مَحبَّتِ مصطفےٰ کے باعِث ہر شے سے ناطہ توڑ کر اس طرح سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بن جائیے کہ ان کے سِوا کہیں سُکُون ملے نہ چین، بلکہ بارگاہِ حبیب میں ہی دِل کو اِطمینان حاصِل ہو یعنی فِکْر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قُرْب کے حُصُول میں مگن رہے تو نَظَر میں ہمیشہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جَلْوے سمائے ہوں۔نہ اِس پَل چَین آئے نہ اُس پَل قَرار آئے۔3 جیسا کہ شَرْم وحَیا کے پیکر اَمیرُ الْمُومنین حضرت سَیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی اَخیافی (یعنی ماں جائی) بہن حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے مُتَعَلّق مَرْوِی ہے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا شُمار بھی ان خوش بختوں میں ہوتا ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مدینہ شریف ہجرت فرمانے سے پہلے پہلے دامَنِ مصطفےٰ سے وَابَسْتہ ہو کر اَسِیرِ گیسوئے مصطفےٰ تو ہو گئے تھے مگر کسی وجہ سے ہجرت نہ کر سکے اور یوں ان کی نِگاہیں صُبْح و شام دِیدارِ مصطفےٰ کی لذّتوں سے مَحْرُوم ہوگئیں۔ دُکھی دِلوں کے چَین ، سَروَرِ کونَین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نِگاہوں سے اَوجھل ہونے نے ان کے دِلوں میں فِراق و جُدائی کی وہ آگ بھڑکائی کہ مَوْقَع ملتے ہی یہ لوگ آہستہ آہستہ سُوئے مَقامِ مصطفےٰ روانہ ہونے لگے۔
کرے چارہ سازی زِیَارَت کسی کی بھرے زَخْم دِل کے مَلاحَت کسی کی
چمک کر یہ کہتی ہے طَلْعَت کسی کی کہ دِیدارِ حَق ہے زِیَارَت کسی کی1
حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے دِل و دِماغ عِشْق و مَحبَّتِ مصطفےٰ کی آگ میں خَاکِسْتَر ہوئے جا رہے تھے تو آنکھیں محبوبِ خُدا کے دِیدار کے لیے بے قَرار تھیں، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی ہر دَم سُوئے مصطفےٰ روانگی کے لیے کسی مَوْقَع کی تلاش میں تھیں،آخِر جب دِلِ مُضْطَر(بے چین دِل)پر قابو نہ رہا تو درِ حبیب پر حاضِری کے لیے عَجَب حیلہ سے کام لیا۔ اُدھر حالات بھی کافی سازگار تھے کیونکہ صُلْح حُدَیْبِیَّہ کے بعد اہلِ مکّہ کو یہ اِطمینان ہو چکا تھا کہ اب اگر کسی نے ہجرت کی بھی تو اسے واپَس لے آیا جائے گا، لہٰذا ان کی اس بے فِکْری کے باعِث سَیِّدَتُنا اُمِّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو گھر سے باہَر نکلنے کا مَوْقَع مل گیا اور انہوں نے اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کا سوچا اور سب سے پہلے وہ مکّہ مکرمہ کے قریب ہی واقِع ایک بستی میں اپنے چند رشتہ داروں کے ہاں گئیں اور تین۳چار۴ دِن قِیام کے بعد واپَس لَوٹ آئیں تاکہ گھر والوں کو شک نہ ہو اور ان کا دوبارہ دیہات جانا انہیں ناگوار نہ گزرے۔ واپسی کے بعد جب آپ نے دیکھا کہ گھرکے حالات سازگار ہیں اور ان کا دیہات جانا کسی کو مَعْیُوب نہیں لگا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے سُوئے مدینہ رَخْتِ سَفَر باندھا اور تَن تَنْہا گھر سے اس انداز میں روانہ ہوئیں کہ سب کو یہی لگے کہ دیہات کی طرف جا رہی ہیں۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے عِشْقِ سَرْوَر کے کیا کہنے! آپ راستے سے آگاہ تھیں نہ راستے کی مشکلات سے بخوبی واقِف تھیں۔ بس رُخ سُوئے مدینہ کیا اور پیدل ہی چل پڑیں۔1
ان کے در پہ موت آجائے تو جی جاؤں حسن
ان کے در سے دور رہ کے زِنْدَگی اَچھّی نہیں2
ابھی آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کچھ دُور ہی گئی تھیں کہ کَرَم ہوا اور تائیدِ غیبی نے کچھ یوں دستگیری فرمائی کہ قبیلہ بنی خُزاعہ کا ایک شخص راستے میں آپ کو ملا، جس نے ایک باپردہ مسلمان خاتون کو یوں سُوئے طَیبہ عازِمِ سَفَر دیکھ کر گوارا نہ کیا کہ وہ اکیلی اس قَدْر طویل سَفَر تنہا اور پیدل کریں۔ چنانچہ اس نے اپنا اُونْٹ پیش کیا اور اس طرح آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا عِشْق و مستی سے سَرشار جذبات لے کر مَنْزِلُوں پہ مَنْزِلیں طے کرتی آخِر دَرِ رَسول پر جا پہنچیں۔ 1
آستانہ پہ تیرے سر ہو اَجَل آئی ہو اور اے جانِ جَہاں تو بھی تماشائی ہو2
……پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو! اس واقعہ سے کسی کے ذِہْن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ عورت کو بغیر مَحْرَم کے تین۳ دن یا زیادہ ، بلکہ ایک دن کی راہ جانا بھی ناجائز ہے۔ (بہارِ شریعت، ۱/۷۵۲) تو پھر حضرت سَیِّدَتُنا ام کلثوم رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کی طرف ہجرت کا سَفَر تنہا اور بغیر کسی مَحْرَم کے کیوں کیا؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: اس مُمانَعَت کے حکْم سے مُہاجِرہ اور کفّار کی قید سے چھوٹنے والی عورت خارِج ہے کہ یہ دونوں عورتیں بغیر مَحرم اکیلی ہی دارُ السلام کی طرف سَفَر کر سکتی ہیں بلکہ یہ سَفَر ان پر واجِب ہے۔ (مراۃ المناجیح، ۴/۹۰)
………ذوق نعت، ص۱۳۳
0 Comments: