کرائے پر دکان یا مکان لینے کے لئے ایڈوانس دیا ،نصاب میں شامل ہوگا کیونکہ دکان یا مکان کرائے پر لینے کے لئے دیا جانے والا ایڈوانس یا ڈپازٹ ہمارے عُرف میں قرض کی ایک صورت ہے ۔لہٰذا یہ بھی شامل ِ نصاب ہوگا ۔
(وقارالفتاوٰی،ج۱،ص۲۳۹)
دھوبی کے صابن اور رنگساز کے رنگ پر زکوٰۃ
اس سلسلے میں اُصول یہ ہے کہ ایسی چیز خریدی جس سے کوئی کام کریگا اور کام میں اس کا اثر باقی رہے گا اور وہ بقدرِ نصاب ہو تو اس پر سال گزرنے پر زکوٰۃ فرض ہوجائے گی اور اگر وہ ایسی چیز ہو جس کا اثر باقی نہیں رہتا تو اگرچہ بقدرِ نصاب ہو اور سال بھی گزر جائے زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی ۔چنانچہ دھوبی پر صابن کی زکوٰۃ فرض نہیں ہے کیونکہ دھوبی کاصابن فَنَا(یعنی ختم) ہوجاتا ہے لہذا ایسی چیز پر زکوٰۃ نہیں جبکہ رنگساز پر زکوٰۃ ہو گی کیونکہ رنگ کپڑے پر باقی رہتا ہے اس لئے اس پر زکوٰۃ ہوگی ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکوٰۃ ،الباب الاول ،ج۱،ص۱۷۲ملخصاً)
خوشبو بیچنے والے کی شیشیوں پر زکوٰۃ
عطر فروش کے پاس 2قسم کی شیشیاں ہوتی ہیں ;ایک وہ چھوٹی شیشیاں جو عطر کے ساتھ فروخت ہوتی ہیں ،ان پر زکوٰۃ ہوگی اور دوسری وہ بڑی بوتلیں یا شیشے کے جار جِن میں عطر بھر کر دکان یا گھر پر رکھتے ہیں بیچتے نہیں ہیں ،ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ،مطلب فی زکوٰۃ ثمن...الخ ،ج۳،ص۲۱۸ ملخصاً)
نان بائی پر زکوٰۃ
نان بائی(یعنی روٹیاں پکانے والا)روٹی پکانے کے لئے جو لکڑیاں یا آٹے میں ڈالنے کے لئے نمک خریدتا ہے ،ان میں زکوٰۃ نہیں اورروٹیوں پر لگانے کے لئے تِل خریدے تو ان میں زکوٰۃ ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکوٰۃ ،الباب الاول ،ج۱،ص۱۸۰)
کتابوں پر زکوٰۃ
اگرکسی کے پاس بہت ساری کتابیں ہوں تواس پرزکوٰۃواجب نہیں ہوگی کیونکہ کتابوں پر زکوٰۃ واجب نہیں جبکہ تجارت کے لئے نہ ہوں۔
(الدر المختار وردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ،مطلب فی زکوٰۃ ثمن المبیع،ج۳،ص۲۱۷)
کرائے پر دیئے گئے مکان پر زکوٰۃ
وہ مکانات جو کرائے پر اٹھانے کے لئے ہوں اگرچہ پچاس کروڑ کے ہوں ان پر زکوٰۃ نہیں ہے ،ہاں! ان سے حاصل ہونے والا نفع تنہا یا دیگر مال کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ کی دیگر شرائط پائے جانے پر اس پر زکوٰۃ دینا ہوگی۔
(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجَہ،ج۱۰،ص۱۶۱ملخصاً)
کرائے پر چلنے والی گاڑیوں اور بسوں پر زکوٰۃ
کرائے پرچلنے والی گاڑیوں یا بسوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، ہاں! ان کی آمدنی پر فرض ہوگی ۔
( فتاویٰ فقیہ ملت،کتاب الزکوٰۃ،ج۱، ص۳۰۶)
0 Comments: