شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
معارف، عوارف، کوائف
بقلم : امیر ملت استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی محمد عبدالحمید صاحبؒ
سابق شیخ الجامعہ، نظامیہ ورکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھُوَ نُوْرُ الْاَنْوَارِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ انْفَلَقَتْ مِنْہُ الْاَنْوَار وَعَلٰٓی اٰلِہِ الْاَطْھَارِ وَاَصْحَابِہِ الْاَخْیَارِ اِلٰی یَوْمِ الْقَرَارِض
ظہورِ نور
اس خاکدانِ عالم میں جب کسی بندئہ خاص کو وجود بخشا جاتا ہے تو اس کے موجود ہونے سے پہلے غیبی اشارہ ہوتا ہے۔ جسمیں اسکے خصوصی نوعیت کار کی بشارت ہوتی ہے‘ چنانچہ بانی مدرسہ نظامیہ مولانا محمد انواراللہ نوّراللہ مرقدہ کی ولادت سے قبل انکی والدئہ ماجدہ نے ایک رات خواب میں حضور سراپانور صلوٰت اللہ علیہ وسلامہ الی یوم النشور کو قرآن مجید کی تلاوت فرماتے دیکھا۔ ایک بزرگ(۱) نے خواب سن کر فرمایا۔ ایک لڑکا تولد ہوگا جو حافظ قرآن اور محافظ علومِ فرقان ہوگا۔ وصلی اللہ علی نور کزو شد نور ہا پیدا‘ حالات ذیل اسی کے آئینہ دار ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کے جداعلی شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابلی‘ کابل کے بڑے امراء میں سے تھے ہندوستان آکر آباد ہوئے۔ خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ اور حضرت امام ربّانی شیخ احمد سرہندیؒ ان ہی کی اولاد میں ہیں۔ مولاناکی چھٹی پشت میں قاضی تاج الدین اس پایہ کے عالم گزرے ہیں کہ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر خلد مکان نے ذریعہ فرمان مصدرہ ۱۴؍محرم ۴۸ ھ جلوس قندہار (دکن) کے عہدہ قضاء پر فائزکیا۔ قاضی صاحب موصوف نے اسی تعلق سے قندھار کو اپنا وطن بنالیا تھا۔ آپ کے بعد آپ کے پوتے قاضی محمد برہان الدین ذریعہ فرمان نواب میر نظام علیخاں غفران مآب مزیّنہ۔ ۲۷؍شعبان ۱۱۸۶ھ قندہار کے عہدہ قضاء پر مامور ہوئے بعد از ان قاضی برہان الدین کے پوتے قاضی محمد سراج الدین بموجب سند نواب صاحب ممدوح محررہ ۱۵؍ محرم ۱۲۰۹ھ اس عہدہ پر سرفراز کئے گئے پچھلے زمانہ میں قاضی زمانہ حال کے ناظم عدالت کا ہم پایہ تھا۔ اور تمام مقدمات وہی فیصل کرتا۔ اس لئے عہدئہ قضاء پر ایسے ہی لوگ مامور کئے جاتے تھے جو علم وفضل اور زہد وتقوی میں مشہور انام ہوتے تھے۔ اب تو قاضی صرف قاری النکاح یا سیاہہ نویس سمجھاجاتا ہے۔(۲)
ابتدائی حالات:
مولاناحافظ محمد انواراللہ ۴؍ربیع الآخر ۱۲۶۴ھ کو بمقام ناندیڑ پیدا ہوئے ۵؍سال گزرنے کے بعد مولانا سید شاہ بدیع الدین صاحب رفاعی قندھاری سے قرآن شریف ناظرہ کی تکمیل فرمائی‘ اور سات سال کی عمر میں حافظ امجد علی صاحب کے پاس قرآن مجید کاحفظ شروع فرمایا‘ اور گیارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن مجید کی سعادت سے بہرہ اندوز ہوئے۔ آپ نسباً فاروقی ہیں سلسلہ نسب انچالیسویں پشت میں خلیفہ دوم سیدنا فاروق اعظم ؓ پر منتہی ہوتا ہے۔
سلسلہ نسب:
محمد انوار اللہ بن ابو محمدشجاع الدین بن القاضی سراج الدین بن بدرالدین بن برہان الدین بن سراج الدین بن تاج الدین بن القاضی عبد الملک بن تاج الدین بن القاضی محمد کبیر الدین بن القاضی محمود بن القاضی کبیر بن القاضی محمود بن القاضی احمد بن القاضی محمد بن یوسف بن زین العابدین بن بدر الدین بن شمس الدین بن شریف جہاں بن صدر جہاں بن اسحاق بن مسعود بن بدرالدین بن سلیمان بن شعیب بن احمد بن محمد بن یوسف بن شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابلی بن شیخ اسحاق بن شیخ مسعود بن عبداللہ الاصغر بن عبداللہ الاکبر بن ابو الفتح بن اسحاق بن ابراہیم بن سیدنا ناصر بن سیدنا عبداللہ بن سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
تعلیم وتربیت:
حفظ قرآن مجید سے فراغت کے بعد ابتدائی تعلیم والدماجد مولانا ابومحمد شجاع الدین صاحب قندہاری سے پائی۔ دیگر اعلیٰ علوم وفنون کی تکمیل مولانا عبدالحلیم صاحب فرنگی محلی اور مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی رحمہما اللہ اور مولوی فیاض الدین صاحب اورنگ آبادی سے کی۔ تفسیر وحدیث کا درس شیخ عبداللہ یمنی سے بھی حاصل کیا۔ آپ کی خداداد ذہانت واستعداد سے اساتذہ بھی دنگ تھے۔ مولانا عبدالحی صاحب نے اپنی بعض تالیفات (۳)میں اس کا تذکرہ فرمایاہے۔ تکمیلِ علوم کے بعد غیر درسی مختلف متعدد کتابوں کا مطالعہ اور ان پر مفید حواشی بھی تحریر فرمائے۔آپ اپنے دور میں منقول اور معقول کے بہت بڑے عالم تھے۔ آ پ کے علم وفضل کے خود معاصر علماء معترف ومداح ہیں۔ درس و تدریس‘ تصنیف وتالیف کا آخری وقت تک سلسلہ جاری تھا۔
جملہ سلاسل میں بیعت:
علوم شریعت کی تحصیل وتکمیل کے بعد آپ نے سلوک کی تکمیل اپنے والد ماجد سے پائی اور جملہ سلسلوں (قادریہ‘ چشتیہ‘ نقشبندیہ وغیرہ) میں بیعت کی اور مدینہ منوّرہ میں شیخ وقت مرشد العلماء حضرت حاجی امداداللہ رحمۃ اللہ علیہ سے مکر ر بیعت کی اور منازل سلوک کی تکمیل فرمائی۔ حضرت حاجی صاحب نے بلا طلب خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔
حضرت شیخ الاسلام کا طریقہ تربیت:
حضرت مولانا مرحوم ہر شخص کی صلاحیت استعداد‘ مصروفیات ومشاغل کے پیش نظر تربیت کا انتظام فرماتے تھے۔ چنانچہ مولانا مرحوم کی خدمت میں جو شخص طالب علم ہوکر آتا ‘ آپ اس کے میلان طبع کے لحاظ سے اس سلسلہ میں داخل فرماتے‘ جس سے اُس کا لگاؤ ہوتا‘ پھر اس کے مشاغل دنیوی کے اعتبار سے اذکار کاتعین فرماتے‘ آپ کے نزدیک طریق تربیت میں عوام اور اہل علم کے درمیان فرق تھا یعنی عوام کے لئے ذکر وفکر کا تعین کیا جاتا اور اہل علم کو ارشاد ہوتا کہ علمِ دین کی تعلیم واشاعت ہی آپ کے لئے سلوک راہ خدا ہے اسی میں آپ کے مراتب و مدارج کی ترقی وتکمیل ہے اور ذکر کی مختصر مقدار بتلائی جاتی اس طریق سے ہر دو کا سلوک اور اس کے روحانی منازل طے ہوتے تھے۔ خود حضرت ممدوح کا معمول بھی یہی تھا کہ آپ علم شریعت کی تعلیم اور کتب دین ومذہب کی تالیف وتصنیف بھی فرماتے اور ذکر وشغل میں بھی وقت لگاتے‘ اس کی قدرے وضاحت ’’اصلاحی کارنامے‘‘ اور علمی خدمات کے تحت ملاحظہ ہو۔ مطلع الانوار میں مولانا رکن الدین صاحب رقمطراز ہیں۔
اقوال:
عموماً ذی علم اشخاص کو ہدایت فرماتے کہ اوراد‘ اذکار کے بجائے ہمیشہ علوم دینیہ کی تعلیم وتعلم اور ان کی اشاعت میںکوشاں رہیں۔ کیونکہ اس کے برابر کوئی عبادت باعثِ تقرب الہی نہیں ہے۔
راقم (مولانا رکن الدین صاحب) نے بار ہا آپ سے تلقین اذکار کی خواہش کی مگر جب کبھی آپ کوئی ذکر تلقین فرماتے تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمادیتے۔دین کی خدمت کرو اس میں چنداں مصروف ہونے کی ضرورت نہیں‘ آپ فرمایاکرتے تھے کہ میں بھی ابتدائً ذکر اذکار کیا کرتا تھا۔ مگر اب اس کے بدلے اس وقت کو علم دین کی خدمت میں صرف کرتا ہوں کیونکہ ذکر سے انجلا ء باطن ہوتا ہے اور انسان کو اپنے مدارج معلوم ہوتے ہیں جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں رعونت نہ آجائے‘ عبادت سے محض تقربِ الہی مقصودہے۔ اور بعد ادائی فرض کے افضل عبادات تحصیل علم دین اور اس کی اشاعت ہے اگر کوئی شخص اس میں مصروف ہو تو اس کے مدارج روز افزوں ترقی کرتے ہیں‘ گو اس کو اس کا علم نہو اور خدا اور رسولؐ کی خوشنودی اورقربت حاصل ہوجاتی ہے۔
ازدواج‘ ملازمت‘ استعفاء :
آپ کا عقد ۱۲۸۲ءھ میں حاجی محمد امیرالدین صاحب محتسب بنولہ کی صاحبزادی سے ہوا‘ اور ۱۲۸۵ھ میں محکمہ مالگزاری میں ’’خلاصہ نویسی‘‘ کی خدمت میں مامور ہوئے ۔ اس خدمت کو تقریباً دیڑھ سال انجام دینے کے بعد ۱۲۸۷ھ میں مستعفی ہوگئے۔
استعفاء کا واقعہ بھی عجیب ہے۔ ملازمت سرکاری کو جو آج عزّت و مسرت کا واحد ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ مولانا نے محض اس بات پر چھوڑ دیا کہ ایک سودی لین دین کی مثل کا خلاصہ لکھنا پڑتاتھا۔ گو آپ کی دیانت داری و کارگزاری کی وجہ سے افسر بالانے استعفاء قبول کرنے میں تأمل کیا۔ اور وعدہ کیا کہ آئندہ سے ایسا کام آپ کے تفویض نہیں کیا جائے گا مگر آپ یہ کہہ کر کہ ’’ جب تک آپ ہیں یہ رعایت‘ دوسروں سے اتنی توقع نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جب ملازمت ہی ٹھیری تو حاکم جو کہے ماننا پڑے گا۔ خدمت سے کنارہ کش ہوگئے۔ اس وقت آپ متأہل اور صاحب اولاد تھے۔ جب تک والد صاحب زندہ رہے ترک ملازمت کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ تقریباایک سال کے بعد سایہ پدری سر سے اُٹھ گیا اور اس کی جگہ مصائب اور آلام نے لی اور سب ملنے جلنے والے آپ کو ترک ملازمت پر ملامت کرنے لگے۔ مگر آپ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقُہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ (۴)پر نظر رکھے ہوئے اپنے شغل درس وتدریس میں منہمک ہوگئے۔ یہ زمانہ تھا ابتلاء کا جس میں آپ کا قدم پایہ صبر و استقلال سے ہٹنے نہ پایا اور بمصداق’’اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ‘‘(۵)کے وہ مرتبہ عظیم حاصل ہوا جس سے اچھی طرح تلافی آفات ہوگئی۔
سفر ہائے حجاز :
۱۲۹۴ھ میں آپ نے حج کا ارادہ فرمایا کہ مکّہ معظمہ پہنچ کر حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سے مکرر بیعت فرمائی‘ مدینہ منورہ کی حاضری اور روضہء اقدس کی زیارت کے بعد حیدرآباد واپس آئے۔
دوسرا سفر ۱۳۰۱ھ میں فرمایا اور ۱۳۰۵ھ میں تیسرا سفر کیا‘ حج سے فارغ ہو کر مدینہ منوّرہ پہونچے اور یہاں تین سال تک مقیم رہے ۔ اسی تین سال کے عرصہ میں مولانا مرحوم نے کتب خانہ شیخ الاسلام اور کتب خانہ محمودیہ میں زیادہ تر وقت مطالعہ کتب کے لئے وقف فرمادیا تھا ‘اور بصرف کثیر نادر کتابیں نقل کروائیں ازاں جملہ:
۱۔کنز العمال(۸ جلد) (حدیث) (۶)
۲۔ الجوہر النقی علی سنن البیہقی (حدیث)
۳۔ الاحادیث القدسیہ (حدیث)
۴۔ جامع المسانید للامام الاعظم (حدیث)
رمضان المبارک گزار کر مکہ معظمہ آئے اور حضرت پیر ومرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایاکیا ارشاد ہوا‘ عرض کیا: کہ سرکارؐ نے دکن جانے کا حکم دیا ہے۔ ہجرت کے ارادہ سے آیاتھا۔ تردّد میں پڑگیا ہوں۔ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا حکم کی تعمیل کی جائے۔ اس اثناء میں ہمشیرہ اور فرزند نے داعی اجل کو لبیک کہا‘ مکرر حضرت حاجی صاحب نے فرمایا تعمیل حکم میں دارین کی سعادت ہے۔ تردد کچھ نہ کرو۔ واپسی کے سوا چارہ نہ تھا۔ بادیدہ پر نم زبانِ حال سے یہ شعر پڑھتے ہوئے۔
شادی میتواں مردن بکوئے یار اے انورؔ
نباشی لائق ایں بارگاہ گرچشم نم کردی
۱۳۰۸ھ میں مراجعت فرمائے بلدہ ہوئے۔
انوراؔ قصدِ تقرب باسگِ کویش کنی
ہیچمیدانی کہ آں سگ پاسبان کوئے کیست
مصداق حال تھا۔
شاہانِ آصفیہ کی تعلیم :
مولوی مسیح الزماں خان صاحب برادر محمد زمان خاں صاحب شہید‘ اعلیٰ حضرت غفران مکان کی تعلیم کے لئے مقررکئے گئے مگر ان کے ذمہ دیگر امور سلطنت بھی تھے۔ اس لئے انہوں نے اس خدمت کے لئے مولانا علیہ الرحمہ کا انتخاب کیا۔ سالار جنگ بہادر سے مشورہ کرنے کے بعد دربار سے منظوری حاصل کرلی۔ مولانا کو اس کا علم نہ تھا۔ فرمان دیکھ کر مولانا نے فرمایا ’’قومی خدمت بادشاہوں کی خدمت سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اس کو قبول نہیں کرسکتا‘‘ مولوی مسیح الزماں صاحب نے حیرت زدہ ہوکر کہا کہ میں نے بہ امید قبولیت آپ سے استمزاج کئے بغیر تمام مراحل طے کرلئے ہیں‘ آپ قبول نہ فرمائیں تو مجھے خفیف ہونا پڑے گا اور اس پر اصرار فرمایا تو مولانا نے آمادگی ظاہر فرمائی۔ ۱۲۹۵ھ سے ۱۳۰۱ھ تک سلسلہ تعلیم جاری رہا۔ اعلیٰ حضرت غفران مکان مولانا کی بڑی قدر ومنزلت فرماتے اور بے حد ادب کیا کرتے تھے اور یہ فرمایا کہ ’’مجھے جو کچھ حاصل ہوا‘ مولانا ہی سے حاصل ہوا‘‘۔ ۱۳۰۸ھ میں آصف سابع اعلیٰ حضرت میر عثمان علیخاں کی تعلیم آپ سے متعلق کی گئی اور یہ سلسلہ تعلیم تخت نشینی تک جاری رہا ۱۳۳۲ھ میں نواب اعظم جاہ بہادر اور نواب معظم جاہ بہادر کی تعلیم بھی آپ کے ذمہ کی گئی ۱۳۳۵ھ میں مولانا علیل ہونے کی وجہ سے دستبرداری فرمائی۔ آصفِ سابع بھی آپ کے نہایت قدرداں تھے‘ اور اپنی شاگردی پر فخر کیا کرتے تھے۔ مختلف فرامین میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ۱۹۶۱ء میں جامعہ نظامیہ کی جانب توجہ فرمائی اور تحریر فرمایا:
’’مرحوم سرکار کا لگاؤ مولوی صاحب مرحوم سے خاص قسم کا تھا بوجہ مشفقانہ برتاؤ استاد کے ۔ چنانچہ میری تعلیم کے زمانے میں بھی اسی قسم کا انتظام مرحوم سرکار نے کیا تھا اور ہم ہر دو شاگرد استاد کے گرویدہ تھے۔جامعہ نظامیہ کی امداد کے سلسلے میں ہر دوشہزادوں کو حسب ذیل متوجہ فرمایا: میرا خیال ہے کہ برادرانِ والا شان بھی اپنی حد تک اپنے اپنے ٹرسٹ سے سالانہ یکمشت امداد دے کر سعادت دارین حاصل کریں گے۔ کیونکہ یہ بھی کم عمر شاگرد مولوی صاحب مرحوم کے تھے‘‘۔
خلاصہ یہ کہ اسی منبع کُل کے یہ جُز ہیں۔ جو کسی طرح سے جدا نہیں ہوسکتے بلکہ ہمیشہ پیوست رہیں گے۔ (نظام گزٹ ۹؍سپٹمبر ۱۹۶۱ ء) ۔ برادرانِ والا شان نے مجھے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے بھی اپنے اپنے ٹرسٹ سے سالانہ یکمشت دو ہزار روپیہ منظور کیا ہے۔ ماہ سپٹمبر ۱۹۶۱ء سے اور اس کی تحریری اجازت فینانشل اڈوائزر خان بہادر تارا پور ولاکودی ہے۔ کس لئے کہ مولوی صاحب مرحوم‘ خاندن نظام کے مسلّمہ استاد تھے۔
بانیٔ مکتب کی عثماںؔ یاد بھی آتی رہے
نغمے بھی اُس ذات کے صبح ومسا گاتی رہے
اخلاق وعادات:
اللہ جل شانہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم کے بلند ترین مقام پر ہونے کی شہادت دی اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۷) آپ نے دینی تعلیم وتربیت سے ہر مستفیض کو اسکی استعداد و صلاحیت کے لحاظ سے فیض حاصل کرنے کا موقع فراہم فرمایا۔ ارشاد ہے کہ بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأخْلَاقِ(۸)۔ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل و تتمیم کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔حضرت مولانا ممدوح کے مندرجہ ذیل اخلاق وعادات سے واضح ہے کہ فیض نبوی ؐ کے اکتساب کی آپ میں کتنی بہتر صلاحیت وعمدہ استعداد تھی۔
غذا :
آپ کی غذا بالکل سادہ تھی جو کچھ بھی سامنے آتا تناول فرماتے کسی چیز کی فرمایش نہ کرتے‘ اعلیٰ حضرت ظل سبحانی کے پاس سے اکثر میوہ اور مٹھائیاں وغیرہ آتیں اس میں سے کبھی کبھی کچھ کھالیا کرتے ورنہ سب تقسیم کردیتے۔ دو وقت کھانے کی عادت تھی اور وہ بھی بہت مختصر ایک یادو پھلکے تناول فرماتے۔
لبــاس:
آپ کا لباس بھی بالکل سادہ تھا۔ آپ لباس کے مقصد اصلی یعنی تن پوشی پر اکتفا کرتے محض زینت کے لئے اسراف اچھا نہ سمجھتے۔ نماز کے وقت آپ ہمیشہ پورا لباس یعنی جبّہ عمامہ وغیرہ پہن لیا کرتے تھے۔ اور کبھی عمامہ پر سے چادر بھی اوڑھ لیتے اور سخت گرمی میں بھی اس کی پابندی فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ایک صاحب نے اس کے متعلق استفسار کیا۔ جواب میں فرمایاکہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔(۹)
’’نماز کے وقت پوری زینت نہ کرنا حکمِ خداوندی کے خلاف ہے قطع نظر اس کے جب ہم دنیا کے لوگوں سے ملنے جاتے ہیں تو پورا لباس پہن لیتے ہیں تو پھر اللہ کے سامنے معمولی لباس سے کس طرح جائیں‘‘۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اکابردین کی سنت پر عمل کرنا اچھا سمجھتے تھے ابتداً آپ میانہ میں سوار ہوتے تھے جب اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خاں بہادر خلد اللہ ملکہ‘ کی تعلیم کے لئے مقرر ہوئے تو بعد مسافت کے خیال سے گھوڑا گاڑی خریدلی۔ وزارت کے زمانے میں آپ کے پاس موٹر اور جوڑی گاڑی اور کئی سواریاں تھیں۔
مشاغل روز و شب:
رِجَالٌ لَّاتُلہِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ (۱۰) چند ایسے مردان خدا ہیں جن کو تجارت اور بیع‘ ذکر الہی سے غافل نہیں کرتی۔ مولانا علیہ الرحمہ بھی انہی مردانِ خدا سے ایک مردِعظیم تھے۔ آپ کے مشاغل روز وشب ذکرِالہی کے تحت تھے۔ ۱۳۲۰ھ میں حضور نظام آصفجاہ سابع نے نظامتِ امورِ مذہبی وصدر الصدور صوبہ جاتِ دکن کی خدمت پر مامور فرمایا۔ احکام ملنے پر آپ نے معذرت خواہی کی تو حضور نظام نے فرمایا اس ملک میں ان خدمات کے لئے آپ سے زیادہ کوئی موزوں نہیں۔ اور ۱۳۲۳ھ میں معین المہام امور مذہبی کی خدمت پر فائز کئے گئے۔
ان خدمات کے ساتھ روزانہ مدرسہ کے حالات آپ کے ملاحظہ میں پیش کئے جاتے اور آپ ضروری ہدایات دیتے۔ مدرسہ کی نگرانی بذات خود فرماتے تھے۔ طلبہ کے امتحانات لیتے‘ ان گراں بار خدمات کے ساتھ مختلف علوم وفنون پر تصنیف وتالیف بھی فرماتے۔ شب کے دس بجے سے علومِ ظاہری و باطنی کا درس دیا کرتے ۔ اس سے فارغ ہو کر سلسلہ قادریہ کا ذکر شروع کیا جاتا۔یہ نمازِ تہجد تک چلتا۔ نماز تہجد کے بعد نماز فجر و اشراق سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر آرام کرتے‘ پھر روز مرہ کے مشاغل کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ شدید علالت تک یہ سارے مشاغل بہ پابندی جاری رہے۔
پابندی احکام شرع:
آپ کی زندگی ملّت بیضاء کے بالکل مطابق تھی کھانے‘ پینے‘ سونے ‘ بیٹھنے‘چلنے پھرنے غرض ہر بات میں اسکا خیال رکھتے کہ کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہونے پائے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خلاف شرع ظاہر نہ ہوتیں۔
نماز:
پابندیٔ نماز کا یہ عالم تھا کبھی کوئی نماز قضا ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ مرض الموت میں جب آپ کو اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوگیا تھا۔ تیمّم کرکے لیٹے لیٹے ہی نماز ادا فرماتے۔ حتی کہ دورہ غش میں جو نمازیں قضا ہوجاتیں وہ بھی ادا فرماتے۔ سرطان پیٹھ میں تھا جس کی تکلیف سے چت لیٹنا نہایت دشوار تھا مگر آپ نماز کی خاطر یہ تکلیف بھی برداشت فرمائے۔ وصال سے دو تین گھنٹے پہلے جبکہ آپ کو اس قدر تنفس تھا کہ دور تک آواز سنائی دیتی تھی اور اس کی شدت سے زبان کو حرکت دینا متعذرتھا تو راقم(۱۱) نے دیکھا کہ صرف آنکھوں کے اشارہ سے نماز ادا فرمارہے ہیں۔اس وقت محسوس ہوا کہ یہ آخری نماز ہے۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ آپ دیر سے اسی میں مشغول ہیں۔
آپ ہمیشہ فرض نماز باجماعت (جیسا کہ لباس کے بیان میں گزرا) پورا لباس پہن کر اس قدر خشوع وخضوع سے ادا فرماتے تھے کہ دیکھنے والا متاثر ہوجاتا۔ علاوہ فرائض کے صرف تہجد اور صلوۃ اوابین کے پابند تھے کیونکہ آپ کا زیادہ وقت تالیف و تصنیف میں گزرتاتھا۔
روزہ :
چونکہ نماز دوسرے مشاغل سے روکتی ہے اور روزہ میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ مشاغل علمی میں حارج ہو۔ اس لئے آپ روزے کثرت سے رکھتے تھے۔ علاوہ مفروضہ و مسنونہ روزوں کے نفل کو بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ ایّام متبرکہ و ایام بیض (ہر مہینہ کی تیرھویں‘ چودھویں و پندرھویں) کے علاوہ ہر دوشنبہ وپنجشنبہ کو بھی روزہ رکھتے تھے۔ آخر میں جب یہ کافی معلوم نہ ہوا تو صوم داؤدی ؑ شروع فرمادیا۔(صوم داؤدی ایک دن روزہ رکھنا اور دوسرے دن نہ رکھنے کو کہتے ہیں)۔ احادیث میں صومِ دادؤدی کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس واسطے کہ روزانہ روزہ رکھنے سے نفس عادی ہوجاتا ہے اور اس پر کچھ گراں نہیں گزرتا۔ ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا طبیعت پر بے حد شاق گزرتا ہے۔
زکوۃ :
آپ کی خیرات کا ذکر جو دوسخا کے عنوان میں گزر چکا ہے سچ تو یہ ہیکہ آپ اس عبادت سے محروم تھے۔ کبھی آپ صاحب نصاب ہوتے ہی نہ تھے۔ آپ پر زکوۃ واجب کیسے ہوتی۔ اوائل عمر میں تو عسرت سے گزری اس میں گزر بسر ہی مشکل تھی بعد میں جو کچھ آتا اس پر ایک سال تو کیا ایک مہینہ بھی بمشکل گزرتاتھا۔
حج :
آپ نے کل تین(۳) حج کئے اور کئی سال تک مدینہ طیّبہ میں قیام فرمایا جس کی تفصیل پچھلے اوراق میں گزرچکی ہے۔(۱۲)
مجاہدہ نفس :
علم وعبادت ظاہری کا خاصہ ہے کہ کبر ونخوت انسان میں پیدا ہوجاتی ہے اور جب تک نفس کو قابو میں نہ کیا جائے یہ بات دور نہیں ہوسکتی اس لئے صوفیائے کرام ‘ علماء ظاہر کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے کیونکہ ان کی نظر ہمیشہ ظاہر پر رہتی ہے باطن پر نہیں اور وہ صرف باطن کو دیکھتے ہیں۔ مولانا صرف عالم ظاہرہی نہ تھے بلکہ ان لوگوں میںتھے جن کو امام غزالیؒ نے علمائے آخرت یا علمائے باطن کے نام سے موسوم کیا ہے۔ تصوف میں سب سے اہم اور پہلی بات مجاہدہ نفس ہے۔ اسی سے انسان اخلاق حسنہ سے متصف اور اخلاق سیئہ سے پاک ہوتا ہے۔ اسی لئے صوفیاء اس کو جہاد اکبر کہتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے۔ ؎
بڑے موذی کو مارا نفسِ امّارہ کو گر مارا
نہنگ واژدہا وشیرِ نر مارا تو کیا مارا
کیونکہ آپ جامع الکمالات تھے ‘عالم بھی تھے اور صوفی بھی اسلئے ادھر شریعت ظاہری کی پابندی بھی کرتے اُدھر تصوف کی منزل بھی طے فرماتے سابقہ بیانات سے ظاہر ہے کہ آپ نے ہر طریقہ سے مجاہدہ نفس فرمایا‘ کھانے میں ‘ سونے میں‘ رہنے سہنے میں۔ بہر حال جس طرح ضرورت پڑتی یاجس طرح نفس قابو میں آتا ہو اس طرح عمل فرماتے۔ برسوں شب بیداری میں گزاردی۔ کبھی اس طرح بسر کرتے کہ رات و دن میں کچھ دیر سوتے اور پھر بیدار ہوجاتے کبھی روز ہ رہتے کبھی افطار کرتے۔ سخت بچھونے پر سوتے۔ سادہ غذا کھاتے‘ یہی وجہ ہے کہ آپ مجسم اخلاق تھے۔
تجرّد :
اس عنوان سے ناظرین کو ضرور تعجب ہوگا کہ آپ نے نکاح کیا اولاد ہوئی پھر تجرّد کیسا؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ اُدھر اتباع سنّت کے لئے نکاح ضروری تھا آپ نے نکاح کرلیا۔ ادھر تزکیہ نفس و دینی قومی خدمات کے لئے بموجب ارشاد باری تعالی: یٰااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوٌّ لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ (۱۳)کے تجرد کی ضرورت تھی چنانچہ جب آپ کی زوجہ محترمہ نے انتقال فرمایا تو اس وقت آپ کی عمر (۳۹) سال تھی۔ قویٰ نہایت اچھے تھے۔ آمدنی معقول تھی اور مزید یہ کہ اولاد ذکور میں سے کوئی بھی زندہ نہ تھا۔ بہر حال اگر آپ دوسرا عقد فرماسکتے تھے مگر آپ نے محض رضائے الہی اور مجاہدہ نفس کی خاطر سب کچھ برداشت فرمایا۔ دوسرا عقد نہیں کیا۔
رمضان المبارک کا احترام و اہتمام:
رمضان المبارک کے سایہ فگن ہونے سے دو تین ماہ قبل ہی سے پانچ چھ سو روزہ داروں کی دو وقتہ ضیافت کے لئے خریدی غلہ وغیرہ کا انتظام شروع کیا جاتا یکم؍ رمضان المبارک کو دو بجے سے تنور سلگا یا جاتا اور نہایت عمدہ نان پکوائی جاتی ۔ قورمہ اور کھیر کا انتظام کیاجاتا۔ اس کا سلسلہ رمضان کے ختم تک چلتا برادری کے لوگ‘ مریدین‘ طلبہ اور اکثر بخارا کے مسافر دسترخوان پر رہتے جنکے ساتھ مولانا بھی بلا تکلف تناول فرماتے۔ مریدین‘ جو شب و روز رہتے۔ انکے لئے افطار کا بھی انتظام کیا جاتا‘ اس طرح اس ارزانی کے زمانے میں تقریباً پانچ ہزار روپیے صرف کئے جاتے اور جملہ مصارف خود مولانا برداشت فرماتے۔ تراویح باجماعت ادا کئے جانے کا اہتمام بھی تھا۔ رمضان المبارک میں ہوٹلوں میں علانیہ خورد و نوش کے امتناعی احکام جاری کروائے تھے اوراسکی بھی ممانعت کرادی گئی تھی کہ افطار سے قبل تک کوئی تقریب عمل میں نہ لائی جائے۔
سماع :
حضرت مرشد العلماء حاجی امداد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے طریقہ چشتیہ میں بیعت تھی‘ اسلئے کبھی کبھی آپ سماع کا اہتمام بھی فرماتے تھے مگر اس میں بھی شریعت کا پورا پورا پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا۔ محفل سماع میںکوئی ایسا شریک نہیں ہوسکتا تھا جو اس کا اہل نہ ہو‘ اور کبھی کبھی آپ تنہا ہی سماعت فرماتے اور کبھی ایسا ہوتا کہ آپ حجرہ میں ہوتے‘ دروازہ بند اور قوال دروازہ کے باہر دروازہ سے متصل غزل سرائی کرتا سماع کا متفق علیہ محتاط طریقہ حسب ذیل ہے:
قال اللہ تعالی: یَزِیْدُ فِیْ الْخَلْقِ عَلٰی مَایَشَائُ۔ اللہ تعالیٰ خلق میں جو خاصہ ہے بڑھاتا ہے مفسرین نے حسنِ صوت سے اسکی تفسیر کی ہے۔
غنا کے معنی‘ الحان خوش اور آواز خوب کے ہیں۔ ارشاد نبوی: مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ فَلَیْسَ مِنَّا۔اسی معنی میں ہے یعنی قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ نہ پڑھنے والا ہمارے طریقہ پر نہیں ہے اور حکم یہ ہے کہ زَیِّنُوْا الْقُرآنَ بِالصَّوْتِ الْحَسَن۔ حسن صوت سے قرآن کو زینت دو۔ اور غنا مزامیر کے ساتھ حرام ہے۔ چنانچہ ارشاد نبی کریم صَوْتَانِ مَلْعُوْنَانِ صَوْتُ وَیْل عِنْدَ مُصِیْبَتٍ وَصُوْت مِزْمَارٍ عِنْدَ نَغْمَۃٍ۔ دو آواز ملعون ہیں ایک آواز واویلا جو بوقت مصیبت کیا جاتا ہے دوسری آواز مزمار جو بوقت نغمہ ہوتا ہے۔ اور حرمت کی وجہ صدر شہید نے جامع صغیر میں لہو قراردی ہے۔ اَلْغِنَا حَرَامٌ بِالْمَزَامِیْرِ لِاَنَّھَا لَھْوٌ وَ اللَّھْوُ حَرَامٌ۔ مزامیر کے ساتھ غنا حرام ہے اس لئے کہ وہ لہو ہے اور ہر لہو حرام ہے۔ لہذا اگر غنا میں لہو نہ ہو تو وہ حرام بھی نہیں۔ چنانچہ حسامی میں ہے۔ وَاِذَاعَدْمُ الْعِلَّۃِ عَدَمُ الْحُکْمِ۔علت معدوم ہوتوحکم بھی معدوم ہوتا ہے۔ قول محقق یہ ہے کہ حسن صوت دل میں کچھ پیدا نہیں کرتا دل میں جو کچھ ہوتا ہے اس کو جنبش میں لاتا اور حرکت دیتا ہے۔
شیخ الاسلام نظام الحق والدینؒ نے رسالہ شمسیہ میں لکھا ہے کہ۔
’’سماع نہ مطلق حرام ہے نہ مطلق حلال ‘ عوام پرجو لہو و لغو کے طریقہ سے سنتے ہیں حرام ہے زاہدوں کے لئے حلال ہے اہلِ تصوف کے لئے مستحب ہے‘‘۔
حضرت شاہ نقشبند ؒ سے سماع کی بابت دریافت کیا گیاتو فرمایا: نہ من ایں کار میکنم ونہ انکارمیکنم۔یعنی میں نہ یہ کام کرتا ہوں اور نہ میں اسکا انکار کرتاہوں۔ چونکہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے اس لئے محتاط صورت ہے کہ اسکو نہ کیا جائے۔ اور اس کا ثبوت بھی ہے بعض بزرگ سماعت فرماتے تھے اسلئے اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا یہ بات بالکل ویسی ہی ہے۔ جیسے ضبّ (گھوڑ پھوڑ) کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا اَکُلُہُ وَلَا اُحْرِمُہُ۔ میں اس کو کھاتا بھی نہیں اور حرام بھی قرار نہیں دیتا۔
حضرت مولانا علیہ الرحمہ ان جملہ امور کے پیش نظر بلا مزامیر کے قوال سے اشعار سناکرتے تھے اور اس میں بھی ممکنہ احتیاط ملحوظ رکھا جاتا تھا۔
اصلاحی کارنامے:
ملک میں جہالت کا دور دورہ تھا عیش ونشاط گانے بجانے عام تھے‘ فسق وفجور کا بازار گرم تھا۔ حضرت مولانا علیہ الرحمہ نے نہایت خاموشی سے ان کی اصلاح کی جانب توجہ فرمائی اور بہ تدریج ان کی اصلاح کا کام شروع کیا گیا۔ چونکہ مولاناسے امور مذہبی وصدارت العالیہ متعلق تھے اسلئے اولاً اسی جانب توجہ کی گئی یہ دفاتر غیر منظم اور برائے نام تھے۔
۱} ان کی تنظیم کرائی گئی۔ اہل خدمات شرعیہ کے لئے انعامات
وغیرہ مقرر تھے مگر شرعی خدمات کی انجام دہی کا نام نہ تھا۔
۲} ان کی تعلیم وتربیت کا بندوبست فرمایا۔
۳} تعلیم یافتہ اہل خدمات سے اہل دیہات کے تعلیم و اخلاق کی
درستگی کا کام متعلق کیا گیا۔
۴} واعظین مقرر کئے گئے نکاح وازدواج کے سلسلہ میں جب کبھی
زوجین میں تفریق ہوجاتی تو مہر وغیرہ منضبط نہ ہونے کی وجہ
سے جھگڑے کھڑے ہوجاتے‘ عدالت تک نوبت آتی اس خرابی
کو دور کرنے کے لئے سیاہہ جات مرتب کروائے گئے جن میں
ایجاب و قبول‘ شہادت ‘مقدارمہر وغیرہ کا اندراج ہوتا۔
۵} عدالت العالیہ کو پابند کیا گیا کہ مقدمہ طلاق وغیرہ پیش ہوتو
صدارت العالیہ کو تاریخ طلاق سے آگاہ کیا جائے کہ انقضاء
عدت پر بموجب احکام شرع شریف نکاح ثانی عمل میں آئے۔
۶} مساجد میں باجماعت بہ پابندی ادائے نماز کے لئے تقرر امام
وموذن کی خاطر موازنہ حکومت میں سالانہ معتد بہ رقم شریک کرائی
گئی اور بتوسط امور مذہبی‘ ائمہ و موذنین کا تقرر عمل میں لایاگیا۔
۷} مسالخ میں ذبیحہ جانور ان کے لئے مسائل ذبح سے واقف
ملاؤں کا تقرر لازمی قرار دیا گیا۔
۸} شراب وسیندھی مسکرات کی دوکانیں اندرون بلدہ تھیں انکو
حدود بلدہ سے برخواست کرادیاگیا۔
۹} رمضان المبارک کے احترام کے مد نظر ہوٹلوں پر پردہ ڈالنے
کے احکام جاری کروائے گئے اور علانیہ کھانے پینے سے
ممانعتی احکام کا اجرا کرایاگیا۔
۱۰} بزم عرس میں مینا بازار قائم کئے جاتے تھے اور مزارات اولیاء و
صلحاء پر طوائف بازی مجرا ادا کیا کرتے تھے ان تمام کو بند کروا دیا گیا۔
۱۱} پست اقوام کی غیر مسلم عورتوں میں مرلی بننے کی رسم تھی جس کے
بعد وہ جس سے چاہے ناجائز تعلق پیدا کرنے میں آزاد تھیں۔
اسی طرح مرد مخنث بنتے تھے اور زنانی لباس پہنا کرتے تھے۔
اس کو جرم قرار دیا گیا اور آئندہ سے اس رسم کو مسدود کرادیا گیا۔
اور حضرت مولانا کی تحریک پر مذہبی کمیٹی مقرر کی گئی جس کے
صدر حضرت ممدوح ہی مقرر ہوئے۔ اس کمیٹی نے بہت سے
اصلاحی کام انجام دئے۔
امور مندرجہ بالا نہایت اختصار کے ساتھ ضبط تحریر کئے گئے جن کے دیکھنے سے واضح ہے کہ مولانا ملک میں ایک مجاہد اعظم اورمصلح کبیر تھے‘ اخلاص اور رضا ئے الہی کا نتیجہ ہے کہ اس کی کوئی شہرت اور ان عظیم امور کی مولانا کی جانب نسبت عام نہیں ورنہ عام طور سے کام تھوڑا اور شہرت عالمگیر کی جاتی ہے۔
دینی علمی خدمات:
شارع اسلام علیہ الصلوۃ والسلام نے ہر مرد و زن مسلمان پر علم دین کا حاصل کرنا لازم قرار دیا ہے مگر عام طور سے مسلمان اس سے غافل وبے خبر تھے۔ حضرت مولانا علیہ الرحمہ نے ان کو اس جانب متوجہ ہونے کے لئے اولاً واعظین مقرر فرمائے اور اہل خدمات شرعیہ کے تعلیم یافتہ افراد کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں ان کے اپنے فرائض کی تکمیل کے لئے مقرر فرمایا اور اس کے ساتھ متعدد مدارس کہلوائے۔ ہندوستان میں اس قسم کے جو مدارس قائم تھے انکی فہرست طلب فرماکر ان کی نوعیت کار کے لحاظ سے حکومت کی جانب سے رقمی امداد جاری کروائی جسکی تفصیل درج ذیل ہے۔
(۱)مدرسہ کولھاپور ۳۰۰روپیہ ماہانہ (۲)مدرسہ بدایون ۱۲۵ روپیہ ماہانہ (۳)مدرسہ میواڑ اودھے پور ۱۲۵ روپیہ ماہانہ (۴) مدرسہ سبحانیہ الہ آباد ۱۰۰روپیہ ماہانہ (۵)مدرسہ فتح پور ۵۰ روپیہ ماہانہ (۶)مدرسہ اجمیر شریف ۱۰۰۰روپیہ سالانہ۔
مسجد آسٹریلیا کی تعمیر کے لئے چالیس ہزار اور بصرہ کی مسجد کے لئے خطیر رقم منظور کرواکر بھجوائی گئی۔
کتب خانہ آصفیہ :
حیدرآباد میں عوام کے مطالعہ کے لئے کتب خانہ قائم کئے جانے کی تحریک فرمائی ملّا محمد عبدالقیوم اور عماد الملک کی تائید سے ۱۳۰۸ھ میں کتب خانہ آصفیہ قائم کیاگیا۔ جو تا حال قائم ہے اور جس سے عوام علمی استفادہ کیا کرتے ہیں۔
دائرۃ المعارف العثمانیہ:
عربی علوم وفنون کی قابل طباعت کتابوں کے لئے قیام دائرۃ المعارف کی تحریک فرمائی جو مذکورہ ہر دو بزرگوں کی تائید سے منظور ہوئی۔ اور سب سے پہلے اس میں حدیث کی جامع ضخیم کتاب کنز العمال کی اشاعت عمل میں آئی جس کو مولانا علیہ الرحمہ نے بزمانہ قیام مدینہ منورہ بصرف زر کثیر نقل کروایاتھا اور وہ کتابیں بھی زیور طبع سے آراستہ کی گئی جنکو مولانا مرحوم نے نقل کروایا تھا اور سلسلہ طباعت جاری رہا اور جاری ہے اور اب تک کئی سونادر و نایاب کتابیں شایع ہوچکی اور اس علمی دائرہ کی وجہ سے بیرون ہند‘ حیدرآباد دکن کی نہایت ہی قدر و منزلت ہے۔
مجلس اشاعت العلوم:
احاطہ مدرسہ نظامیہ میں اشاعت العلوم کے نام سے ایک ادارہ قائم فرمایا کہ جس میں دینی ضروری معلومات پر مشتمل محققانہ کتابیں شائع ہوں چنانچہ اس وقت تک اس ادارہ سے تقریبا (۱۰۰) کتابیں شائع کی گئیں(۱۴) اور ہر کتاب اس لائق ہے کہ اس سے عام مسلمان وافق ہوں خود مولانا مرحوم نے اپنی تالیفات وتصنیفات بھی اسی ادارہ سے شائع کروائیں جن میں سے حسب ذیل کتابیں کئی مرتبہ طبع کرائی گئیں۔
۱۔ انوار احمدی:
اس کتاب میں رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل حضور پر درود بھیجنے کے فوائد صحابہ کرام ؓ اولیاء عظامؒکے آداب اور دیگر ضروری مسائل کی تحقیقات ہیں۔ کتاب ہر مسلمان کے مطالعہ کے لائق ہے۔
۲۔ مقاصد الاسلام حصہ اول :
اس حصّہ میں تمدن‘ اخلاق‘ فقہ‘ کلام پر تحقیقی مباحث ہیں۔
حصہ دوم :
اس میں معجزات ‘ کرامات اور مرزا صاحب قادیانی کا معقول رد ہے۔
حصہ سوم:
تخلیق آدم ؑ ‘معرفت الہی ‘ روح ‘ نفس ناطقہ‘ تصوف وغیرہ مفید امور پر محققانہ بحث کی گئی ہے۔
حصہ چہارم:
علم ‘ اہل علم کی فضیلت‘ اسلام پر معترضین کے اعتراضات کے معقول جوابات دئے گئے ہیں۔
حصہ پنجم:
ضرورت عبادت‘ جزا وسزا ‘ جنت و دوزخ‘ اہلبیت کرام‘ خلافت‘ خلفاء اربعہ پرمباحث قابل دید ہیں۔
حصہ ششم:
اسلام میں فتنہ وبغاوت کی تاریخ‘ حصول ولایت‘ تقوی‘ مسئلہ جبر و قدر پر عالمانہ مباحث ہیں۔
حصہ ہفتم:
عجائب جسمانی‘ تجدد امثال ‘ اقسام وحی‘ ارادت مریدی‘ عذاب قبر‘ مختلف مضامین کی تحقیق ہے۔
حصہ ہشتم:
اصلاح تمدن‘ سلطنت اسماء حسنیٰ‘ ایمان واسلام وسوسہ شیطانی۔ سماع موتی پر مدلل مباحث ہیں۔
حصہ نہم:
معجزات آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی تفصیل‘ فطرت شناخت محبت ومخالفت‘ ضرورت محبت‘ دنیا وبت پرستی وغیرہ عام معلومات پر عالمانہ بحث بحوالہ کتب معتبرہ‘‘۔
حصہ دہم:
کمال ایمان حضرت صدیق اکبرؓ، عدل فاروقی‘ صبر و استقلال حضرت خالدؓ۔ مسئلہ بیعت‘ ندائے یا محمد ﷺ و دیگر مہمات مسائل پر مشتمل ہے‘‘۔
حصہ یازدہم:
وہابیہ کے خیالات‘ اللہ نور السمٰوٰت والارض کی تفسیر‘ ضرورت اتباع صحابہ‘ مختلف علوم کی تحقیق۔
حقیقۃ الفقہ حصہ اول و دوم :
حدیث‘ فقہ‘ اجتہادکی ضرورت پر شرح وبسط کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔
کتاب العقل :
عقل کی اہمیت و فضیلت ‘ امور دینیہ میں عقل کاکس حد تک دخل ہے۔ حکمت قدیمہ وفلسفہ جدیدہ کے مخالف مذہب کے اعتراضات کا شافی جواب کتب مندرجہ بالا سے حضرت شیخ الاسلام کے تبحر علمی ومعلومات علمی کا پتہ چلتا ہے۔
افادۃ الافہام حصہ اول و دوم :
مرزا صاحب کے ازالۃ الاوہام کا معقول جواب کتاب مذہب قادیانی کا آئینہ ہے جس میں اس کے خدوخال نمایاں ہوجاتے ہیں اکثر حضرات نے مذہب قادیانی کی تردید میں اس کتاب کو پیش نظر رکھا ہے۔
انوار الحق :
اس کتاب میں مرزا صاحب کی تردید ۔ وہابیت کا ابطال‘ ابہام اور اس کے اقسام پر نہایت شرح وبسط سے بحث کی گئی ہے۔
ان کتب کے علاوہ حضرت مولانا علیہ الرحمہ کے دیگر مفید کتب بھی ہیں یہ کتب اور دیگر علماء کی ایسی کتابیں جن کے مطالعہ کی دورِ حاضر میں شدید ضرورت ہے دفتر اشاعت العلوم واقع احاطہ جامعہ نظامیہ سے مل سکتی ہیں۔
مدرسہ نظامیہ کا قیام:
۱۲۹۲ھ میں مدرسہ نظامیہ کا قیام اس مقصد سے کیا گیاکہ ہمیشہ اہل علم کی ایک جماعت پیدا ہوتی رہی اور علم دین و عربی کی حفاظت و اشاعت کا فریضہ انجام پاتے رہے اسکے ساتھ دارالاقامہ بھی قایم کیا گیا جس میں طلباء کے قیام‘ طعام‘ لباس‘ کتب درسیہ اور دیگر ضروریات کامنجانب مدرسہ انتظام بھی رکھا گیا۔ یہ دینی علمی ادارہ ابتداء بہ شکل مکتب تھا۔ مولانا علیہ الرحمہ نے ہندو بیرون وہند کے جید علماء کو مقرر فرماکر درس نظامیہ کو جاری فرمایا جسکے فیوض وبرکات سے صدہانامی گرامی علماء نکلے جو شہرہ افاق ہیں۔اس کی وجہ سے مدرسہ کی بھی شہرت دور دور تک پہنچ گئی اور اقطاء عالم افغانستان‘ بلوچستان‘ بخارا‘ پنجاب‘ بنگال وغیرہ سے طالبان علوم اس مدرسہ میں شریک ہوئے اور فارغ ہو کر اپنے اپنے وطن کو واپس ہوئے اور علم دین کی خدمت میں مصروف رہے۔ دارالاقامہ میں رہنے والے طلبہ کی اس وقت تعداد پانچسو سے متجاوز تھی مگر اس وقت دیڑھ سو کے اندر ہے کیونکہ انقلاب حکومت کے بعد حکومتی امداد مسدود ہوگئی اور مدرسہ مالی پریشانیوں سے دو چارہے۔ مقام عبرت ہے کہ جس مدرسہ کے بانی نے دیگر مدارس کو امداد جاری کروائی تھی آج ان ہی کا یہ مدرسہ محتاج امداد ہوگیا ہے اب تمام تر ذمہ داری مسلم قوم کے ذمہ ہے خصوص وہ جو تاجر‘ فن کا ر اور سرمایہ دار ہیں امید ہے کہ وہ اس کی جانب پوری توجہ مبذول فرمائیں گے اور اللہ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ موجودہ پریشانی باقی نہیں رہے گی اور مدرسہ علم دین کی بیش ازبیش خدمات انجام دے گا۔
مدرسہ نظامیہ کی مقبولیت:
حضرت بانی مدرسہ شیخ الاسلامؒ نے کتاب ’’مقاصد الاسلام‘‘ (۱۵) میں ایک بزرگ کا خواب نقل فرمایا ہے جس سے جامعہ ہذا کی اہمیت اور باگاہ رسالتؐ میں اس کی مقبولیت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماہیںاور کل اسناد اس غرض سے طلب فرمارہے ہیں کہ خود بھی ان کو دستخط سے مزین فرمائیں۔ والحمد للہ علی ذلک
اسباب سے زیادہ مسبب پر نظر:
ارشاد الہی ہے وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہُ (۱۶) جس کا اللہ پر بھروسہ ہو تو اللہ اس کے لئے کافی ہے اور یَرْزُقُہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ (۱۷)ایسی جگہ سے روزی پہونچاتاہے۔ جہاں اس کا خیال وگمان بھی نہ تھا۔ یعنی اسباب جو اللہ تعالی کے پیدا کردہ ہیں اُنکو صحیح طریقہ سے ضرور استعمال کیا جائے انکو ترک کرنا مناسب نہیں مگر بھروسہ ذاتِ اِلہ پر رکھا جائے کہ وہی ہر چیز کا خالق ہے اور ہر بات کا کارساز ہے مولانا ممدوح بھی اسی پر کاربند تھے۔
چنانچہ آپ جس طرح اپنے معاملات میں اللہ عزوجل کی ذات پر بھروسہ فرماتے تھے‘ اسی طرح مدرسہ نظامیہ کے معاملہ میں بھی توکل پیش نظر تھا آپ نے فرمایا کہ خرچ کو ہمیشہ آمد سے زاید رکھنا چاہتے تاکہ احتیاج الی اللہ باقی رہے ‘ہم تویہ سمجھے ہیں کہ یہ ان لوگوںکیلئے مناسب ہے جن کے پیش نظر ہمیشہ خدا ئے تعالی اور اس کا قادر مطلق اور رزاق ہونا ہو۔ ورنہ ہم جیسوں کے لیے تو وَلَاتَبْسُطُھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۱۸)ہی بہترہے۔ وفات سے کچھ روز پہلے جب آپ نے مدرسہ کی مجلس انتظامی بدلی تھی تو بعض اراکین نے چاہا کہ مدرسہ کا ایک موازنہ مرتب کریں اور اخراجات کو اس سے بڑھنے نہ دین اس پر آپ نے فرمایا کہ میں ایک بات کہتا ہوں غالباً آپ حضرات اس کو پسند نہیں فرمائیں گے وہ یہ کہ جس طرح میں نے مدرسہ کو توکل پر چلایا ہے اسی طرح آپ بھی طلبہ کی تعداد مقرر کی نہ ان کے اخراجات کا کوئی اندازہ کیا یہی وجہ ہے کہ اب تک برابر طلبہ کی تعداد بڑھتی ہی رہی اور اضافہ طلبہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے آمدنی بھی بڑھادی۔(۱۹)
وفــات :
۱۳۳۶ھ کے اوائل میں مرض سرطان کا حملہ ہوا اور یہ اندر کا اندر بڑھتا ہی گیا اس کی اطلاع حضور نظام آصف سابع کو جو اس وقت بمبیٔ میں تشریف فرماتھے‘ ذریعہ ٹیلی گرام اطلاع دی گئی وہاں سے ہدایت آئی: ڈاکٹر ارسطو یا رجنگ اور چند قابل سرجن اور ڈاکٹروں سے معائنہ کراکے ان کی رائے لیں۔بعد معائنہ اس پر اتفاق ہوا کہ اپریشن کرنا ضروری ہے چنانچہ ڈاکٹر ارسطو یارجنگ نے آپریشن کیا۔ آپریشن کے بعد مولانا پر بے ہوشی طاری رہی آپریشن کے تین گھنٹہ بعد روز پنجشنبہ جمادی الآخر ۱۳۳۶ھ کا ہلال افق مشرق پر نمودار ہوا اور یہ آفتاب علم و عمل غروب ہوگیا۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ مکہ مسجدمیں نمازجنازہ پڑھی گئی اور بموجب فرمان خسروی۔
جس مدرسہ سے مولوی صاحب کو لگاؤ ‘ محبت شغف تھا اور جس مقام سے مولانا کو از جوانی تاپیرانہ سالی تعلق تھا وہیں رکھنا مناسب ہے۔(یعنی جامعہ نظامیہ کے صحن میں)
جامعہ نظامیہ میں تدفین عمل میں آئی ۔ حضرت مولانا علیہ الرحمہ کے انتقال پر آج (۶۹) سال ہوئے (۲۰)مگر مدرسہ سے مولانا کو جو تعلق تھا وہ برقرار ہے۔ کیونکہ حضرت علیہ الرحمہ کو مدرسہ سے روحانی تعلق تھا۔ روح جسم سے علحدہ ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہے وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ(۲۱)(راہ خدا میںجو قتل کئے جاتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو) روح پر موت کا اثر مرتب نہیں ہوتا۔ روح بدن سے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہے وہ بدن کی طرح عرض نہیں بلکہ بذاتہ قائم ہے وہ خود کو اور اپنے خالق کو پہچانتی ہے۔ معقولات کا ادراک کرتی ہے۔ مومنین کے ارواح اجسام نورانی ہیں اور اپنے حُسن عمل سے لذت اندوز ہوتی ہیں اور نعیم جنت کے ادراک سے خوش حال رہتی ہیں۔ اسی لئے اہل سنت وجماعت کے نزدیک وفات اولیاء کے بعد بھی ان کی کرامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس مضمون میں مولانا کے کرامات کا عنوان نہیں رکھا گیا جس قدر حالات بیان ہوئے وہ تمام از قسم کرامات ہی ہیں۔
اقسام کرامات:
کرامات کی دوقسمیں ہیں: حسّی‘ معنوی عام لوگ حسی کرامات اور صاحب کرامات کو ولی سمجھتے ہیں حالانکہ معنوی کرامت خاص اہل اللہ میں موجود رہتی ہے جن میں سب سے زیادہ بزرگ کرامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ سے آداب شریعت کی حفاظت کرائے اور اخلاق کریمہ پر عمل کرنے اور بُری باتوں سے بچنے کی توفیق دے واجبات اور سنن کی بر وقت ادائی کا اس کو خوف رہے۔ خیرات وصدقات کی طرف سبقت کرے‘ حقد وحسد اور ہر بُری صفت سے قلب کو پاک کرے اعمال صالحہ سے آراستہ ہو۔ محققین کے نزدیک یہ ایسی کرامت ہے جس میں مکر و استدراج کو دخل نہیں مولانا علیہ الرحمہ کی زندگی میں یہ جملہ مذکورہ امور بدرجہ اتم موجود تھے۔ اس کرامت معنوی کے ساتھ مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے زندگی کے بعد بھی کرامت حسّی کا ظہور ہوا مگر ان کے بیان سے عوام کو کوئی معتدبہ فائدہ نہیں۔ کرامت حسّی کاظہور صاحب کرامت کے عندا للہ اکرام واعزاز کی دلیل ہے۔ مولانا علیہ الرحمہ کے بعد مدرسہ پر جس قدر آفات ومصائب آئے جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کی مدافعت میں مولانا علیہ الرحمہ کی روح پر فتوح ہی کارگر رہی ہے۔ اور ان شاء اللہ آئندہ بھی مولانا کی روح مقدس مدرسہ کی جانب متوجہ رہی گی حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب پانی پتی ؒ تفسیر مظہری میں رقمطراز ہیں۔
’’ بہت سے اولیاء کرام سے بتواتر ثابت ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی مدد کرتے اور دشمنوں کو برباد کرتے رہے ہیں اور جنکو اللہ چاہتا ہے انکو اللہ کا راستہ بھی دکھاتے رہے ہیں۔(۲۲)
نجیبہ بیگم صاحبہ آپ کی ایک مریدہ ہیں جن کو مولانا سے رشتہ داری بھی تھی۔ کثرت ذکر سے ان کا قلب اتنا صاف ہوگیا تھا کہ ان کے انکشافات صحیح ہوتے تھے جس کا ذکر خود مولانا نے بھی بارہا فرمایاتھا۔ اس لئے وصال کے بعد راقم نے ان سے خواہش کی کہ آپ مولانا کے کچھ مراتب باطنی بیان فرمائیں تاکہ درج سوانح کروں چنانچہ بی بی صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے جب کبھی مراقبہ میں مولانا کا تصورکیا ہے تو آپ کو اس حال میں دیکھا کہ آپ حضرت سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پاک میں ہیں اور آپ کے دونوں آبرو سے نور کی زبردست شعا ئیں نکل کر آسمان تک جاری ہیں اور آپ بے خود ہیں معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کو یہ مرتبہ محض اعلاء کلمہ حق اور اشاعت دین مصطفوی کی وجہ سے حاصل ہوا۔ بی بی صاحبہ ہمیشہ فتوحات مکیہ کے حلقہ درس سے استفادہ کے لئے قریب کے ایک کمرے میں بیٹھتیں اور سنتی تھیں ان کا بیان ہے کہ میں نے بارہا حضرت غوث پاک کو حلقہ درس میں تشریف لاتے دیکھا ہے۔ کبھی کبھی کھڑے کھڑے ہی سماعت فرماتے‘ کبھی بیٹھ بھی جاتے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مولانا کا طرز تعلیم دیکھنا مقصود ہوتا ہے۔ ایک دفعہ بہ وقت درس حضرت سردار دو عالم علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا کہ ایک دوسرے کمرے میں تشریف فرماہیں اور مولانا درس دے رہے ہیں اسی طرح آنحضرت بھی درس میں مصروف ہیں ایک اور دفعہ مولانا کسی اہم مسئلہ کو اچھی طرح سمجھانہیں سکے بار بار رک جاتے تھے میں نے دیکھا کہ یہاں سے حرم پاک تک ایک صاف راستہ ہے حضرت سرور دو عالم ﷺحطیم کعبہ میں تشریف فرما تدریس میں مشغول ہیں۔ آپ کے رک جانے سے آنحضرت ﷺنے حاضرین سے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ ذرا توقف کریں کہ اس وقت میرا بچہ حل مضمون سے قاصر ہوگیا ہے اور مولانا کی جانب توجہ فرمائی۔ جب تو جہ پاک سے مضمون حل ہوگیا تو رسول انور ﷺ نہایت مسرور ہوئے اور اپنے حلقۂ درس کی جانب توجہ منعطف فرمائی(۲۳)۔
اعلحضرت کی مزار شریف پر حاضری :
اعلحٰضرت نواب آصفجاہ سابع وصال کے تقریباً ہفتہ دیڑھ ہفتہ بعد بمبیٔ سے تشریف لائے۔ اور رونق افروز حیدرآباد ہوتے ہی مولاناکی مزار شریف پر تشریف فرماہو کر فاتحہ خوانی کے بعد دیر تک فیض حاصل فرماتے رہے اور تعمیر مزار مبارک اور عود و گل اظہار افسوس وعقیدت کے لئے جو فرمان شرف صدور لایا ہے وہ اس قابل ہے کہ یہاں درج کیا جائے ناظرین یہ معلوم کرلیں کہ شاہ والاجاہ کے دل میں مولانا کی کیا وقعت تھی۔
فرمان مبارک:
’’مولوی محمد انوار اللہ خان فضیلت جنگ بہادر اس ملک کے مشائخ عظام میں سے ایک عالم باعمل اور فاضل اجل تھے اور اپنے تقدس وتورع و ایثار نفس وغیرہ خوبیوں کی وجہ سے عامتہ المسلمین کی نظروں میں بڑی وقعت رکھتے تھے۔ وہ والد مرحوم کے اور میرے دونوں بچوں کے استاد بھی تھے اور ترویح علوم دینیہ کے لئے مدرسہ نظامیہ قائم کیا تھا جہاں اکثر ممالک بعیدہ سے طالبان علوم دینیہ آکر فیوض معارف و عوارف سے متمتع ہوتے ہیں مولوی صاحب کو میں نے اپنی تخت نشینی کے بعد ناظم امور مذہبی اور صدر الصدور مقرر کیاتھا۔ اور مظفر جنگ کا انتقال ہونے پر معین المہارمی امور مذہبی کے عہدہ جلیلہ پر مامور کیا۔ مولوی صاحب نے سررشتہ امور مذہبی میں جو اصلاحات شروع کیں وہ قابل قدر ہیں اور اگر وہ تکمیل کو پہونچائی جائیں تو یہ سررشتہ خاطر خواہ ترقی کرسکے گا بلحاظ ان فیوضات کے مولوی صاحب کی وفات سے ملک اور قوم کو نقصان عظیم پہونچا اور مجھکو نہ صرف ان وجوہ سے بلکہ تلمذ کے خاص تعلق کے باعث مولوی صاحب مرحوم کی جدائی کا سخت افسوس ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ انکی یاد تازہ رکھنے کی غرض سے مدسہ نظامیہ میں دو تعلیمی وظیفہ ۲۵۔۲۵کے نام سے ہمیشہ کے واسطے قائم کئے جائیں یہ وظیفہ کس درجہ کے طالب علموں کو کس مدت کیلئے اور کن شرائط سے دیئے جائینگے اس کے متعلق علٰحدہ تجاویز پیش کرکے میری منظوری حاصل کی جائے۔میرا یہ حکم جریدہ غیر معمولی میں شائع کیاجائے‘‘۔
بندگان عالی متعالی مدظلہ العالی ۱۲؍رجب المرجب ۱۳۳۶ ھ شرح دستخط مبارک اعلحضرت آصف سابع (۲۴)۔
حلیہ :
مولانا کا رنگ ہلکا سرخ و سفید‘ چہرہ کتابی۔ آنکھیں بڑی بڑی اور ڈاڑھی گھنی تھی وصال کے وقت اکثربال سفید ہوگئے تھے۔ قد بالا سینہ کشادہ‘ اور جسم دوہرہ ورزشی اور مضبوط تھا۔ شعر وشاعری:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے بوجہ منصب نبوت ورسالت شعر گوئی مناسب نہ تھی مگر احادیث شریفہ سے ثابت ہے کہ آپ اشعار کو پسند فرماتے تھے اور شعراء سے اشعار سنانے کی فرمائش کرتے اور اشعار سنکر لطف اندوز ہوتے اور دادِ سخن دیتے چنانچہ حضرت لبیدؔ کے شعر سے متعلق فرمایا کہ حق ترین بات لبید کا قول ’’اَلاَ کُلُّ شَیٌٔ مَاخَلَا اللّٰہ بَاطِلٌ ‘‘ہے یعنی اللہ کے سوا ہر چیز مٹ جانی والی ہے۔ اسی کے پیش نظر مولانا علیہ الرحمہ نے بھی اس وقت کی مروجہ زبان فارسی اور عام بول چال اُردو میں اشعار کہے جن کا مجموعہ شمیمؔ الانوار کے نام سے دفتر اشاعت العلوم نے شائع کیا ہے۔ اس میں سے ایک اُردو نظم درج ذیل ہے ہر شعر حقائق کا خزینہ معارف کا گنجینہ اور اسرار کا دفینہ ہے۔
نظم
جہاں میں ہیں جلوے عیاں کیسے کیسے
ہیں اسرار دل میں نہاں کیسے کیسے
الٰہی یہ دل ہے کہ مہمان سرا ہے
چلے آتے ہیں کارواں کیسے کیسے
شیاطین وجن وملک جملہ عالم
ترے درپہ ہیں پاسباں کیسے کیسے
ژژژ
حواشی و حوالہ جات
(۱) حضرت یتیم شاہ مجذوب قدس سرہٗ حضرت سانگڑے سلطانؒ کے روضہ کے راستہ میں مسجدسے متصل رہتے تھے۔ ہمیشہ دلی جوش او رمستانہ حالت میں ہر طرف بلندآوازسے بڑلگاتے پھرتے تھے۔ اگر کوئی آپ سے دلی مراد کا طالب ہوتا تو وہ ان سے پوری ہوتی ۔ ہر ہفتہ بازارکا چکر لگاتے اورجو غلہ وغیرہاتھ لگتا سب کا مجموعہ ایک دیگ میں پکاتے پہلے اپنے اطراف کی بلیوں کوکھلاتے پھر دوسروں کو دیتے اور اگر جی چاہتاتو خود بھی کچھ کھالیتے ۔ اکثر لوگ اس ’’دیوانی ہانڈی ‘‘ کے شیدائی تھے کہتے تھے کہ اس جیسا ذائقہ کسی کھانے میں نہیں ملتا۔ راقم (مولف) نے بھی بچپن میں ان کی زیارت کی ہے اگر کوئی لذیزکھانے پیش کرتاتو لکڑی سے مار بھگاتے اور ناشائستہ الفاظ کہتے ۔ مدارخان نامی ایک سپاہی آپ کا سچا معتقد تھا ۔ مارکھا تا او رگالیاں سنتا لیکن آپ کے ساتھ رہتا۔ ایک دفعہ آپ کی مسجد کے صحن میں سورہا تھا آدھی رات کو کسی ضرورت سے بیدار ہواتو کیا دیکھتا ہے۔ کہ مجذوب صاحب کی جگہ ایک قوی شیر بیٹھا ہواہے، کانپنے لگا کہ شاید شیر نے مجذوب صاحب کو لقمہ بنالیا ہے او ران کی جگہ بیٹھ گیاہے۔ پھر کچھ ہی دیر بعد دیکھتا ہے کہ مجذوب صاحب اپنی جگہ پر موجود ہیں ۔صبح اٹھاتواپنی مرادپاچکاتھا یعنی وہ مجذوب صاحب کے رنگ میں رنگ چکا تھا ۔ مجذوب صاحب کی وفات کے بعد یہ ان کا قائم مقام ہوا ان دونوں پیرو مرید کی قبریں اسی مسجد کے صحن میں واقع ہیں۔ راقم اکثر فاتحہ گذارنتاہے۔
(ماہنامہ محبوب حیدرآباد،ص۲۵،جون ۲۰۰۶ء ، بحوالہ ’’انوار القندہار ، حضرت شاہ محمد رفیع الدین فاروقیؒ، فارسی سے اردو ترجمہ: ڈاکٹر محمد عارف الدین شاہ قادری ملتانی)
(۲)مطلع الانوار ؍مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ؍ناشر جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ ۱۴۰۵ھ
(۳) رسالہ ’’حل المغلق فی بحث المجہول المطلق ‘‘
(۴) القرآن الحکیم، سورۃ الطلاق، آیت ۴
(۵)القرآن الحکیم، سورۃ الانشراح آیت ۶
(۶) ۲۲ جلدوں میں ایڈیٹنگ کے بعد دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد الہند سے شائع ہوچکی ہے۔
(۷) القرآن الحکیم، سورۃ القلم، آیت ۴
(۸) حضرت علی متقیؒ کنزالعمال جلد ۳، حدیث نمبر ۵۲۱۷، مطبوعہ مؤسۃ الرسالہ، بیروت لبنان۔ 1979ء
(۹) القرآن الحکیم، سورۃ الاعراف، آیت ۳۱
0 Comments: