حدیث شریف میں ہے کہ جب دو مسلمان ملیں اور مصافحہ کریں اور اﷲعزوجل کی حمد کریں اور استغفار کریں تو دونوں کی مغفرت ہو جائے گی۔ (سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی المصافحۃ،رقم۵۲۱۱،ج۴،ص۴۵۳)
مسئلہ:۔مصافحہ سنت ہے اور اس کا ثبوت متواتر حدیثوں سے ہے اور احادیث میں اس کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی سے مصافحہ کیا اور ہاتھ کو ہلایا تو اس کے تمام گناہ گر جائیں گے جتنی بار ملاقات ہو ہر بار مصافحہ کرنا مستحب ہے مطلقاً مصافحہ کا جائز ہونا یہ بتاتا ہے کہ نماز فجر و نماز عصر کے بعد جو اکثر جگہ مصافحہ کرنے کا مسلمانوں میں رواج ہے یہ بھی جائز ہے اور فقہ کی جو بعض کتابوں میں اس کو بدعت کہا گیا ہے اس سے مراد بدعت حسنہ ہے اور ہر بدعت حسنہ جائز ہی ہوا کرتی ہے۔ اور جس طرح نماز فجر و عصر کے بعد مصافحہ جائز ہے دوسری نمازوں کے بعد بھی مصافحہ کرنا جائز ہے کیونکہ جب اصل مصافحہ کرنا جائز ہے تو جس وقت بھی مصافحہ کیا جائے جائز ہی رہے گا جب تک کہ شریعت مطہرہ سے اس کی ممانعت ثابت نہ ہو جائے اور ظاہر ہے کہ پانچوں نمازوں کے بعد مصافحہ کرنے کی کوئی ممانعت شریعت کی طرف سے ثابت نہیں ہے لہٰذا پانچوں نمازوں کے بعد مصافحہ جائز ہے ۔ (الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء،ج۹،ص۶۲۸)
مسئلہ:۔مصافحہ کا ایک طریقہ وہ ہے جو بخاری شریف میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا مبارک ہاتھ ان کے دونوں ہاتھوں کے درمیان میں تھا یعنی ہر ایک کا ایک ہاتھ دوسرے کے دونوں ہاتھوں کے درمیان میں ہو دوسرا طریقہ جس کو بعض فقہا نے بیان کیا ہے اور اس کو بھی حدیث سے ثابت بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنا داہنا ہاتھ دوسرے کے داہنے ہاتھ سے اور بایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے ملائے اور انگوٹھے کو دبائے کہ انگوٹھے میں ایک رگ ہے کہ اس کے پکڑنے سے محبت پیدا ہوتی ہے ۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۸)
مسئلہ:۔وہابی غیر مقلد دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کو ناجائز اور خلاف سنت بتاتے ہیں اور صرف ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں یہ ان لوگوں کی جہالت ہے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے صاف صاف تحریر فرمایا ہے کہ۔
ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے اور دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا چاہے۔ (اشعۃ اللمعات،کتاب الآداب،باب المصافحۃ والمعانقۃ،ج۴،ص۲۲)
مسئلہ:۔معانقہ کرنا بھی سنت ہے کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے معانقہ فرمایا ہے ۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۸)
مسئلہ:۔بعد نماز عیدین مسلمانوں میں معانقہ کا رواج ہے اور یہ بھی اظہار خوشی کا ایک طریقہ ہے یہ معانقہ بھی جائز ہے بشرط یہ کہ فتنہ کا خوف اور شہوت کا اندیشہ نہ ہو مثلاً خوبصورت امرد لڑکوں سے معانقہ کرنا کہ یہ فتنہ کا محل ہے لہٰذا اس سے بچنا چاہے ۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۸)
مسئلہ:۔کسی مرد کے رخسار یا پیشانی یا ٹھوڑی کو بوسہ دینا اگر شہوت کے ساتھ ہو تو ناجائز ہے اور اگر اکرام و تعظیم کے لئے ہو تو جائز ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان کو بوسہ دیا اور حضرات صحابہ و تابعین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بھی بوسہ دینا ثابت ہے۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۸۔۹۹)
مسئلہ:۔عالم دین اور بادشاہ عادل کے ہاتھ کو بوسہ دینا جائز ہے بلکہ ان لوگوں کے قدم کو چومنا بھی جائز ہے بلکہ اگر کسی عالم دین سے لوگ یہ خواہش ظاہر کریں کہ آپ اپنا ہاتھ یا قدم مجھے دیجئے کہ میں بوسہ دوں تو لوگوں کی خواہش کے مطابق وہ عالم اپنا ہاتھ پاؤں بوسہ کیلئے لوگوں کی طرف بڑھا سکتا ہے ۔ (الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۱۔۶۳۲)
مسئلہ:۔بعض لوگ مصافحہ کرنے کے بعد خود اپنا ہاتھ چوم لیا کرتے ہیں یہ مکروہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہے ۔
(الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۲)
بوسہ کی چھ قسمیں:۔یاد رکھو کہ بوسہ کی چھ قسمیں ہیں(۱)بوسہ رحمت جیسے ماں باپ کا اپنی اولاد کو بوسہ دینا (۲)بوسہ شفقت جیسے اولاد کا اپنے والدین کو بوسہ دینا (۳)بوسہ محبت جیسے ایک شخص اپنے بھائی کی پیشانی کو بوسہ دے (۴)بوسہ تحیت جیسے بوقت ملاقات ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو بوسہ دے (۵)بوسہ شہوت جیسے مرد عورت کو بوسہ دے (۶)بوسہ دیانت جیسے حجرا سود کا بوسہ۔ (الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۳)
مسئلہ:۔قرآن شریف کو بوسہ دینا بھی صحابہ کرام کے فعل سے ثابت ہے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کو قرآن مجید کو چومتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ میرے رب کا عہد اور اس کی کتاب ہے اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی قرآن مجید کو بوسہ دیتے تھے اور اپنے چہرے سے لگاتے تھے۔ (الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۴)
مسئلہ:۔سجدہ تحیت یعنی ملاقات کے وقت تعظیم کے طور پر کسی کو سجدہ کرنا حرام ہے اور اگر عبادت کی نیت سے ہوتو سجدہ کرنے والا کافر ہے کہ غیر خدا کی عبادت کفر ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۲)
مسئلہ:۔آنے والے کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا جائز بلکہ مستحب ہے خصوصاً جب کہ ایسے شخص کی تعظیم کیلئے کھڑا ہو جو تعظیم کا مستحق ہے مثلاً عالم دین کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۲۔۶۳۳)
مسئلہ:۔جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ میری تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اس کی یہ خواہش مذموم اور ناپسندیدہ ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۳)
بعض حدیثوں میں جو قیام کی مذمت آئی ہے اس سے مراد ایسے ہی شخص کے لئے قیام ہے یا اس قیام کو منع کیا گیا ہے جو عجم کے بادشاہوں میں رائج ہے کہ سلاطین اپنے تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں اور اس کے ارد گرد تعظیم کے طور پر لوگ کھڑے رہتے ہیں آنے والے کے لئے قیام کرنا اس قیام میں داخل نہیں۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۰۰)
0 Comments: