عظیم شاعروں کی کمی محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ اس وجہ سے بھی شعر کا راست تعلق لہجہ سے زیادہ ادراک سے ہوگا اور یہ ادراک شاعر کے توسط سے ہمارے قلب و ذہن کو متاثر کرتا ہے اس میں شاعر کی شخصیت پوری طرح متاثر کن ثابت ہوتی ہے با الفاظ دیگرشاعری میں جہاں بلند آہنگ لہجہ کار گر ہوگیا وہیں شاعر کی شخصیت کا پر تو بھی اپنا کمال دکھلاتا ہے اور یہی بات کسی بھی شاعر کے رویہ میں اس کے شعور کو سمجھنے میں مدددیتی ہے‘ تجلیات سخن میں ’’پارئہ دل‘‘ میں حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے جس رنگ ڈھنگ کی شاعری کی ہے وہ بظاہر روایتی لگتی ہے لیکن اس میں لہجہ کی سلاست‘ مضامین کی ندرت عمدہ تراکیب نیز زندگی کے ہما ہمی کے ساتھ ساتھ تغزل و تصوف کا مزاج صاف دکھائی دیتا ہے‘ مزید اخلاقی سماجی ‘ سیاسی قدروں کی نشاندہی نہایت جراء ت و سلیقہ سے کرتے ہیں اسی سلسلے میں حضرت کی شاعری کامطالعہ شاعرانہ وصف و طریق کی بہترین تصویر کشی کرتا ہے چنانچہ ڈاکٹر سید امین اشرف لکھتے ہیں۔
’’ یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ شاعری خشک ہے نہ محض قافیہ پیمائی‘ اس کی وجہ صاف ہے صوفی پر وجد اور خوشی کا عالم طاری ہوتارہتا ہے یا جان کار کسی صوفی شاعر کا کلام سپاٹ اور بے رنگ نہیں ہوسکتا ان غزلوں میں جمالیاتی احساس کی شدت کے ساتھ عصری حسّیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے یہ غزلیہ شاعری ہے یا لطافتِ احساس غنایت اور موسقیت کا ایک سیل رواں شعری اظہار میں غیر معمولی سر مستی اور والہانہ پن ہے۔‘‘ (ص۱۵۲)
اس منزل میں یہ کہتے ہوئے کوئی پس و پیش نہیں ہے کہ حضرت اختر ؔکچھوچھوی کی شاعری میں خواہ نظم یا غزل زبان و بیان کا اہتمام ملتا ہے خصوصاًغزل کی تشکیل و تعمیر میں اس کا استعمال بنیادی ہوگا زبان کا صحیح استعمال ‘ شعور و وجدان کے ہمراہ موضوع سے بھی ہم آہنگ کرنے کا احساس سادگی و صفائی رمزی و ایمانی کیفیت ہیئت کے اعتبار سے غزل کے حسن کو دوبالا کرنے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں جمالیاتی تاثر‘ تخلیق و تشکیل میں نمایاں حصہ ادا کرتا ہے اس میں لطافت‘ نفاست‘ جذباتیت ‘تہذیبی روایت سبھی کچھ شامل ہو جا تے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ شاعر’’ پارئہ دل‘‘ نے اپنے شعری ذوق مزاج و مرتبہ‘ مذہبی رحجان نیز اشعار میں صوفیانہ طرز اظہار‘ لطیف احساسات کا مظاہرہ کیا ہے گویا عصری حسیت کو خوب برتا اس میں تصنع و بناوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ چونکہ حضرت اخترؔ کچھوچھوی ایک ایسے خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں مذہبی اقدار کی عظمت مسلمہ ہوگی جب کہ صوفیانہ مسلک کی اہمیت کو ما بہ الامتیاز حد تک برتا جاتا ہے یعنی صلح کل انسان دوستی رواداری‘ وسیع النظری کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت وغیرہ۔ اس سلسلے میں یقیناً حضرت ممدوح کی شاعری اپنے خاص رنگ و آہنگ میں منفرد ہوگی اس میں لطافت ‘شگفتگی‘ شائستگی‘ غنائی کیفیت‘ والہانہ سر مستی ‘مضمون آفرینی قوت اظہار کیا کچھ نہیں شاید حضرت ممدوح کوخود اس بات کا احساس رہا ہے اس لئے کہتے ہیں۔ ؎
اختر ؔ تری غزل میں تابانی ہنر ہے
تم بھی ہواک ستارے دنیائے اہل فن کے
’’پارئہ دل‘‘ میں غزل کے پہلو بہ پہلو نظموں کا اندراج نیز تضمینوں اور سہروں کی شمولیت حضرت اخترؔ کچھوچھوی کے قدرت کلام کی کھلی دلیل ہے جب کہ ایک خط کے جواب میں منظوم طرزساقی نامہ ہندوستان کے مسلمانوں سے خطاب تجزیہ وغیرہ جذبہ صداقت اور احساس عزت و توقیر کی مثال سے جدا نہیں مزید ’’پارئہ دل‘‘ کے جذبات متاثر کن ہیں۔
عبارت مختصر! تجلیات سخن کے دونوں حصے باران رحمت اور پارئہ دل اپنی اپنی نوعیت میں غیر معمولی جاذبیت و کشش کے حامل ہیں کلام کی بو قلمونی کیفیات کو بہر صورت محسوس کیا جاسکتا ہے باران رحمت میں حمد و نعت منقبت کا انداز خالصتاً ایمان و ایقان کے لا تعداد گہر آبدار سمٹے ہوئے ہے۔ جس محبت و مودت سے شاعر خود کو وابستہ کرتا ہے وہ بجائے خود تصوف کے منا زل سلوک سے جدا نہیں یہ دراصل حضرت ممدوح کی خاندانی عظمت و رفعت کا اختصاص ہے۔ اس طرح پارئہ دل میں تخیل و تصور سے کہیں زیادہ حقائق کی روشنی نظر آئی‘ کمال فن یہ کہ غزل ہوکہ نظم ‘مخمس ‘ مسدس ہوکہ تضمین پر دستر س کا واضح ثبوت ملتا ہے مضامین کی نوعیت عصری بلکہ انسان اور انسانیت کے دکھ درد کا مداوا سمجھ میں آتا ہے فنی لحاظ سے اس میں جولانی اور ندرت دکھائی دیتی ہے۔ اپنی یہ گفتگو حضرت اخترؔ کچھوچھوی کے اس شعر پر ختم کرنے میں مسرت محسوس کرتا ہوں۔ ؎
سیکھ لے اسے غم دوراں ‘ غم جاناں ہونا
وہ بھی کیا درد‘ نہ آئے جسے درماں ہونا
0 Comments: