حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے اس طرح ہجرت فرمائی تھی کہ رات کی تاریکی میں اپنے یارِغار کے ساتھ نکل کر غار ثور میں رونق افروز رہے۔ آپ کی جان کے دشمنوں نے آپ کی تلاش میں سرزمین مکہ کے چپے چپے کو چھان مارا اور آپ ان دشمنوں کی نگاہوں سے چھپتے اور بچتے ہوئے غیر معروف راستوں سے مدینہ منورہ پہنچے۔ ان حالات میں بھلا کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ آ سکتا تھا کہ رات کی تاریکی میں چھپ کر روتے ہوئے اپنے پیارے وطن مکہ کو خیرباد کہنے والا رسولِ برحق ایک دن فاتح مکہ بن کرفاتحانہ جاہ و جلال کے ساتھ شہر مکہ میں اپنی فتح مبین کا پرچم لہرائے گااور اس کے دشمنوں کی قاہر فوج اس کے سامنے قیدی بن کر دست بستہ سر جھکائے لرزہ براندم کھڑی ہوگی۔ مگر نبی غیب داں نے قرآن کی زبان سے اس پیشین گوئی کا اعلان فرمایا کہ
اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَ الْفَتْحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدْخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللہِ اَفْوَاجًا ۙ﴿۲﴾فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ٪﴿۳﴾
(1)
جب اﷲ کی مدد اور فتح(مکہ)آ جائے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اﷲ کے دین میں فوج فوج داخل ہوتے ہیں تو اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے اُس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔(سورہ نصر)
چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی کہ ۸ھ میں مکہ فتح ہوگیا اور آپ فاتح مکہ ہونے کی حیثیت سے افواجِ الٰہی کے جاہ و جلال کے ساتھ مکہ مکرمہ کے اندر داخل ہوئے اور کعبہ معظمہ میں داخل ہو کر آپ نے دوگانہ ادا
فرمایا اور اہل عرب فوج درفوج اسلام میں داخل ہونے لگے ۔حالانکہ اس سے قبل اِکادُکا لوگ اسلام قبول کرتے تھے۔
فرمایا اور اہل عرب فوج درفوج اسلام میں داخل ہونے لگے ۔حالانکہ اس سے قبل اِکادُکا لوگ اسلام قبول کرتے تھے۔
0 Comments: