غزوۂ تبوک میں بجز ایک حضرت ذوالبجادین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نہ کسی صحابی کی شہادت ہوئی نہ وفات۔ حضرت ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کون تھے؟ اور ان کی وفات اور دفن کا کیسا منظر تھا؟ یہ ایک بہت ہی ذوق آفریں اور لذیذ حکایت ہے۔ یہ قبیلہ مزینہ کے ایک یتیم تھے اور اپنے چچا کی پرورش میں تھے۔ جب یہ سن شعور کو پہنچے اور اسلام کا چرچا سنا تو اِن کے دل میں بت پرستی سے نفرت اور اسلام قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ مگر ان کا چچا بہت ہی کٹر کافر تھا۔ اس کے خوف سے یہ اسلام قبول نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن فتح مکہ کے بعد جب لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تو انہوں نے
اپنے چچا کو ترغیب دی کہ تم بھی دامن اسلام میں آ جاؤ کیونکہ میں قبول اسلام کے لئے بہت ہی بے قرار ہوں۔یہ سن کر ان کے چچا نے ان کو برہنہ کرکے گھر سے نکال دیا۔ انہوں نے اپنی والدہ سے ایک کمبل مانگ کر اس کو دو ٹکڑے کرکے آدھے کو تہبند اور آدھے کو چادر بنا لیااور اسی لباس میں ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے۔ رات بھر مسجد نبوی میں ٹھہرے رہے۔ نماز فجر کے وقت جب جمالِ محمدی کے انوار سے ان کی آنکھیں منور ہوئیں تو کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا نام دریافت فرمایا تو انہوں نے اپنا نام عبدالعزیٰ بتا دیا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے تمہارا نام عبداﷲ اور لقب ذوالبجادین (دوکمبلوں والا) ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان پر بہت کرم فرماتے تھے اور یہ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کی جماعت کے ساتھ رہنے لگے اور نہایت بلند آواز سے ذوق و شوق کے ساتھ قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو یہ بھی مجاہدین میں شامل ہو کر چل پڑے اور بڑے ہی ذوق و شوق اور انتہائی اشتیاق کے ساتھ درخواست کی کہ یارسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) دعا فرمائیے کہ مجھے خداکی راہ میں شہادت نصیب ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کسی درخت کی چھال لاؤ۔ وہ تھوڑی سی ببول کی چھال لائے۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے بازو پر وہ چھال باندھ دی اور دعا کی کہ اے اﷲ! میں نے اس کے خون کو کفار پر حرام کر دیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرا مقصد تو شہادت ہی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جب تم جہاد کے لئے نکلے ہو تو اگر بخار میں بھی مرو گے جب بھی تم شہید ہی ہو گے۔ خدا عزوجل کی شان کہ جب حضرت ذوالبجادین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تبوک میں پہنچے توبخار میں مبتلا ہو گئے اور اسی بخار میں ان کی وفات ہو گئی۔
حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ان کے دفن کا عجیب منظر تھا کہ حضرت بلال مؤ ذن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہاتھ میں چراغ لئے ان کی قبر کے پاس کھڑے تھے اور خود بہ نفس نفیس حضور ِاکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حکم دیا کہ تم دونوں اپنے اسلامی بھائی کی لاش کو اٹھاؤ۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اپنے دستِ مبارک سے لحد میں سلایا اور خود ہی قبر کو کچی اینٹوں سے بند فرمایا اور پھر یہ دعا مانگی کہ یااﷲ! میں ذوالبجادین سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دفن کا یہ منظر دیکھا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ کاش! ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ یہ میری میت ہوتی۔ (1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۵۰ و ص۳۵۱)
0 Comments: