غازی دوراں حضرت علامہ سید محمد قاسم اشرف اشرفی جیلانیصاحب قبلہ،
نبیرئہ محدث اعظم ہند کچھوچھاشریف
صدارتی تقریر
(بموقعہ’’ شیخ الاسلام حیات و خدمات سیمینار‘‘ منعقدہ مدنی فائونڈیشن ہبلی۔ بتاریخ 18 اپریل 2015ء ۔بمقام چیمبر آف کامرس ہبلی کرناٹک صدارتی تقریر کے اہم اقتباسات)
نحمد ہ‘ و نصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد
فاعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
ان اللّٰہ و ملیئکتہ یصلون علی النبی یا ایھاالذین امنو ا صلو علیہ و سلمو ا تسلیما
اللہم صل علی سیدنا جد الحسن والحسین وعلی ال سیدنا جد الحسن و الحسین
اے میری قوم تیری عظمت رفتہ کی قسم
تجھ میں احساس کے جذبات ِشکستہ کی قسم
اپنے کھوئے ہوے محور کو پلٹ کر آجا
پھر اسی منزل اقدارِ کہن کو پا جا
جگمگاتے ہوے اخلاق کی تنویر کو دیکھ
اپنی تاریخ کے آئینے میں تصویر کو دیکھ
اپنی تاریخ کو جو قوم بھلا دیتی ہے
صفحۂ دہر سے وہ خود کو مٹا دیتی ہے
شیخ الاسلام کے والد بزرگوار حضور محدث اعظم ہند فرماتے ہیں ۔
سونے والے جاگو جاگو اس نیند کی دنیا سے بھاگو
جو قوم کہ سوتی رہتی ہے تقدیر بھی اس کی سوتی ہے
گیہوں سے گیہوں پیدا ہو اور جو َسے جوہی پیدا ہو
ہر قوم وہی کل کاٹے گی جو کھیت میںآج وہ بو تی ہے
محقق مسائل جدیدہ ، فاضل علوم اسلامیہ حضرت علامہ مفتی نظام الدین صاحب صدر مفتی الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور،عالی مرتبت پروفیسر عبد الحمید اکبر صاحب صدر شعبئہ اردو گلبرگہ یونیورسٹی ، واجب الا حترام علماء کرام ، محترم سامعین و حاضرین ! السلام علیکم
حضور شیخ الاسلام حضرت علامہ الشاہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی دامت فیوضہم علینا کی حیا ت و خدمات پرمنعقدہ یہ سیمینار مدنی فائونڈیشن کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے لیے میں انہیں ہدیئہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔
بفضلہ تعالی جس موضوع پر اس سیمینار کا انعقاد ہوامجھ سے پیشتر ہمارے دونوں مقالہ نگاروں نے اس پر مکمل ومفصل سیر حاصل گفتگو کی۔ خصوصیت کے ساتھ مفتی نظام الدین صاحب نے جس انداز سے حضرت شیخ الاسلام کی علمی خدمات کا تذکرہ فرمایا وہ قابل ستائش ہے۔ وقت اجازت نہیں دیتا کہ میں کوئی سیر حاصل گفتگو کروں ۔مجھ سے قبل مفتی صاحب حضرت شیخ الاسلام کے تواضع کا ذکرخطوط و تحریر کی روشنی میں فرمارہے تھے میںچاہتا ہوں کہ حضرت کے اسی وصف کواپنے عینی مشاہدات کی روشنی میں بیان کردوں۔
حضور شیخ الاسلام بے شک تواضع کے پیکر ہیں۔ اس بات کی دلیل یہ ہے ۔ایک دفعہ فون پر میں نے اپنے ایک جلسہ کا ذکر کیا۔ایسے میرا ان سے اکثر ٹیلوفونک رابطہ رہتا ہے بلکہ شرف ملاقات اوربابرکت صحبت سے بھی خود کو مستفیض کرتا رہتا ہوں ، ان سے رہنمائی ملتی ہے اورفکر کو جِلا حاصل ہوتی ہے۔ مجھے ان سے بے پناہ عقیدت و محبت ہے اور وہ مجھے اپنی شفقت و عنایت سے نوازتے ہیں ۔ میں ہر چھوٹی بڑی بات ان کو بتاکر زرین مشورے اور دعا حاصل کرتا ہوں۔کیونکہ وہ میرے نانا ہیں اور ان سے میرابڑا قریبی تعلق ہے۔ میں نے اپنے ایک جلسہ کا ذکر کرتے ہوے ان سے عرض کیا نانا میاں!مجھے اچھا نہیں لگتا جب میں کسی جلسہ میں جا تا ہوں تو میرے تعا رف میں بڑے لمبے چوڑے القاب کہے جاتے ہیں۔ کوئی مفکر کہتا ہے، کوئی مدبر کہتا ہے،مجھے اچھا نہیں لگتا ۔ہاں اتنا مجھے اچھا لگتا ہے کہ یہ آل رسول ہیں، مخدوم سمناں کی اولاد ہیں ، غوث پاک کے شہزادے ہیں ،اتنا مجھے اچھا لگتا ہے ۔ لیکن جب ارباب علم و دانش کی صف میں ،علم و فکر کے حوالے سے مجھے پیش کیا جاتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے اور ناظم اجلاس جب میرے نام کے ساتھ علمی و فکری القابات کے سابقے لگا تےہیں تو مجھےاذیت پہونچتی ہے اور اپنی بے بضاعتی و کم علمی کا احساس ہونے لگتا ہے ۔میری ان باتوں کو سننے کے بعد میرے نانا نے کیا کہا؟ میں من و عن ان کے اقتباس کو نقل کر رہا ہوںجس سے ان کے تواضع کاا ندازہ ہوتاہے،عجز وانکساری کا احساس و اظہار ہوتا ہے ۔یہ بات مریدوں کے بیچ نہیںہو رہی تھی ، یہ بات علماء و مشائخ کی جماعت میںنہیں ہوی بلکہ یہ بات اپنے نواسے سے کر رہے ہیں ۔جہاں صرف صداقت ہے، حقیقت ہے۔
انہوں نے فرمایا: قاسم میاں میرا بھی یہی حال ہے۔انسا ن کا تعارف دو صفتوں سے ہوتا ہے ایک وہبی صفت دوسراکسبی صفت ۔کچھ تو اس کے وہبی اوصاف ہوتے ہیں اورکچھ اس کے کسبی اوصاف ہوتے ہیں۔عالم وفاضل ہونا،مفتی ومحدث ہونا،مفسر ومحقق ہونا،مفکرومدبر ہونا، شاعر و ادیب ہونا یہ کسبی اوصاف ہیں۔۔۔۔ آل رسول ہونا، اولادغوث اعظم ہونا، اولاد مخدوم سمناں ہونا یہ وہبی اوصاف ہیں جوخدا کے فضل سے حاصل ہوتاہے۔نیز فرمایا:میرا تعارف وہبی اوصاف سے ہوتا ہے تو مجھے اچھا لگتا ہے اور کسبی اوصاف تو میرے اندر ہے ہی نہیں۔۔ نہ میںاپنے کو عالم سمجھتا ہوںنہ فاضل ،نہ مفتی نہ محقق ، نہ مفسر نہ مدبر ،نہ شاعر نہ ادیب ۔
ایسے تواضع کے پیکر کا نام ہے شیخ الاسلام ۔
دوسرا ۔ میں نے ایک مرتبہ ملاقات کے دوران نانا میاں سے پوچھا ! آپ ایک زبردست عالم ہیں، شیخ ہیں، پیر بھی ہیںبلکہ آپ کا شمار بڑے مشائخین میں ہوتا ہے۔لیکن ایک چیز میں آپ میں نہیں دیکھتا۔میں نے علماء کرام کو دیکھا ہے ،ایک عالم علماء کی بڑی جماعت اپنے ساتھ رکھتاہے، اسکےساتھ پیچھے پیچھے وہ جماعت چلتی ہے، ان سے فکری لین دین کرتا ہے، تبادلئہ خیال کرتا ہے۔ اور پیروں کو دیکھاہے کہ اپنے سرمایہ دار مریدوں کی جماعت لے کے چلتے ہیں ، ان کو قریب رکھتے ہیں۔اور آپ کے ساتھ میں دیکھ رہا ہوں نہ علماء کی کوئی جماعت نظر آتی ہے نہ ارباب علم و دانش کا قافلہ آپ کے ساتھ ہے نہ ہی سرمایہ داروں کی جماعت۔ بلکہ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ آپ کے قریب ایسے مصاحبین ہیں جو نہ عالم ہیں نہ سرمایہ دارنہ کوئی دانشور۔
نانا میاںنے فرمایا : قاسم میاں ! میں اہل علم و دانش کی قدر کرتا ہوں ،علماء کی تعظیم کرتا ہوں ،میں ان سے محبت کرتا ہوں، پڑھے لکھے لوگوں سے مجھے کوئی الرجی نہیں ہے ، نہ سرمایہ داروں سے مجھے نفرت ہے ۔لیکن بات یہ ہے کہ اگر میں اہل علم کو اپنے قریب کروں تو ہو سکتا ہے کسی اہل علم کے ذہن میں یہ بات آئے کہ مجھے میرے علم کی بنیاد پر قربت ملی ہے اس طرح کہیں نہ کہیں ان کے بے ادب و گستاخ ہونے کا امکان ہے۔ میں ان کو اپنے اخلاص کی بنیاد پر قریب کرونگا اور وہ سمجھیں گے کہ مجھے علمی بنیاد پہ قربت ملی ہے ۔ اوررہا سرمایہ داراور دولت مندتو ان میں بھی کسی نہ کسی کا بے ادب وگستاخ ہونے کا امکان ہے ۔ میں ان کو اپنے ساتھ رکھونگا اخلاص کی بنیاد پر اور وہ یہ سمجھینگے کہ میں پیسے والا ہوں، دولتمند ہوں، میری دولت کی بنا پر مجھے ساتھ رکھے ہیں ۔اس طرح دونوں کے بے ادب و گستاخ ہونےکا اندیشہ ہے ۔
رہے یہ لوگ جو میرے ساتھ ہیں ، یہ معاشی وعلمی اعتبار سے کمزور لوگ ہیں۔نہ ان کے پاس علم کا سرمایہ ہے نہ دولت کا سرمایہ ۔یہ سو چینگے میرے پاس کچھ نہیں پھر بھی میں قریب ہوں ،پھر بھی حضرت مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ اب میں ان سے محبت کرونگا، قریب رکھونگا تو یہ میرے خلوص اور محبت کے حقیقی قدر داں ہونگے۔۔۔یہ ہیں شیخ الاسلام۔۔۔۔۔۔
ہماراعینی مشاہدہ ہےکہ شیخ الاسلام اپنی زندگی میں ہمیشہ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت فرماتےہیں ۔آپ کی زندگی باادب بانصیب کے مصداق ہے۔
اسی لیے کسی نے سچ کہا ہے شیخ الاسلام ظلمت کدئہ حیات کا اجالا ہے،شیخ الاسلام بھٹکی ہوی انسانیت کی نشان منزل ہے،شیخ الاسلام گم کردہ راہ کے لیے مشعل راہ ہیں، شیخ الاسلام نیکی کے نقیب کا نام ہے ،بھلائی کے داعی کا نام ہے،بدی کے دشمن کا نام ہے،ظلم کے مخالف کانام ہے ،عفت و حیا کے پیکر کا نام ہے،صلح و آشتی کے عظیم معلم و مرشد کا نام ہے شیخ الاسلام۔
و ماعلینا الا البلاغ
0 Comments: