بیمار کا حال پوچھنا بڑے ثواب کا کام ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کے لئے صبح کو جائے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں ۔ (سنن ابو داود،کتاب الجنائز،باب فی فضل العبادۃ،رقم ۳۰۹۸،ج۳،ص۲۴۸)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی بیمار پرسی کے لئے جاتا ہے تو آسمان سے ایک اعلان کرنے والا فرشتہ یہ ندا کرتا ہے کہ تو اچھا ہے اور تیرا چلنا اچھا ہے اور جنت کی ایک منزل کو تو نے اپنے ٹھکانا بنالیا ۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی ثواب ۔۔۔الخ،رقم ۱۴۴۳،ج۲،ص۱۹۲)
مسئلہ:۔مریض کی بیمار پرسی کے لئے جانا سنت اور ثواب ہے لیکن اگر معلوم ہو کہ بیمار پرسی کو جائے گا تو مریض پر گراں گزرے گا تو ایسی حالت میں بیمار پرسی کو نہ جائے۔ (بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۲۵)
مسئلہ:۔دوا وعلاج کرنا جائز ہے جب کہ یہ اعتقاد ہو کہ درحقیقت شفا دینے والا اﷲتعالیٰ ہی ہے اور اس نے دواؤں کو مرض کے زائل کرنے کا سبب بنا دیا ہے اگر کوئی دوا ہی کو شفا دینے والا سمجھتا ہے تو اس اعتقاد کے ساتھ دوا علاج کرنا جائز نہیں ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر فی التداوی۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۴)
مسئلہ:۔حرام چیزوں کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنا جائز نہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو چیزیں حرام ہیں ان میں اﷲ تعالیٰ نے شفا نہیں رکھی ہے۔ (سنن ابوداود،کتاب الطب ،باب فی الاد ویۃ المکروھۃ،رقم ۳۸۷۴،ج۴،ص۱۱)
انگریزی دوائیں بکثرت ایسی ہیں جن میں اسپرٹ الکحل اور شراب کی آمیزش ہوتی ہے ایسی دوائیں ہرگز استعمال نہ کی جائیں ۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۲۶)
مسئلہ:۔شراب سے خارجی علاج بھی ناجائز ہے جیسے زخم میں شراب لگائی یا کسی جانور کے زخم پر شراب کا پھایا رکھا یا شراب ملے ہوئے مرہم یا لیپ کو بدن پر لگایا یابچہ کے علاج میں شراب کا استعمال کیا ان سب صورتوں میں وہ گنہگار ہوا جس نے شراب کو استعمال کیا یا کرایا۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر فی التداوی۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۵)
مسئلہ:۔کوئی شخص بیمار ہوا اور دوا علاج نہیں کیا اور مرگیا تو گنہگار نہیں ہوا ۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر فی التداوی۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۵)
مطلب یہ ہے کہ دوا علاج کرنا فرض یا واجب نہیں ہے کہ اگر دوا نہ کرے اور مر جائے تو گنہ گار ہو ہاں البتہ بھوک پیاس کا غلبہ ہو اور کھانا پانی موجود ہوتے ہوئے کچھ کھا یا پیا نہیں اور بھوک پیاس سے مر گیا تو ضرور گنہ گار ہوگا کیونکہ یہاں یقیناً معلوم ہے کہ کھانے پینے سے اس کی بھوک پیاس چلی جاتی اور بھوک پیاس کی وجہ سے اس کی موت نہ ہوتی۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر فی التداوی۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۵)
مسئلہ:۔حقنہ کرنے یعنی عمل دینے میں کوئی حرج نہیں جب کہ حقنہ ایسی چیز کا نہ ہو جو حرام ہے مثلاً شراب ۔ (الد رالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۴۰۔۶۴۱)
مسئلہ:۔بعض امراض میں مریض کو بے ہوش کرنا پڑتا ہے تاکہ گوشت کاٹا جاسکے یا ہڈی کو کاٹایا جوڑ اجاسکے یا زخم میں ٹانکے لگائے جائیں اس ضرورت سے دواؤں کے ذریعہ مریض کو بے ہوش کرنا جائز ہے۔ (بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۲۷)
مسئلہ:۔حقنہ لگانے یا پیشاب اتارنے کے لئے سلائی چڑھانے میں اس جگہ کی طرف دیکھنے اور چھونے کی نوبت آتی ہے بوجہ ضرورت ایسا کرنا جائز ہے۔ (تبیین الحقائق،کتاب الکراہیۃ،باب النظر والمس،ج۷،ص۴۰)
مسئلہ:۔اسقاط حمل کے لئے دوا استعمال کرنا یا دوائی سے حمل گروانا منع ہے بچہ کی صورت بن گئی ہو یا نہ بنی ہو دونوں صورتوں میں حمل گرانا ممنوع ہے لیکن ہاں اگر کوئی عذر ہو مثلاً بچہ پیدا ہونے میں عورت کی جان کا خطرہ ہو یا عورت کے شیر خوار بچہ ہے اور حمل سے دودھ خشک ہو جائے گا اور کوئی دودھ پلانے والی عورت مل نہیں سکتی اور باپ کے پاس اتنی وسعت نہیں کہ وہ بچہ کے لئے دودھ کا انتظام کر سکے اور بچہ کے ہلاک ہو جانے کا اندیشہ ہوتو ان صورتوں میں مجبوری کی وجہ سے حمل گرایا جا سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ بچے کے اعضاء نہ بنے ہوں اور اس کی مدت ایک سو بیس دن ہے یعنی اگر حمل ایک سو بیس دن کا ہو چکا ہو اور بچے کے اعضاء بن چکے ہوں تو ایسی صورت میں حمل گرانے کی اجازت نہیں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر فی التداوی۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۶)
مسئلہ:۔بیماری میں نقصان دینے والی چیزوں سے پرہیز کرنا سنت ہے بد پرہیزی نہیں کرنی چاہے۔
مسئلہ:۔مریض کو کھلانے پلانے میں زبردستی نہیں کرنی چاہے حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہے کہ مریضوں کو کھانے پر مجبور نہ کرو کیونکہ مریضوں کو اﷲ تعالیٰ کھلاتا پلاتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب لاتکرھوا المریض۔۔۔الخ،رقم۳۴۴۴،ج۴،ص۹۲)
اور یہ بھی فرمان نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہے کہ جب مریض کھانے کی خواہش کرے تو اسے کھلا دو۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب المریض یشتھی الشئی، رقم۳۴۴۰،ج۴،ص۹۰)
یہ حکم اس وقت ہے کہ کھانا مریض کو مضر نہ ہو اور کھانے کی اشتہاء صادق ہو۔
مسئلہ:۔جن بیماریوں سے دوسروں کو نفرت ہوتی ہے جیسے خارش کوڑھ وغیرہ ایسے مریضوں کو چاہے کہ وہ خود سب سے الگ الگ رہیں تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔
0 Comments: